میں بھی کوئ گل ہوں کہ خاموش رہوں

نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہمنوا میں بھی کوئ گل ہوں کہ خاموش رہوں
یہ شعر علامہ اقبال کی نظم ’شکوہ‘ کا ہے جس میں علامہ امت مسلمہ کی زبونحالی پر اظہارِ افسوس کرتے ہیں اور سراپا احتجاج ہو کر بارگاہِ خدا میں گلا شکوہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں بےزبان اور بےحس نہیں کہ اپنی قوم کی بربادی کا منظر خاموشی سے دیکھتا رہوں میں تو آواز بلند کروں گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب کبھی قوموں پر برا وقت آیا اور ظلم و ناانصافی معاشرے میں جڑ پکڑنے لگی تو قوم کا درد رکھنے والے مخلص اور باضمیر لوگوں نے احتجاج کیا، حق کی صدا بلند کی اور قربانیاں بھی دیں۔

یہ شعر اور اسکا کانسپٹ مجھے اس لیے یاد آ گیا کہ آج کل کی تازہ خبروں میں 11 مئی کو پی ٹی آئ، ڈاکٹر طاہرالقادری دیگر سیاسی جماعتوں کی طرف سے کیا جانے والا دھرنا اور احتجاج ایک اہم موضوع بنا ہوا ہے۔ اربابِ اقتدار کا یہ خیال ہے کہ یہ عمل جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہے اور انہیں اپنی حکومت جانے کا خدشہ لاحق ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ احتجاج جمہریت کو مذید مستحکم بنا دیگاَ ۔ ایک ڈیموکریٹک ریاست میں ہر عام و خاص لو آزادیءاظہار کا حق حاصل ہوتا ہے اور اگر پاکستان میں اتنے زیادہ لوگ ایک ہی دن ایک ساتھ اس حق کو استعمال کرنے جا رہے ہیں تو یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔

اپوزیشن کا ایک سال سے مسلسل یہ دعویٰ ہے کہ انتخابات میں ان کے ساتھ کھلی ناانصافی ہوئی اور عوام کے قیمتی ووٹس کو دھاندلی کر کے ذائع کیا گیا۔ حکومت نے نہ صرف اس دعوے کو مسترد کیا بلکہ تحقیقات کے مطالبے پر بھی کوئی توجہ نہیں دی، اب بھلا کوئ کہے کہ اس جمہری نظام میں مدعی کو انصاف نہ ملنے پر اربابِ اختیار سے زرا سا شکوہ کرنے کا حق تو ہونا چاہیے نا۔ الیکشن کیمپین میں کیے گیے وعدوں سے پریشان حال عوام کی کچھ ڈھارس بندھی تھی کہ اقتدار میں آتے ہی ان وعدوں کو جوشِ خطابت کا نام دے کر قوم کے اعتبار اور امیدوں کو چکناچور کر دیا گیا، اب اگر اس بےوفائ اور سنگدلی پر بےچارے عوام ناراضی کا اظہار کر دیں تو اس میں کیا برائ ہے۔ معصوم پاکستانیوں کا خون بہانے والوں اور سیکیورٹی اہلکاروں کو شہید کرنے والوں سے صلح کی کوششیں کی گئیں، لوڈ شیڈنگ بڑھ گئی، ڈالر تو سستا ہوا لیکن ملک میں مہنگائی کا جن بےقابو ہو گیا، بینک ڈکیتی، دہشتگردی، ٹارگٹ کلنگ، جنسی زیادتی جیسے جرائم کی وارداتوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا اور برائے نام معتلیوں یا درپردہ مکمکا کے علاوہ کچھ بھی نہ کیا گیا۔

ایک لمحے کے لیے صرف ایک پاکستانی بن کر سوچیں کہ کیا اس سب پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جانا چاہیئے؟

کیا ہمیں اپنے پیارے وطن کو اسی آگ میں چپ چاپ جلنے دینا چاہیئے ؟
یاد رکھیں:
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جسکو خیال آاپ اپنی حالت کے بدلنے کا
Danial Ahmed
About the Author: Danial Ahmed Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.