نام نہاد لیبر ڈے اورمزدوروں کے حقوق کا استحصال

آج ھم لیبر ڈے کے حوالے سے بات کریں گے۔ یکم مئی، لیبر ڈے، مزدوروں سے ہمدردی، یکجہتی اور ان کے حقوق کی پاسداری کے لیے منایا جاتا ہے۔ نہ صرف میلوں، کارخانوں بلکہ کھیتوں میں بھی کام کرنے والے کسانوں اور مزدوروں کے حقوق و فرائض یکساں ہیں۔ مگر المیہ اس بات کا ہے کہ مہذب قومیں آج تک مزدوروں کو ان کے جائز حقوق دینے کے لیے تیا ر نہیں۔ حقوق پر بات کریں گے توبہت تاویل بات ہو جائے گی۔ لہذا حقوق دینا تو دور کی بات نام نہاد مہذب قومیں مزدور کو بطور انسان عزت دینے سے بھی آنکھ چراے لگی ہیں۔ ایسا برتاؤ آج نہیں بلکہ سالوں پرانا چلتا آرہا ہے۔ تاریخ اس بات کی نشاندی کرتی ہے کہ شگاگو میں مزدور اپنے مطالبات منوانے کے لیے احتجاج کر رہے تھے۔ ان کا مطالبہ بھی انسانی مطالبہ تھا۔ کہ ایک مزدور آٹھ گھنٹے سے زیادہ کام نہیں کر سکتا۔ اس احتجاج میں تین لاکھ سے زیادہ مزدور شامل تھے۔ بھرپور احتجاج جاری تھا، مزدور اپنی سانس اور خون گرما گرماکر مطالبات اگل رہے تھے۔ لیکن انسان کو براہ نام تحفظ فرام کرنے والی پولیس نے مزدوروں پر اندھا دھندفائرنگ کھول دی۔ یکم مئی کو ہونے والا یہ افسوس ناک واقعہ تاریخ کی نظر ہوتا ہوا پوری دنیا میں لیبر ڈے کے نام سے ابھرا۔۔۔۔اس حقیقت سے منہ نہیں موڑا جا سکتا کہ اس واقع میں نہ صرف مزدور کا قتل عام کیا گیا بلکہ مزدوروں کے جائز مطالبات پر مٹی ڈالنے کی کوشش بھی کی گئی۔لیکن اس کے باوجود شکاگو کے مزدوروں کا خون رنگ دیا اور ان کے مطالبات اور آواز پوری دنیا میں گونجنے لگی۔ اور مزدوروں کو اپنے حقوق اور عزت کا احساس ہونے لگا۔

انسانیت کا تقاضا ہے کہ انسان کو انسان سمجھا جائے۔۔۔کہنے کو تو ہم پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ حقوق، فرائض اور رویوں کی احساست سے بھرپور آگاہ ہیں۔ حکمران لمبی لمبی تقریروں میں اسلامی تاریخ اور خلفاء راشدین کی مثالیں تو کھول کھول کر بیان کرتے ہیں کہ ان کا اپنے نوکروں سے کس قسم کا سلوک رہا۔لیکن یہی بیوروکریٹ، سیاست دان اور اس طرح کے کئی اعلی عہدو ں پر فائز لوگ اپنے لیے لاکھوں کی مراعات کی سفارش کرتے ہیں۔ لیکن بارہ گھنٹے کی مشقت کرنے والے مزدور جو زیادہ سے زیادہ تین چار سو روپے کی دہاری لگاتا ہے، اس کے لیے لیبر ڈے تو مقرر کر دیا مگر یہ لیبر ڈے بھی ایک نام نہاد فیشن بن کر رہ گیا۔ کوئی سرکاری یا غیر سرکاری ادارہ مزدور کے لیے عملی طور پر کام نہیں کرتا۔ لکھنے والے بہت ہیں، سوچنے والے بہت ہیں ، بولنے والے بھی بے شمار ہیں لیکن کوئی بھی مزدور کے حقوق کے لیے علمی طور پر میدان میں اترتا نہیں۔۔۔جمہوریت کا واویلا کرنے والے مزدورں کے نام پر بھی سیاسی شترنج کھیل رہے ہیں، اور لیبر ڈے تو محض نام نہاد تہوار بن کر رہ گیا ہے۔ حیرت ہے مزدور کے دم پر اس تہوار کو تو منایا جاتا ہے مگرحقیقت میں مزدور کے نام پر مزدور کا ھی استحصال کیا جاتا ہے۔ہمارا معاشرہ اصل میں معاشی غلامی کی گرفت میں ہے۔ اور یہ گرفت اتنی مظبوط ہے کہ مزدوروں کی اکثریت اس بات سے بے خبر ہے کہ یہ دن ان کے حقوق کی آواز ہے۔ ان کی شخصی اہمیت کا دن ہے۔ ان کی طاقت کادن ہے۔ مگر ایک عام مزدور کو یوم مئی سے کیا غرض۔۔وہ تو اس دن بھی بھوک کی اس طاقت کو مٹانے کی جد و جہد میں ہے جو ایمان اور کفر میں کوئی ا متیا ز نہیں رکھتی۔ پاکستان اور آزاد کشمیر بھر میں یوم مئی کے حوالے سے تقریبات ہوتی رہی ہیں ۔ مزدور کی اہمیت اور ان کی کردار کو بھرپور طریقے سے سراہا جاتا رہا ہے۔ مگر مزدور کا تقریبات سے کیا غرض۔۔کم از کم ایک مزدور یوم مئی کی تعطیل گھر بیٹھ کر نہیں منا سکتا ۔

