بزرگ کہتے تھے کہ حکومت عوام کی خادم ہے مگرآج مجھے
لگتاہے کہ پاکستان میں عوام حکومت کی خادم ہے خود ہی دیکھ لیجئے کہ عوام
اپنی روزمرہ کی اشیا پر کس قدر رقوم خرچ کر کے اپنے اوپر حکومت کرنے والے
ناعاقبت اندیش لیڈران کی عیاشی کا سامان پیدا کرتی ہے۔ جاگیر دارحکمران
طبقہ آرام و آسائش میں زندگی گزار رہے ہیں وہیں عوام ظلم وستم اور غربت کی
چکی میں پس رہے ہیں ۔آج عوام کا کوئی مخلص ہمدرد نظر نہیں آتا ہے۔ عوام پر
طرح طرح کے جرمانے(Taxes)لگا کر حکمران طبقہ اپنے خزانے بھر رہاہے' اپنے
مفاد ات کی خاطر ملک او عوا م کو دا پر لگایا ہوا ہے۔ اب تک پتا نہیں کتنے
لوگ غیروں کے ہاتھوں بیچ کر دولت کمائی جاچکی ہے ۔کتنے بیگناہ ڈرون حملوں
میں مارے جاچکے ہیں ، کتنے ہی خودکش حملوں کی نظر ہو جاتے ہیں ،کتنے غربت
کی وجہ سے اپنی اوراپنے بچوں کی جان لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔جن کی
کھیلنے کی عمر ہوتی ہے وہ کھلونوں ،کتابوں کی بجائے روٹی کے متلاشی ہوتے
ہیں عوام کو کوئی بھی تو پوچھنے والا نہیں ہے ۔ بچاری عوام جائے تو جائے
کہاں روز بروز بڑھتی مہنگائی نے ان کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ان حالات میں
داکٹر طاہرالقادری اور عمران خان اپنے اپنے طور پر قوم کو اس استحصال سے
بچانے کیلئے اپنی اپنی انقلانی ریلیوں ' لانگ مارچ اور دھرنوں میں مصروف
ہیں اور دونوں ہی کا نعرہ نظام کی تبدیلی و انقلا ب ہے اب اس انقلاب کی
منزل ایوان میں چہروں کی تبدیلی سے مشروط ہے یا ہر شعبہ زندگی میں اصلاحی
تبدیلیوں کوانقلاب کا نام دیا جائے گا اس کا فیصلہ آنے والا وقت اور عوام
کریں گے لیکن ابھی تک اس بات کے آثاردکھائی نہیں دے رہے ہیں کہ انقلاب کی
اس سیاست میں طاہرالقادری اور عمران خان کو عوام کی کتنی حمایت حاصل ہوگی
اور کتنے افراد ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے گھروںسے باہر آئیں گے کیونکہ
عوام کے تجربات نے تمام سیاستدانوں کو یکساں ثابت کیا ہے اور وہ یہ کہنے پر
مجبورہیں کہ سابق اور موجودہ دور حکومت میں کوئی تفریق نہیں ہے وہ کل بھی
پریشان ' بدحال ' مایوس اور خوفزدہ تھے اور آج بھی عدم تحفظ کے احسا س سے
ودوچار ہیں ' کل بھی بجلی 'پانی گیس کے مسائل زندگی کو عذاب بنائے ہوئے تھے
آج بھی 6ماہ میں بجلی کی لوڈشیڈنگ سے نجات دلانے کا وعدہ کرنے والے وعدہ
فراموش کرکے تین مہینے سخت ترین لوڈ شیڈنگ کیلئے ذہنی طور طور تیار رہنے کا
حکم فرمارہے ۔ عوام کے نزدیک جمہوریت و آمریت میںبھی کوئی فرق نہیں ہے
کیونکہ آمریت میں بھی فیصلے یک شخصی ہوا کرتے تھے اور آج جمہوریت میں بھی
فیصلے پارٹی سربراہ کی مرضی و منشاء کے مطابق کئے جارہے ہیں ' پارلیمنٹ کل
بھی ربڑ اسٹمپ تھی اور پارلیمنٹ آج بھی وہی کردار اداکررہی ہے ۔ ان حالات
میں اگر ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان خودکو دیگر سیاستدانوں سے بہتر
قول و فعل کا دھنی اور مخلص عوام ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئے تو شاید عوام
بھی ان سے اظہار خلوص کیلئے باہر آجائیں مگراس کیلئے ڈاکٹر طاہرالقادری کو
اپنی برطانوی شہریت سے دستبردار ہوکر قوم کومطمئن کرنا ہوگا اور عمران خان
کو اپنے اوپر لگی پرو طالبان کی چھاپ کومٹانا ہوگا تب کہیں وہ عوام سے اپنے
خلوص کے اظہار اور عوامی خلوص کے حصول کے ذریعے سیاسی میدان سجانے اور
تبدیلی کی ہواچلانے میں کامیاب ہوسکیں گے ! |