بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلٰی
رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
67سالہ پاکستان آج نہایت کڑے امتحان میں ہے اس میں ہر طرف سٹریٹ
کرائمز(Street Crimes)،بد امنی ، ٹارگٹ کلنگ اغوابرائے تاوان ،بھتہ خوری
،کرپشن کا بازار گرم ہے دھماکے، ڈاکے اور فاقے روزمرہ کامعمول قرار پا چکے
ہیں۔ رہی سہی کسرپاکستان کی محافظ افواج کے خلاف انتہائی زیر یلے پراپیگنڈے
نے نکال دی ہے۔ پاکستان وہ مقدس سلطنت ہے جس کی تقریبا 97فیصد آبادی مسلمان
ہے ۔اسلام کی بنیاد پر ہی پاکستان معرض وجود میں آیا ۔ اسلام اور جہاد فی
سبیل اﷲ کی بنیاد پر ہی افواج پاکستان دفاع پاکستان کے لیے اپنی جانیں
نچھاور کرتی رہی ہیں ۔ بد قسمتی سے لبرلز اور سیکولرز (Libberals and
Seculars) کا طبقہ اور اکھنڈ بھارت مزاج لوگ شروع سے ہی پاک بھارت باؤنڈری
کو ایک عارضی اور غیر ضروری خط قرار دیتے آئے ہیں ۔ظاہر ہے وہ لوگ جب اس خط
کو فضول سمجھتے ہیں تو اس کی حفاظت ان کے نز دیک کیا معنی رکھتی ہے ۔چنانچہ
سیکو رٹی فورسز کاوجود ہی ان کے لحاظ سے ملکی معیشت پر بوجھ اور ایک سفید
ہا تھی کی حیثیت رکھتا ہے ان لوگوں نے بڑے تسلسل کے ساتھ ذہنوں کو پائزن
(Poison)کیا ۔ اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کے دو ر میں امریکہ میں پاکستان کے
سفیر حسین حقانی کی طرف سے فوج کے خلاف امریکہ کو خط لکھے جانے کا کافی
چرچا ہوا جس کے بارے میں سپریم کورٹ میں دعوی بھی دائر کیا گیا تھا
۔برطانیہ میں پاکستان کے حالیہ سفیر کامران شفیع کے مضامین بھی افواج
پاکستان کے خلاف چھپتے رہے ہیں ۔حالیہ حکومت میں بھی کچھ مہینوں سے سول
ملٹری تعلقات (Civil and Military Realations)کے لحاظ سے واضح تناؤ دیکھا
جا رہا ہے اگرچہ یہ دعوی کیا گیا ہے کہ حکومت اور ملٹری ایک پیج (Page)پر
ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کچھ وزراء کے بیانات کے لھجے نے یہ واضح کر دیا ہے کہ
پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت میں کشیدگی اور ناراضگی موجود ہے۔ اس کی
اندرونی وجوہات کیا ہے ؟ یہ تو واضح نہیں ہے لیکن ایک بڑی وجہ یہ نظر آتی
ہے گزشتہ دس سال سے سیکورٹی فورسز نے جس حوصلہ اور بہادری سے ارض وطن کی
حفاظت کے لیے کردار ادا کیا ہے۔ حکومت کی طرف سے اس اعزاز اور احترام کی
نگاہ سے نہیں دیکھا گیا جیسے دیکھنا چاہیئے تھے بلکہ کئی مواقع پر دہشت
گردوں کے ساتھ مذاکرات کے شوق میں حکومت کی طرف ایسے بیانات داغے گئے اور
ایسے فیصلے کئے گئے جس پر سیکورٹی فورسز کو اپنے ہزاروں جوانوں کی شہادت پر
ایک بار پھر آنسو بہانے پڑے ۔ کچھ سیاسی اور مذہبی قائدین نے دہشت گردوں کے
خلاف برسرپیکار فوج کی قربانیوں کی جب تضحیک کی تو حکومت نے اس پر مکمل
