آج کی سوچ

احساس وہ قیمتی اثاثہ ہے جو پاکستانی قوم مکمل طور پر کھو چکی ہے ۔یہ مال نایاب بلکہ عنقا ہو چکا ہے ۔

کرپشن کو ہی لے لیں۔۔۔ یہ زہر ہماری رگوں میں ہیروئین کی طرح سرائیت کر چکا ہے مگر مجال ہے کہ ہمیں اسکا ذرہ برابر بھی احساس ہو۔ کہ یہ کرپشن اور بدعنوانی ہماری زندگی کے کن کن رویوں میں داخل ہو چکی ہے ۔ ہماری زبانی تقریریں صرف مالی کرپشن کا ڈھنڈورا پیٹتی ہیں ہم سزا اور احتساب کے ذریعے اسکا تدارک کرنا چاہتے ہیں، اگرچہ اس دعویٰ پر یقین کرنا بھی مشکل ہے ،مگر پھر بھی الفاظ اور تقریر کی حد تک مالی بدعنوانی کے بارے میں تشویش کا اظہار کیئے بغیر کسی سیاستدان، دانشور کو اپنی سند برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔

مگر کیا ؟ ہمارے چیختے ، چلاتے دانشوروں نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ یہ مالی بدعنوانی کہیں ہمارے منافقانہ رویوں اور دہرے معیار کی پروردہ تو نہیں؟ کیا انکا خاتمہ کئے بغیر کسی بھی قسم کا عملی یا ٹھوس نتیجہ حاصل کرنا ممکن ہے؟ مگر سب سے بڑھ کے کیا ہمیں اسکا احساس بھی ہے؟؟

احساس کا’ جن ‘ جس کو ہم نے پچھلے چھیاسٹھ سال میں عیاشی کی خواب آور گولیاں دے کر مسلسل سلا رکھا تھا اب مکمل طور پر انٹا غفیل ہو چکا ہے اور کسی صورت جاگنے کیلئے تیار نہیں۔

ہمارے تعلیمی اور معاشرتی نظام میں عمل اور قول میں فاصلہ اب اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اسے محض تضاد نہیں کہا جاسکتا ۔اس بات پر اب کوئی اختلاف یا شرمندگی نہیں پائی جاتی کہ اخلاقی یا کتابی علم صرف امتحان میں نمبر لینے یا وعظ و تقریر کے کام آتا ہے اور ان پر عمل کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔عمل کرنا تو بہت دور کی بات ہے ہمارے والدین ، اساتذہ اور معاشرہ کی نیند یں اس وقت حرام ہو جاتی ہے جب کوئی نوجوان آسائش اور تعیشات کے غلاف سے نکل کر زندگی کی حقیقتوں کے معانی اور مطالب سمجھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ قول اور فعل کے تضادات کی نشاندہی کرنے لگتا ہے ۔ ایسے افراد معاشرے کی مادی ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ سمجھے جاتے ہیں چنانچہ فوری تدارک کے لئیے پورا معاشرہ تن د ہی سے سرگرمِ عمل ہو جاتا ہے۔اسے قدم قدم پر ایسے حالات سے دو چار ہونا پڑتا ہے جہاں اخلاقی قدروں کا دامن تھامنے کی صورت میں دنیاوی ترقی اور خوشحالی بہت دور نظر آنے لگتی ہے ۔بالآخر وہ ان تمام ہتھکنڈوں سے لیس ہوجاتا ہے جو اسے کامیابی کا زینہ چڑھنے کے لئے درکار ہوتے ہیں۔ان میں سب سے اہم مرحلہ بے ضمیر ہونا ہے کیونکہ اسکے بعد ہر طرح کی بدعنوانی ،اخلاقی بے را ہ روی اور وطن فروشی غرض یہ کہ ہر منفی احساس نہ صرف ختم ہو جاتا ہے بلکہ انسانی دماغ اپنے ہر قبیح فعل کی ایسی توجیحات تراشتا ہے کہ اسے اپنی ذات کے آئینے میں اپنا عمل انتہائی اعلیٰ اور ارفع نظر آنے لگتا ہے ۔ رابن ہڈ اور سلطانہ ڈاکو ہمارے ہیرو بن جاتے ہیں۔ صوفی اور اولیاء حضرات کی زندگی اور تقوی کا ایسا نا قابل تقلید نقشہ کھینچا جاتا ہے کہ کمزور دل اور نا پختہ ذہن رکھنے والوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔۔۔ ہمت بڑھنے کی بجائے دم توڑنے لگتی ہے -

