ارتھ ڈے اور پاکستان کا ماحول

آج ہم ارتھ ڈے کے حوالے سے بات کر یں گے ۔جو کہ ۲۲ اپریل کو دنیا میں خاصی سنجیدگی سے منایا جاتا ہے۔ پاکستان جہاں دہشت گردی، نفانفسی، مہنگائی اور بڑھتی ہوئی آبادی جیسے مسائل سے دو چار ہے۔۔۔ وہیں آلودگی جیسے خطرناک پھوڑے سے بھرا پڑا ہے۔ جو کہ فصائی آلودگی، تیزابی آلودگی، آبی الودگی کی صورت میں رفتہ رفتہ ماحول میں پھوٹتا جا رہا ہے ۔اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ ہم عوام خود غرضی کی مرض میں مبتلا ہو کر قدرتی وسائل جن میں جنگلات سر فہرست ہیں ، ان کو اپنے لیے بطور دوا استعمال کرتے ہیں۔ پلا سٹک کے د ھیڑ جگہ جگہ لگا تے ہیں۔ جنگلات کی کٹائی کر کے بستیاں بسائی جا رہی ہیں۔۔۔ میلوں کی تعمیر کی جارہی ہے۔۔۔ جس سے فضائی اور تیزابی آلودگی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ پاکستان زرعی ملک کے ساتھ ساتھ قدرتی وسائل جیسیی دولت سے مالا مال ہے۔ لیکن ہم عوام جنگلات کاٹ کر لکڑی کو درآمد کر رہے ہیں جس کا نقصان حیوانی زندگی کو بھی ہو رہا ہے۔ایک طرف حیوانی زندگی کا وجود روز بروز ختم ہی ہوتا جا رہا ہے۔ دوسری طرف بارش اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے انسانی زندگی خطرے سے خالی نہیں۔درختوں کی کمی کے باعث زمین بنجر ہوتی چلی گئی ۔ فیکٹریوں ، میلوں اور کوڑا کرکٹ کے ڈھیروں نے ماحول کو آلودہ کر دیا۔ اس آلودگی سے پانی بھی آلودہ ہو چکا ہے۔ یہ آلودہ پانی آبی جانوروں کو موت میں منہ میں لے گیا۔ نہ صرف زیر زمین زیلرلی ہو چکی ہے بلکہ قدرتی توازن بڑی طرح بگڑ چکا ہے۔ فصلیں تباہ ہوتی جا رہی ہیں۔ زرعی تباہی اور آبی تباہی سے نہ صرف تجارت کو نقصان پہنچا ہے بلکہ قدری ماحول میں بے قاعدگی پیدا ہو چکی ہے۔ جس سے انسان کو طبیعت میں منفی قسم کی تحریک پیدا ہو گئی ہے۔

ارتھ ڈے کا آغاز کیونکر ہوا۔ اس کی تاریخ کا حوالہ دینا قارئین کے لیے ضروری ہے۔ یہ ۱۹۶۹ کی بات ہے جب گیورڈ نیلسن ، کیلو فورنیا کے ساحلوں پر سفر سے لطف اندوز ہو رہا تھا تو اس نے دیکھا کہ ساحلوں پر فیکٹریوں سے خارج ھو نے والا تیل ساحلوں کے پر سکون ماحول کو آلودہ کر رہا ہے۔ تو اس نے ماحول کو صاف رکھنے اور لوگوں میں صاف ستھرے ماحول کے فوائد کی آگائی کے لیے بے پناہ کوشش شروع کر دیں۔ اس کی کوشش رنگ لائی اور ۲۲ اپریل ۱۹۷۰ کو پوری دنیا میں ماحول کا عالمی دن، یا ارتھ ڈے منا نے کا اعلان کر دیا گیا۔ اس دن امریکہ کے تمام سیاسی، سماجی اور لوگوں کے علاوہ کالج، یونیورسٹیوں کے طلبہ اور عام آدمیوں نے بھی شرکت کی۔، اس دن ماحول کو آلودہ کرنے والی فیکٹریوں کے خلاف آواز اٹھائی گئی۔ ان میں فضائی آلودگی کے نقصانات اور اس سے بچنے کی آگائی پیدا کی گئی۔ اس کے علاوہ عام آدمی میں ماحول کو صاف رکھنے کی ذمہ داری کا احساس دلایا۔ اس طرح اب پاکستان میں بھی اس دن کو بھرپور طریقے سے منایا جاتا ہے۔، ضرورت اس امر کی ہے کہ انفرادی طورپر سب اپنی اپنی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنے وطن کو آلودگی سے بچائیں۔