خاموشی اختیار کی جیسے حکومت کو فوج کے وقار سے کوئی سروکار نہ ہو ۔
ستم با لائے ستم یہ ہے جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن جیسے لیڈروں
نے دہشتگردں کے خلاف جنگ میں شہید ہو نے والے سیکورٹی فورسز کے جوانوں کو
شہید نہ مان کے پاک فوج کے زخموں پر نمک پاشی کی ۔دہشت گردوں کی طرف سے
افواج پاکستان پر جو فتوے داغے گئے۔ ایسے تیر 65ء اور ء 71ء میں بھارتی
دشمن بھی نہیں برسا سکے ۔پاک آرمی کے جوانوں کی وردی جو پاک بھارت جنگوں
میں فتح و غیرت کا شعار قرار پائی اس کے تقدس کی پامالی میں کوئی کسر نہ
چھوڑی گئی حالانکہ بعض صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین نے بوقت وصال یہ
خواہش کی تھی کہ ہمیں ان کپڑوں میں کفن دیا جائے جو ہم نے بدر کی جنگ میں
پہن کر جہاد کیا تھا ہم اﷲ تعالی سے انہیں کپڑوں میں ملاقات کرنا چاہتے ہیں
جنہیں پہن کر دشمنان اسلام کی کمر توڑی تھی ۔ پاکستانی فوجیوں کے سروں سے
کھیلے گئے فٹبال کا منظر دیکھیں توجسم کے بال کھڑے ہو جاتے ہیں ۔اس سب کچھ
کے باوجود پاکستانی فوج کا مورال (Morale)نہایت باکمال اور بے مثال ہے۔
کراچی میں لسانی عفریت ،بلوچستان میں علیحدگی پسند درندگی اور وزیرستان اور
پختون علاقوں میں مذہبی دہشتگردی کا مقابلہ جس انداز میں فوج نے کیا ہے یہ
اپنی مثال آپ ہے یہ اپنی نوعیت کی انسانی تاریخ کے لحاظ سے مشکل ترین جنگوں
میں سے ایک جنگ تھی جو افواج پاکستان نے بڑی ہمت اور شجاعت سے لڑی ہے اورلڑ
رہی ہے۔ ہماری فوج نے دفاع وطن کیلئے خون کا سمندر عبور کیا ۔یہ جوان آتش و
آہن سے نبرد آزما ہوئے مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری ،غیر ملکی جدید ترین
بھاری ہتھیاروں اور بارودی سرنگوں سے بھی یہ سرنگوں نہیں ہوئے ۔ اس سے پتہ
چلتاہے کہ ہماری افواج برائلر نہیں بلکہ اس کے مزاج میں آج بھی اس گئے گزرے
دور میں بھی ایمان ،تقوی اور جہاد فی سبیل اﷲ کا وہ عنصر ہے جس کی وجہ سے
اس کی استقامت قابل تحسین ہے ۔ ہماری فوج کا شمار دنیا کی اعلی درجے کی
پیشہ وارانہ افواج میں ہوتا ہے بلکہ کئی وجوہ سے اس کے ہر ہر جوان ائیر مین
اور سیلر کا جذبہ منفرد ہے ایک امریکی رپورٹ کے مطابق صر ف ایک جنوری کے
مہینے میں امریکی فوج کی چالیس ہلاکتوں میں سے 24 نے خود کشی کی ہے۔
پاکستانی فوج کا مقابلہ سخت ترین جنگ جوؤں کے ساتھ ہے اور اقوم متحدہ کی
امن فوج میں سب سے بڑ احصہ پاکستانی فوج کا ہے اس کے باوجود کسی پاکستانی
فوجی کے خود کشی کرنے کی کوئی مثال نہیں ہے یہی وہ جذبہ ہے جو ایمان اور
جہاد فی سبیل اﷲ کی برکت سے حاصل ہوتا ہے ۔چونکہ افواج پاکستان کا کام ملک
دشمن عناصر کا مقابلہ کرنا ہے اور وہ شروع سے اپنا فریضہ سرانجام دے رہی ہے
۔اور ملک دشمن عناصر نے ہمیشہ ڈالر اور پاؤنڈ لے کر افواج پاکستان کو عوام