اپنے اردگرد نظر دوڑائیں معاشرے کی ہر طاقت اسی کوشش میں سرگرداں نظر آتی ہے کہ کوئی وسیلہ ایسا نہ ہو کہ انسان میں اپنی تخلیق کی حقیقت کو تلاش کرنے کا جذبہ یا احساس بیدار ہو جائے تو بنیادی مسئلہ احساس کا ہے۔۔۔ جسے کتابوں اوروعظ سے بیدار نہیں کیا جا سکتا زبانی جمع خرچ اور غیر عملیت کا یہ افیون ہمارے جسم میں داخل ہو کر ہماری ذہنی مدافعتی قوت کو تو کمزور کر دیتا ہے ۔۔۔البتہ ہمارے اعضاء تازہ دم ہو کر ہماری میکانکی حرکات میں تیزی پیدا کر دیتے ہیں ۔تاکہ ہم اپنے اصل ہدف ’کامیابی‘ تک پہنچ سکیں ’کامیابی ‘ بمعنی اشیائے تعیش سے بھرپور رات اور دن۔۔۔۔۔۔۔جسکی کوئی حد کوئی تھاہ نہیں۔۔

ہم اپنی اولاد کے اس دنیا میں آنے سے قبل ہی اسکے لئے مادی اشیاء کا ڈھیر لگانے کے لئے خود کو ہلکان کر لیتے ہیں ۔ اس کے مستقبل کی منصوبہ بندی کو سوہانــ روح بنا لیتے ہیں پیار اور محبت کے اظہار کے دن مقرر کر لیتے ہیں ۔ اور یوں ہمارا اپنی اولاد کو دیے جانے والا یہ پہلا تحفہ ہی اس قدر مہلک ثابت ہوتا ہے کہ وہ تا حیات اسکے اثرات سے باہر نہیں آپاتا ۔دہرے معیار والے عمل ، کھوکھلے مگر بھاری بھرکم الفاظ سے ٹھنسے ہوئے پندو نصائح اور آزمودہ ٹوٹکوں سے ہمارے نوجوان فوری نتائج تک تورسائی حاصل کر لیتے ہیں مگر دور اندیشی اور مقصدیت کا فقدان انہیں مایوسی اور تھکن کا شکار کر دیتا ھے۔۔۔۔ایسی صورت میں انہیں فوراً فنـ، موج، اور مستی کا انجیکشن دیا جاتا ہے تاکہ احساس کے ’جن‘ کو ایک بار پھر گہری نیند سلا دیا جائے ۔۔۔کہیں زندگی کی تھکن انہیں سوچنے، سمجھنے یا پچھتانے پر مجبور نہ کردے ـ ـ انہیں کرپشن اور بد دیانتی کے حقیقی معنی سے آگاہ نہ کردے ان پر یہ واضح نہ ہو جائے کہ حقوق العباد کی ادائیگی میں کی جانے والی چھوٹی چھوٹی بے ایمانیوں کی صورت میں ہم اپنی ذات کو کس قدر عمیق بوجھ تلے دباتے جا رہے ہیں ۔۔۔۔۔ اس بوجھ تلے ہم اپنی تمام تر صلاحیتوں اور اشرف المخلوقات ہونے کے اعزاز کو کھوتے جا رہے ہیں ہماری حرکات و سکنات ، سوچ اور معاملات حیوانیت کے نزدیک تر ہوتے جا رہے ہیں مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمیں اسکا احساس بھی تو ہو۔۔۔

Aneela Shakeel
About the Author: Aneela Shakeel Read More Articles by Aneela Shakeel: 10 Articles with 20063 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.