فرد سے معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور معاشرہ قوم کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ اور پاکستان قوم کا المیہ یہ ہے کہ قانون کی خلاف ورزی کرنے میں کوئی خاص قسم کا ذہنی اور دلی سکون تلاش کرتی ہے۔ جیسے کہ اس ملک میں ہرے بھرے درختوں کی کٹائی سے منع کیا گیا ہے۔ اس عمل پر سخت پابندی ہے۔ مگر اس کے باوجود پاکستانی عوام درختوں کی کٹائی کے شغل میں مشغول نظر آتی ہے۔۔۔ جو اس قانون کی خلاف ورزی کرنے پر آواز اٹھانے کی کوشش کرتا ہے اسکی آواز ہی دبا دی جاتی ہے۔ خیر ۔۔۔ ایک پودہ بالکل نو مولود بچے کی طرح ہوتا ہے۔ جس کو بڑھتے ہوئے برسوں لگ جاتے ہیں اور ہم انسان اس بچے کی پرورش بڑی دل جمی سے کرتے ہیں کہ یہ بچہ ہماری نسل کا سربراہ ہے۔ با لکل اسی طرح ہمیں پودوں کی پیداوار پر توجہ دینی ہو گی۔ پودے کو درخت بننے تک اس کی نشوتما کی حفاظت کرنے کی ضرورت ہے۔ تا کہ یہ درخت ہماری آنے والی نسلوں کے لیے کار آمد بن سکیں۔ یہاں اس امر پر نظر ثانی کی ضرورت ہے کہ حکومت شجر کاری کی مہم میں دلچسپی تو ظاہر کرتی ہے۔ لیکن حکومت کو چائیے شجر کاری کے ساتھ ساتھ عوام میں درختوں کی حفاظت کا جذبہ بھی ابھارے ۔کیونکہ جب تک قوم میں حفاظت کا شعور نہیں ہو گا تب تک عمل میں یکسوئی نہیں آئے گی۔

چلتے چلتے ضلع بھمبر کا احوال بھی پڑھتے جائیں۔ میں نے گزشتہ کالم میں بھمبر میں ہونے والی تعاصب پسندی کا ذکر کیا تھا۔ ضلع بھمبر میں الخیر یونیورسٹی کا قیام بلا شبہ ایک احسن قدم ہے۔اس یونیورسٹی میں صدر آزاد کشمیر اور مختلف وزراء دورہ کر چکے ہیں ۔ وزیر جنگلات نے بھی الخیر یونیورسٹی کا دورہ کیا۔ ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ جناب نے اہل بھمبر کے لیے اس یونیورسٹی کا قیام خو ش آئین قرار دیا۔ اور ساتھ ساتھ انھوں نے سیاست کی روایت بھی بر قرار رکھی ۔ چونکہ یہ کالم پو ارتھ ڈے کے حوالے سے ہے اس لیے میں قارئین کی نظر سے ، وزیر جنگلات کے روائتی وعدوں کو ضرور گزار نا چاہوں گی۔ شائد کو ئی نظر ایسی ہو جو ٹھہر جائے اور وعدوں کو عملی جامہ پہنایا جا سکے۔ خیر۔۔۔ وزیر جنگلات نے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہو ئے اعلان کیا کہ چند ہی دنوں میں اس یونیورسٹی میں محکمہ جنگلات کی طرف سے پودے مہیا کیئے جائیں گے۔۔۔۔ جو کہ ہریالی، خوبصورتی کے علاوہ ماحول کو قدرتی حسن سے مالا مال کر یں گے۔ وہ دن اور آج کا دن آچکا ہے۔۔۔ نہ محکمہ جنگلات سے کوئی آیا۔۔۔ نہ پودے لگائے گئے۔۔۔ نہ ہر یالی آئی۔۔۔ بلکہ وزیر جنگلات کا وعدہ اور ان کا کیا ہوا اعلان، واپس جاتے ہوئے ان کی سرکاری گاڑی سے اڑتی ہوئی دھول سے مل کر ماحول کو مزید آلودہ کر گیا۔۔۔ الخیر یونیورسٹی کی چار دیواری آج بھی ان پودوں کی منتظر دیکھائی دیتی ہے۔۔۔مگر ۔۔۔ خیر ۔۔۔ فضا سبھی کے لیے یکساں ہے ۔ سبھی لو گ ایک قسم کی فضا میں سانس لیتے ہیں ۔ لہذا ماحول کو آلودگی سے بچا نے کے لیے ہم سب کو انفرادی طور پر اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ زیادہ سے زیادہ درخت لگا نے ہوں گے۔ ان کی حفاظت کی ذمہ داری بھی قبول کرنی ہوگی۔
(اﷲ ہم سب کا حامی و ناصر ہو) آمین!

lubna azam
About the Author: lubna azam Read More Articles by lubna azam : 43 Articles with 37946 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.