کی نظروں میں گرانے کی کوشش کی ہے ۔ امریکہ ،اسرائیل اور انڈیا کی شدید
خواہش ہے کہ پاک فوج کو گھر ہی میں متنازعہ بنا دیا جائے ان کی خوہش کو
پورا کرنے کیلئے کچھ لوگ ادھار کھائے بیٹھے ہیں جن میں سیکولر ،ریڈ مارک
برادری کے کچھ اینکر ز اور ایمپائرزہیں جو امن کی آشا کو سلام کرتے ہیں ۔
مادر وطن کی عظمت کو بھول جاتے ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ صحافت نہایت
مقدس شعبہ ہے ۔ اور پاکستان کے قیام اور بقا میں اہل صحافت کی خدمات کسی سے
کم نہیں اور اب تک سو صحافیوں کی شہادت ایک بہت بڑا المیہ ہے لیکن نامور
صحافی حامد میر پر افسوسناک حملہ کے بعد جس طرح افواج پاکستان اور بالخصوص
آئی ، ایس ،آئی کو نشانہ بنایا گیا اس سے ملک کی سرحدوں کے محافذوں پر جو
بیتی ہے وہ اپنی جگہ، اہل وطن کے اذہان میں بھی اس کے کئی سوالوں نے جنم
لیا ہے۔ لگتا ہے پاکستان گہری سازشوں کی لپیٹ میں آچکا ہے ۔آئی ،ایس ،آئی
فوج کا وہ ادارہ ہے جو ایک فرنٹ دفاعی لائین ہے ۔ آئی ایس آئی کے خلاف ایف
،آئی ،آر کٹوانے والوں اور اسے مورد الزام قرار دینے والوں کی لمبی فہرست
ہے اس میں بھارت ،امریکہ ، اسرائیل ، افغانستان اور روس پیش پیش ہیں
۔کیونکر نہ ہو آخر سی آئی اے ،کے جی بی ،موساد ،رااور دیگر کتنے غیر ملکی
انٹیلی جینٹس اداروں کو شکست دینے کا سہرا آئی ایس آئی کے سر ہے ۔ہمارے
دشمنوں کو کشمیر میں تحریک آزادی اور سینٹرل ایشیا کی اسلامی ریاستوں کو
دیکھتے ہی آئی ایس آئی کا تصور آجاتا ہے ۔مگر اندرون خانہ صورتحال دوسری
نظر آ رہی ہے۔پاکستان کو اس وقت چیلنجوں اور چینلوں کا سامنا ہے کچھ آنکھوں
کو ڈالر کی جھالر اور کچھ ریالوں کے بالوں کی وجہ سے پاک فوج کی قربانیاں
نظر نہیں آ رہیں اور کچھ حضرات پاؤنڈ کی وجہ سے باؤنڈ ہو چکے ہیں ۔ بندہ
اہل وطن سے ان سطور کے ذریعے یہ ضرور کہنا چاہتا ہے کہ ماضی کے چند جرنیلوں
کے مخصوص کارناموں کی بنیاد پر پوری فوج پر زبان طعن دراز نہ کی جائے یہ
ٹھیک ہے جنرل ایوب خان کے دور میں میر جاوا سمیت بلوچستان کا ایک بڑا علاقہ
ایران کے حوالے کر دیا گیا ۔ جنرل یحی خان کے دورمیں مشرقی پاکستان کی
علیحدگی ضرب کاری لگی ۔جنرل ضیاء الحق کے دور میں اندرونی طور پر کلاشنکوف
کلچر نے جنم لیا جو موجودہ دہشت گردی کی کوکھ قرار پا یا اور بیرونی محاذ
پر سیا چن گلیشئر پر بھارت نے قبضہ کر لیا اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں
خواتین بل اور کارگل کا صدمہ پہنچا یہ حادثے بھلائے نہیں جا سکتے ۔مگر 67
سال سے پاکستانی سرحدوں کے اندر ہر کسی کی موج یقینا فوج کی مرہون منّت ہے
۔ سردیوں کی یخ بستہ راتوں میں اور چلچلاتی اور بھون دینے والی دھوپوں میں
جب سب میٹھی گہری نیند سو رہے ہوتے ہیں ، ائر کنڈیشن کمروں میں خراٹے لے
