ذکر معاویہؓ و بنات اربعہؓ - در خطبہ جمعہ

حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس دنیا سے کامیاب و کامران ہو کر رخصت ہونے کی ایک بہت بڑی دلیل حضرات صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین کا وجود بھی ہے۔ان صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے تقویٰ و ورع اور عظمت و رفعت پر قرآن مقدس ناطق ہے۔ قرآن پاک میں کیے گئے رب العزت کے کئی وعدے حضرت سیدنا ابوبکرصدیق رضی اﷲ عنہ کی خلافت سے لے کر حضرت سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کی خلافت کے دور تک پورے ہوئے۔ نبی علیہ السلام کے وصال کے بعد نصف صدی میں اسلام نصف سے زائد کرۂ ارض پر پھیل گیا۔ اور قرآن مجید کا اعلان لیظہرہ علی الدین کلہ عملی شکل میں نظر آنے لگا۔ جوں جوں اسلام پھیلتا رہا، کفر جلتا رہا اور آئے دن اسلام کے خلاف منافقانہ سازشوں کے تانے بانے بنتا اور اپنے کفر و نفاق کے ٹکسالوں میں کفر و منافقت سے بھرپور دشمنان اسلام ڈھالتا رہا اور انہیں اسلام کی بیخ کنی کے لیے استعمال کرتا رہا۔ مگر ساتھ ہی اﷲ رب العزت نے ہر زمانہ میں اسلام کی حفاظت و اشاعت کے لیے اپنے نیک بندوں سے کام لیا اور کفر و نفاق کو اسلام کے مقابلہ میں ذلیل و رسوا اور خوار کیا۔چونکہ قرآن و رسالت، صوم و صلوٰۃ، حج و جہاد، اسوۂ نبوت، احکام شریعت کے عینی گواہ اور اسلام کے اصل و اصول صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم اجمعین ہیں، اس لیے کفر و نفاق نے اسلام کی بیخ کنی کے لیے انہی صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی ذوات قدسیہ کو مشق ستم بنایا اور اسلام کو پوری دنیا میں پھیلانے والے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم خصوصاً سیدنا ابوبکر صدیق، سیدنا عمرفاروق، سیدنا عثمان ذوالنورین، سیدنا علی مرتضیٰ، سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہم کی سیرت و کردار اور حیات و خدمات پر مختلف پہلوؤں سے تنقید اور مذمت کی۔ دشمنان اسلام کی تیار کردہ سازشوں اور بیان کردہ بے بنیاد روایتوں کی بناء پر ان حضرات کے ادوار خلافت پر بھی اعتراضات و الزامات کی اندھا دھند بوچھاڑ کی گئی اور تا حال کی جارہی ہے۔ ان سمیت تمام اسلام مخالف سازشوں اور منصوبوں کے خلاف ہر دور میں علماء و فقہاء اور محققین و مجاہدین اپنے اپنے انداز میں سینہ سپر رہے اور ان سازشی عناصر اور ان کی سازشوں کی مذمت و تردید کرتے رہے۔ احقاق حق اور ابطال باطل کا فریضہ سرانجام دیتے ہوئے مختلف انداز میں اسلام اور صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی عظمت کا اظہار کیا جاتا رہا کہ عوام کے قلوب و اذہان میں اسلام کی حقانیت اور صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی عظمت و تقدیس ایسے بیٹھ جائے کہ وہ کسی اسلام دشمن اور صحابہ مخالف نظریہ کو قبول نہ کر سکیں۔

تحفظ اسلام و صحابہ کرامؓ ہی کے سلسلہ کی ایک کڑی خطبۂ جمعہ بھی ہے جس میں ہر زمانہ کے فتنوں کی تردید اور مسلک اہل سنت کے حق ہونے کا اعلان کیا جاتا ہے۔ ہر دور میں حالات حاضرہ کے مطابق خطبۂ جمعہ کے مندرجات بیان کیے جاتے ہیں اور توحید، رسالت، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، جہاد، عظمت قرآن، عظمت صحابہؓ کا ذکر خیر بھی کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام مروجہ خطبہ میں صرف سیدنا ابوبکر، سیدناعمر، سیدناعثمان، سیدناعلی،رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی بیٹیوں میں سے سیدہ فاطمہ، نواسوں میں سے سیدین حسنین، چچاؤں میں سے سیدنا حمزہ و عباس رضی اﷲ عنہم کا ذکر کیا جاتا ہے۔ کیوں کہ جس دور میں یہ خطبہ رواج پاکر آج ہمارے زمانہ تک پہنچا، اس دور میں نواصب کا زور تھا اور وہ خاص طور پر سیدنا علی ،سیدہ فاطمہ، سیدین حسنین رضی اﷲ عنہم پر طعن زنی اور الزام تراشی کیا کرتے تھے۔ اسی لیے اس وقت ان حضرات کا تذکرہ خطبۂ جمعہ میں کیا جانے لگا کہ عوام کے قلوب و اذہان میں ان کے اسماء مبارکہ بیٹھ جائیں کہ اگر ان کے سامنے کوئی دشمن اسلام ان حضرات ؓ پر تنقید کرے تو عوام کے ذہن میں یہ بات آئے کہ اگر یہ حضراتؓ غلط ہوتے تو خطبۂ جمعہ میں ان کے اسماء مبارکہ قطعاً نہ لیے جاتے۔اﷲ اﷲ کرکے دنیا سے نواصب کا زور اور اسلام دشمن و صحابہ مخالف کارروائیاں اور سازشیں دم تو ڑ گئیں۔ اب کہیں کہیں نہ ہونے کے برابر ناصبیت کا پرچار کرتے ہوئے ڈھکے چھپے انداز میں حضرات سیدنا علی، فاطمہ، حسن اور حسین رضی اﷲ عنہم پر الزام تراشی کی جاتی ہے۔ مگر اس کے برعکس فی زمانہ اسلام کا نام لے کر حب اہل بیت کی آڑمیں روافض کی جانب سے سیدنا ابوبکر، عمر، عثمان، معاویہ رضی اﷲ عنہم کی ذوات قدسیہ اور خلافت و حیات پر طعن و تشنیع اور الزامات کا سلسلہ جاری ہے۔ اسی سلسلہ میں نبی علیہ السلام کی دیگر تین بیٹیوں سیدہ زینب، سیدہ ام کلثوم اور سیدہ رقیہ رضی اﷲ عنہن اور دیگر نواسوں سیدنا علی بن ابی العاص اور سیدنا عبداﷲ بن عثمان رضی اﷲ عنہم کے وجود کا انکار کیا جاتاہے۔ اور اس کا اتنا پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ کئی اچھے خاصے پڑھے لکھے سوجھ بوجھ رکھنے والے حضرات بھی یہی سمجھ بیٹھے ہیں کہ نبی علیہ السلام کی صرف ایک بیٹی اور دو نواسے تھے۔ مزید برآں یہ کہ عوام کے قلوب و اذہان میں یہ بات بھی بٹھائی جا رہی ہے کہ معاذاﷲ سیدنا ابوبکر، عمر، عثمان، معاویہ رضی اﷲ عنہم کے ادوار خلافت میں اسلام کی خلاف سازشیں کی گئیں ۔

