وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار
علی خان نے کہا ہے کہ حکومت انتخابی اصلاحات کیلئے اپوزیشن سمیت تمام سیاسی
جماعتوں سے مل بیٹھنے کیلئے تیار ہے ۔ وفاقی وزیرداخلہ کی جانب سے یہ بیان
اگر خلوص و نیک نیتی پرمبنی ہے تو تمام جمہوریت پسند قوتوں اور سیاسی
جماعتوں کو اس بیان کاخیر مقدم کرتے ہوئے حکومت کے ساتھ انتخابی اصلاحات کے
اس عمل میںشامل ہوجانا چاہئے کیونکہ جمہوریت کی بنیادشفاف ' غیر جانبدارانہ
اور غیر متنازعہ انتخابات ہی ہوتے ہیں مگر افسوس کہ قیام پاکستان کے بعد سے
اب تک ہونے والے تمام ہی انتخابات ان تینوں میں سے کسی نہ کسی صفت سے محروم
رہے جس کی وجہ سے شفافیت ' غیر جانبداری یا تنازعہ سے پاکی سے محروم
انتخابات کے نتیجے میں وجود میںآنے والی کوئی بھی حکومت نہ تو مکمل طور پر
جمہوری کہلائی جاسکی ' نہ اس کا کردار و عمل جمہوری دکھائی دیا اور نہ ہی
اسے جمہوریت کی روح کے مطابق خدمت وطن کیلئے مکمل موقع اور کھلا میدان ملا
جس کی وجہ سے کوئی بھی جمہوری حکومت اپنی آئینی مدت کی تکمیل سے محروم رہی
۔2008ء میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی پیپلز پارٹی کی
حکومت بھی ''کچھ دو اور کچھ لو '' کی پالیسی کے تحت بمشکل اپنی مدت پوری کر
پائی اور اس کے بعدقائم ہونے والی مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت اپنی اوائل
عمری میںہی احتجاجی سیاست کا شکار ہوکرقبل از مدت ''گولڈن ہینڈشیک'' یا ''جبری
برطرفی '' کی جانب بڑھ رہی ہے جو کسی طور جمہوریت کیلئے سودمند نہیں ہے
اسلئے جمہوریت پسندوں کو نظریاتی اختلافات و مفادات کے باوجود جمہوریت کی
خاطر جمہوریت کی کمزوری و طاقت کی بنیاد انتخابی عمل میں اصلاحات کیلئے
حکمرانوں کیساتھ بیٹھ کر اپنی تجاویز و آراء کے ذریعے اس میں موجود خامیوں
اور نقائص کی نشاندہی کرنی چاہئے اور انتخابات کو شفاف ترین بنانے کیلئے
ایک فارمولے پرمتفق ہوکر اس پر عملدرآمد یقینی بنوانے میں اپنا اپنا کردار
ادا کرنا چاہئے تاکہ انتخابات کے بعد قائم ہونے والی جمہوریت مضبوط و
مستحکم ' طاقتور و توانا ' آزاد و خودمختار ہو نے کے ساتھ عوام کوجوابدہ
بھی ہو اورعوام کے پاس حکومت کے احتساب کااختیار ہو تاکہ حکومت کی غیر تسلی
بخش و عدم اطمینان پر مبنی کارکردگی پر عوام حکومت کیخلاف فیصلہ کرکے اسے
گھر بھیجنے کا حق و اختیار رکھتی ہو اور کسی فوجی سربراہ کوسیاسی معاملات
میںمداخلت یا اقتدار پر قبضے کی ضرورت پیش نہ آئے اگر ایسا ہوا تو جمہوریت
کا مستقبل آمریت سے محفوظ ہوجائے گا بصورت ماضی کے تجربا ت کی روشنی میں
مستقبل کے قرائن واضح ہیں ! دوسری جانب وزیرداخلہ کا یہ بیان کہ اسلام
آبادحساس علاقوں اور دفاتر پرمبنی کمرشیل حب ہے جہاں تخریبی قوتوں کی
شرپسندی کاخدشہ و خطرہ موجودہے لیکن اس کے باجود عمران خان کی ضداور ہیومن
رائٹس کے باعث تحریک انصاف کو طاقت کے مظاہرے کاشوق پورا کرنے کی اجازت اور
عمران خان کو جلسے کی اجازت دی جارہی ہے مگر جلسے کے موقع پر سیکوریٹی کے
بھرپور انتظامات کئے جائیں گے اورکسی بھی شخص یا کارکن کو اسلام آبادمیں
اسلحہ لیکر داخل ہونے کی جازت نہیں دی جائے گی ۔ اس بات کا اشارہ دے رہا ہے
کہ 11مئی کو عمران خان کا جلسہ تخریبی عناصر کی کاروائی اور مستقبل کے امن
کے حوالے سے مشکوک ہے جبکہ کنٹینرز کی سیاست کی اجازت نہ دینے کا وزیرداخلہ
کا بیان اس بات اظہار ہے کہ حکمرانوں کو عمران خان سے زیادہ ڈاکٹر
طاہرالقادری سے خطرہ ہے اور وہ مستقبل میں آل پاکستان مسلم لیگ ' پاکستان
عوامی تحریک اورایم کیو ایم سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کا مضبوط اتحاد دیکھ
رہی ہے ! |