رہے ہوتے ہیں ۔اس وقت پنجاب کے سرحدی بیلوں اور میدانوں میں،سند ھ کے طویل
ریگستانوں میں ، خیبر پختونخواہ کی سنگلاخ چٹانوں میں اور بلوچستان کے بے
آب و گیاہ ویرانوں میں موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پہرا دینے والے اسی
پاک فوج کے جوان ہوتے ہیں۔ اپنی ماؤں، بہنوں اور بیوی بچوں سے دور ،اپنے
گھروں، ڈیروں اور محلوں سے بعید، مادر وطن کی حرمت او رتقدس کی حفاظت کیلئے
چناروں کی ٹہنیوں ،پہاڑوں کی چوٹیوں اور مورچوں کی تنہائیوں سے دل لگا کر
اپنا فریضہ سرانجام دیتے ہیں ۔سیاچن کے منفی 40 سینٹی گریڈ موسم کے منجمد
برف زاروں کو اپنے جذبوں کی حرارت سے شکست دیتے ہیں جو کفار کی فوج کو
اسلامی سلطنت میں داخل ہونے سے روک کے کھڑا ہے اس کیلئے انعام کیا ہے ۔ سچ
فرمایا رسول اکرم ﷺ نے کہ رِبَاطُ یَوْمٍ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ خَیْرٌ مِنْ
الدُّنْیَا وَمَا عَلَیْہَاایک دن اسلامی ملک کی سرحد پر پہرہ دینا دنیااور
اس کی ہر چیز سے بہتر ہے ۔ (بخاری شریف کتاب الجہاد باب فضل رباط یوم فی
سبیل اﷲ رقم الحدیث :2892 ) حقیقت میں بات یہ ہے کہ کفا رکے ساتھ دوستانہ
مزاج کی وجہ سے ہی آج کے روشن خیالوں کو یہ اندازہ نہیں کہ جہاد اسلامی کا
مقام کیا ہے ؟حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ تعالی کا فرمان ہے ۔
إِنِّیْ لَأُجَہِّزُ جَیْشِی وَأَنَا فِی الصَّلَاۃِ
(بخاری شریف کتاب الجمعۃ باب تفکر الرجل الشیء فی الصلوۃ)
میں نماز میں ہوتا ہوں اور ساتھ ساتھ لشکر کی تیاری کر رہا ہوتا ہوں ۔
ایک مجاہد فوجی جوان کی قدر و قیمت کیا ہے؟اس کو سمجھنے کیلئے فرمان رسول ﷺ
کو ذہن میں رکھا جائے ۔ جو گھوڑاجہاد کے لئے پالاگیا اس کے بارے میں آپ ﷺ
نے ارشاد فرمایا :
فَأَمَّا الَّذِی لَہُ أَجْرٌ فَرَجُلٌ رَبَطَہَا فِی سَبِیلِ اللّٰہِ
فَأَطَا لَ فِی مَرْجٍ أَوْ رَوْضَۃٍ فَمَا أَصَابَتْ فِی طِیَلِہَا ذَلِکَ
مِنْ الْمَرْج ِ أَوْ الرَّوْضَۃِ کَانَتْ لَہُ حَسَنَاتٍ وَلَوْ أَنَّہَا
قَطَعَتْ طِیَلَہَا فَاسْتَنَّتْ شَرَفًا أَوْ شَرَفَیْنِ کَانَتْ
أَرْوَاثُہَا وَآثَارُہَا حَسَنَاتٍ لَہُ وَلَوْ أَنَّہَا مَرَّتْ بِنَہَرٍ
فَشَرِبَتْ مِنْہُ وَلَمْ یُرِدْ أَنْ یَسْقِیَہَا کَانَ ذَلِکَ حَسَنَاتٍ
لَہُ(صحیح بخاری کتاب الجہاد و السیر باب الخیل لثلاثۃ رقم الحدیث 2371)
وہ گھوڑا جو اپنے مالک کے لئے اجر ہے یہ وہ گھوڑا ہے جو ایک شخص نے اﷲ کے
راستے میں جہاد کیلئے رکھا ہوا ہے پس اسے رسی سے باندھ کر لمبا چھوڑ دیا ہے
چراگاہ میں یا باغ میں وہ اپنی رسی میں بندھے ہونے کے دوران چراگاہ یا باغ
سے جو چرتا ہے مالک کے لئے وہ نیکیاں ہوتی ہیں اور اگر وہ رسی توڑ کر ایک
یا دو چکر لگائے یا ایک دو ٹیلوں پہ چڑھے تو اس کی لید اور اور اس کے قد