ان تمام خلاف اسلام و صحابہ کرام منصوبوں، سازشوں اور منافقتوں کو روکنے کے لیے جہاں اور انداز سے حفاظت اسلام اور تحفظ ناموس صحابہ کرام کا فریضہ ادا کیا جارہا ہے وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ علماء و خطباء حضرات خطبات جمعہ و عیدین میں سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ، بنات اربعہ یعنی نبی علیہ السلام کی چاروں بیٹیوں سیدہ زینب، سیدہ ام کلثوم، سیدہ رقیہ، سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہن کا نام بھی لیں تاکہ عوام کے قلوب و اذہان پر غیروں کی طرف سے ڈالے جانے والا گرد و غبار ختم ہو اور ان کے دلوں میں نبی علیہ السلام کے تمام صحابہ کرام و خاندان رسالت کے افراد کی عظمت و تقدیس راسخ ہو۔ نیز نبی علیہ السلام کے نواسوں کے تذکرہ میں سیدین حسنین رضی اﷲ عنہما کے ساتھ سیدنا علی بن ابی العاص رضی اﷲ عنہما(جوکہ نبی علیہ السلام کی بڑی بیٹی سیدہ زینب رضی اﷲ عنہا کے بیٹے تھے) اور سیدنا عبداﷲ بن عثمان رضی اﷲ عنہما( جو نبی علیہ السلام کی بیٹی سیدہ رقیہ رضی اﷲ عنہا کے بیٹے تھے) کا نام بھی لیا جانا چاہیے۔

خطبہ جمعہ میں سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ اور بنات اربعہ رضی اﷲ عنہن کے اسماء مبارکہ کے ذکر کے متعلق مفتی اعظم مفتی رشیداحمد لدھیانوی اپنے ایک فتویٰ میں تحریر کرتے ہیں کہ ’’ہر زمانہ میں خطبہ کے مضمون کی ترتیب میں اسلام میں پیدا ہونے والے فتنوں سے مسلک اہل سنت کی حفاظت کا اہتمام کیا گیا ہے، چنانچہ حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے اسماء مبارکہ اور ان کے لیے دعا اور ان کے مناقب خطبہ میں لانے سے روافض و خوارج پر تردید اور مسلک اہل سنت کا اعلان مقصود ہے، سابق زمانہ میں جو فتنے تھے ان کی تردید کے لیے انہی صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کا ذکر کافی تھا، جو مطبوعہ خطبوں میں مذکور ہیں، جدید دور کا ایک جدید فتنہ ایک ایسی جماعت کا ظہور ہے جو اہل سنت ہونے کی مدعی ہے ، اور حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم سے عقیدت کا دعویٰ کرتی ہے، مگر قلوب بغض صحابہ ضی اﷲ تعالیٰ عنہم سے مسموم ہیں، بالخصوص حضرت عثمان اور حضرت معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے متعلق ان کے قلوب کی نجاست ان کی زبان و قلم سے مسلسل ابل رہی ہے، کسی بھی صحابی کے بارے میں ذرا سی بدگمانی بھی اﷲ تعالیٰ کے غضب اور جہنم کی موجب ہے، اس لیے یہ لوگ اہل سنت سے خارج ہیں، اور الحاد میں روافض ہی کی راہ پر چل رہے ہیں، نیز روافض کو حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے سوا دوسری بنات مکرمات سے بھی بغض ہے، اس لیے ان فتنوں پر تردید کے پیش نظر خطبہ میں حضرت معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور بنات مکرمات رضی اﷲ عنہن کے مناقب و فضائل کا ذکر اور ان کے لیے دعاء ترضّی کا معمول بنانا چاہیے‘‘ (احسن الفتاویٰ، ج۴،ص۱۵۶، باب الجمعۃ والعیدین)

Muhammad Irfan Ul Haq Advocate
About the Author: Muhammad Irfan Ul Haq Advocate Read More Articles by Muhammad Irfan Ul Haq Advocate: 30 Articles with 69126 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.