ایک مزدور جو د یھاڑی پر گزارہ کرتا ہے۔ ذرہ اسکا احوال بھی پڑھتے جائیں کہ آخر وہ کس طرح کیونکر گزارہ کر پاتا ہے۔ صبح سویرے اٹھنے والا شحص، گھسی پھٹی چادر کندھوں پر ڈال کر رزق کی تلاش پر نکل پڑتا ہے۔اسے معلوم ہے دن مشقت سے بھرا پڑا ہے ۔ایک جگہ سے مایوسی۔۔۔ دوسری جگہ کام تلاش کیا ۔۔۔مگر نا کامی کامنہ دیکھا۔ اﷲ اﷲ کر کے ایک دو کام مل ہی گئے۔ مالک صاحب نے تین، چار سو روپے ا جر ت دی۔۔اب مزدور محنت کی کمائی تھام کر سوچنے لگتا ہے کہ ان سے وہ بچوں کے لیے پیٹ کا سامان کرے یا ان کے لباس کا انتظام کرے ۔۔۔ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے ۔آلو، پیاز، ٹماٹر ، دالوں کی قیمتوں میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ چار سو روپے سے ایک مزدور اپنے بچوں، جن کی تعداد کم از کم چھ تو ضرور ہو گی، ان کی بھوک مٹائے۔۔۔؟ ایک لمحہ کے لیے بھوک تو مٹ گئی۔ مگر بیماری کا علاج۔۔۔؟ ہسپتال کے اخراجات۔۔۔؟ بجلی پانی، گیس کا بل۔۔۔؟ یہ سب واجبات بھی تو ادا کرنا ضروری ہیں۔ دوسری طرف نگاہ ڈورئیں تو کیسے کیسے منظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ حکمران، آفسران،اے سی کے بغیر سوتے نہیں، دو قدم پیدل نہیں حرکت کر سکتے۔ دن، رات کے بجٹ الگ الگ مقرر کر چکے ہیں۔ بچا کچھا کھانا گل سڑ جائے گا مگر کسی غریب کے منہ میں نہ جائے۔بے حد قیمتی لباس استعمال کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ سگریٹ بھی اعلی کمپنی کا ستعمال کیا جاتا ہے۔ وہ تو یہی سمجھتے ہیں کہ سگریٹ اور موبائل فون سے ہی انسان کے اصل ذوق کا اندازہ ہوتا ہے۔۔۔ لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ دن بھر وہ جو مہنگی مہنگی سگریٹ کی ڈبیاں،کھانے کے بعد ۔۔۔چائے کے بعد۔۔۔ اور خاص قسم کے اوقات میں خلق کے نیچے اتارتے ہیں۔۔۔ ان پر ضیاع کیے ہوئے پیسوں سے ایک دن مزدور کا گھر اچھے طرح چل سکتا ہے۔ لیکن ایسا سوچتا کون ہے۔؟ آفسران کی بیگما ت امپورٹٹ پر فیوم اور میک اپ کے مرض میں مبتلا ہی نظر آتی ہیں ۔ محفلوں میں چلے جائیں، ان محترماؤں کی گفتگو۔ پرفیوم کی چوائس پر ہوتی ہے۔۔۔ جیولری کے ڈیزائن پر ہوتی ہے۔۔۔ کاسمیٹکس کے مختلف شیڈ پر تنقید کرتی نظر آئیں گی ۔اس موضوع کے بعد اگر انھیں وقت مل جائے تو اپنے شوہروں کی کم عقلی اور اپنی چابلوسیوں پر قہقے لگائیں نظر آئیں گئی۔ مگر وہ اس منظر سے بالکل بے خبر ہوتی ہیں کہ ایک مزدور کی بیوی۔۔۔ جس کی محفل اسکا گھر اور وہ چولہا ہے جو کبھی کبھی چلتا ہے۔۔۔اس خاتون کا پرفیوم اسکا پسینہ ہے جو چولہا جلا جلا کر بچوں کے لیے کھانے کا بندوبست کرتی ہے۔۔۔ مستقبل کی سوچ سے پریشان ماتھا اور جھریوں سے بھرا چہرہ اسکا زیور ہی بن گیاہے۔ ۔۔اور وہ خاتون گھر کے کسی کونے میں ڈری سہمی بیٹھی اپنے شوہر کا انتظار رکر رہی ہے۔ اسکی لمبی زندگی، محنت میں برکت، اور اسکی عظمت کے لیے دعا کر رہی ہے۔ یہ ہے ایک مزدور کی بیوی۔۔۔ جس کی سوچ پیٹ سے شروع ہو کر پیٹ تک ہی حتم ہو جاتی ہے۔ یہ سب جانتے ہوئے بھی مزدور کے لیے کوئی بھی آسانی کی راہ نکالنے کے لیے تیار نہیں ہو پاتا۔کسی کے پاس وقت نہیں، کسی کا موڑ نہیں، کسی کے پاس اختیارات نہیں۔ ہاں مگر لیبر ڈے تو ہے۔ ایسا ڈے جس سے خود مزدور بھی نالاں نظر آتا ہے۔۔۔ کہ اس چھٹی کے دن وہ روٹی کا بندوبست کسے کرے گا۔۔۔؟ عزت نفس تو صرف بڑے لوگوں کی رہ گئی۔ مزدور کی نہ تو عزت نفس ہے، نہ جان ہے، نہ احساس ہے اور نہ ہی وہ کسی حق کے لیے آواز اٹھا سکتا ہے۔ہم منافق لوگ سارا سال مزدوروں کے حقوق کا استحصال کرتے رہتے ہیں اور یکم مئی کو ہمدردری کے چار لفظ بول دیتے ہیں۔۔۔

lubna azam
About the Author: lubna azam Read More Articles by lubna azam : 43 Articles with 37940 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.