موں کے آثار بھی مالک کے لئے اجر ہیں یہاں تک کہ اگر وہ رسی توڑ کے دوڑنے
کی حالت میں کسی نہر سے گزرا اور اس سے پانی پی لیا حالانکہ اس کے مالک نے
اسے پانی پلانے کا ارادہ بھی نہیں کیا تھا یہ پانی کی ہر بوند مالک کیلئے
نیکی بن جائے گی ۔ قارئین کرام !یہ جہاد کیلئے رکھے گئے ایک گھوڑے کا مقام
ہے جو ایک جہاد فی سبیل اﷲ کے ماٹو والا شیر جوان ہوجو اشرف المخلوقات بھی
ہے اور خیر الامت کا فرد بھی ہے۔ اس کا مرتبہ کس قدر بلند و بالا ہو گا ۔
آج کے حکمرانوں کو یہ خبر نہیں کہ ایک فو جی مجاہد کتنا قیمتی ہے اور کس
قدر اس کی حفاظت کرنی چاہیئے ۔ آج کہیں ڈیڑھ ارب کے بد لے میں فوج کو اجرتی
قاتل بنانے کی باتیں زبان زد خلق ہیں کہیں انہیں دہشت گردوں کی ہوسِ بربریت
کا لقمہ تر سمجھا جا رہا ہے جیسے یہ جنگلی کیکروں کے پتے ہیں جو چاہے جھاڑ
لے۔ پاکستان کے حکمرانوں ،اسٹیٹ کے باغیوں اور دہشت گردوں سے مذاکرات کے
عمل میں اس نقصان کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جاتا کہ کتنے ہزار سکیورٹی فورس
کے جوانوں کی شہادت ہو چکی ہے امن کا ایک موقع دینے کے نام پر دہشت گردوں
کی ناز برداری کرتے ہوئے سکیورٹی فورسزکے تڑپتے لاشوں کو معمولی سمجھا ہے ۔
حالانکہ امام ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اﷲ
تعالی عنہ کے عہد حکومت میں حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالی عنہ نے قبرص کی
فتح کیلئے بحری جنگ کی اجازت مانگی تو آپ نے حضرت عمر و بن العاص رضی اﷲ
تعالی عنہ کو لکھا کہ آپ مجھے بحر شام میں سفر کے متعلق سروے کر کے بھیجیں
اگر راستے خطرے سے خالی ہو ں تو فوج بھیجی جائے حضرت عمر و بن العاص رضی اﷲ
تعالی عنہ نے جوابی خط میں لکھا۔ إِنِّیْ رَأَیْتُ خَلْقًا کَبِیْرًا
یَرْکَبُہ‘ خَلْقٌ صَغِیْرٌإِنْ رَکِنَ خَرَّقَ الْقُلُوْبَ وَإِنْ
تَحَرَّکَ أَزَاغَ الْعُقُوْلَ یَزْدَادُ فِیْہِ الْیَقِیْنُ قِلَّۃً
وَالشَّکُّ کَثْرَۃً ہُمْ فِیْہِ کَدُوْدٍ عَلٰی عَوْدٍ إِنْ مَالَ غَرَقَ
وَإِنْ نَجَا بَرِقَ…… (تاریخ طبری ، سیر اعلام النبلاء 2 \ 585 )میں نے
ایک بڑی مخلوق کو دیکھا جس پر چھوٹی مخلوق سوار ہوتی ہے اگر وہ سمندر رک
جائے تو دلوں کو جلا دیتا ہے اور اگر حرکت میں آئے تو ہوش اڑا دیتاہے اس
میں یقین گھٹتا ہے اور شک بڑھتا ہے ۔اس سمندر میں سفر کرنے والوں کی مثال
یوں ہے جسے لکڑی پر کیڑ ابیٹھا ہو اور اگر لکڑی سے تھوڑا سے نیچے ہو گا تو
ڈوب جائے گا اور اگر نیچے نہ ہو اور نجات پا جائے تو وحشت زدہ ہو گا ۔حضرت
عمر رضی اﷲ تعالی عنہ نے فیصلہ یہ کیا کہ
تَاللّٰہِ اَلْمُسْلِمُ اَحَبُّ اَلَیَّ مَنْ کُلِّ مَا فِیْ الْبَحْرِ
خداکی قسم ایک مسلمان میرے نزدیک سمندر میں جو کچھ ہے اس کے مقابلے میں
قیمتی ہے ۔ |