بسم اﷲ الرحمن الرحیم
معراج کا لفظی معنی ہے اوپر چڑھنے کابڑا آلہ یعنی بڑی سیڑھی یا میلاد کی
طرح مصدر کے معنی میں ہے یعنی بہت اوپر چڑھنا۔ جبکہ مسلمانوں کے عرف میں
معراج حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ کے روشن واعظم ترین معجزات اور اعلیٰ ترین فضائل
وکمالات سے تعبیر ہے جس میں حضور نبی اکرمﷺ بیداری کی حالت میں جسم وروح کے
ہمراہ نہایت اعزازواکرام کے ساتھ مکہ مکرمہ سے مسجد اقصیٰ میں پہنچے اور
انبیاء ورسل اور ملائکہ عظام کی نماز میں امامت فرمائی پھر ساتوں آسمانوں
اور سدرۃ المنتہیٰ اور عرش سے گزر کر مقام قاب قوسین پر فائز ہو کر تمام
اولین وآخرین سب پر سبقت لے گئے کیوں کہ جہاں حضور ﷺ پہنچے وہاں نہ کوئی
نبی پہنچا، نہ کوئی رسول اور نہ ہی کوئی مقرب فرشتہ۔ پھر وہاں اﷲ تعالیٰ کی
بے شمار عظیم الشان نشانیوں کو دیکھا حتی کہ اپنے سر کی آنکھوں سے اپنے رب
تعالیٰ جل جلالہ کا دیدار فرمایااور اﷲ رب العزت نے اپنے حبیب اکرم ﷺ کو بے
شمار علوم ومعارف اورانعامات واکرامات سے نوازا۔
ذکرِمعراج قرآن مجید میں:
اﷲ رب العالمین ارشاد فرماتے ہیں:
’’ سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاًا مِّنَ الْمَسْجِدِ
الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَی الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہٗ
لِنُرِیَہٗ مِنْ ٰاٰیتِنَا اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ۔‘‘
حوالہ: سورہ بنی اسرائیل، آیت نمبر 01، پارہ 15۔
ترجمہ : ’’وہ ذات (ہر نقص وعیب اورکمزوری وعجز) سے پاک ہے جس نے اپنے بندہ
محبوب کو رات کے کچھ حصے میں سیر کرائی مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک جس کے
گردونواح کو ہم نے بابرکت فرمادیا تا کہ ہم (آسمانوں کی سیر اور مقام قاب
قوسین پر فائز کر کے ) اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں بیشک وہ بہت سننے
والا بہت دیکھنے والا ہے۔‘‘
دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’وَالنَّجْمِ اِذَا ہَوٰی o مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی o وَمَا
یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی o اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی o عَلَّمَہٗ
شَدِیْدُ الْقُوٰی o ذُوْ مِرَّۃٍ فَاسْتَوٰی o وَہُوَ بِالْاُفُقِ
الْاَعْلٰیo ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰیo فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ
اَدْنٰی o فَاَوْحٰٓی اِلٰی عَبْدِہٖ مَآ اَوْحٰی o مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ
مَا رَاٰی o اَفَتُمٰرُوْنَہٗ عَلٰی مَا یَرٰی o وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً
اُخْرٰی o عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَہٰی o عِنْدَہَا جَنَّۃُ الْمَاْوٰی o
اِذْ یَغْشَی السِّدْرَۃَ مَا یَغْشٰی o مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغٰی
o لَقَدْ رَاٰی مِنْ ٰایٰتِ رَبِّہِ الْکُبْرٰی۔‘‘
ترجمہ:’’ قسم ہے پیارے تارے محمد (ﷺ)کی جب وہ معراج سے اترے۔ تمہارے صاحب
نہ کبھی گمراہ ہوئے اور نہ کبھی بہکے۔ اور وہ اپنی خواہش سے کلام نہیں
کرتے۔ نہیں ہے وہ مگر جو انہیں وحی کیا جاتا ہے۔ انہیں خوب پڑھایا سخت
قوتوں والے طاقتور دانا( اﷲ ) نے۔ پھر اس نے قصد فرمایا۔ اور وہ آسمان بریں
کے سب سے بلند کنارہ پر تھا۔ پھر وہ (اﷲ ) قریب ہوا پس وہ خوب قریب ہوا۔
یہاں تک کہ فاصلہ تھا دو کمانوں کا یا اس سے کم۔ اب وحی فرمائی اپنے بندے
کو جو وحی فرمائی۔ دل نے جھوٹ نہ کہا جو دیکھا۔ تو کیا تم جھگڑتے ہو اس کے
دیکھنے پر؟۔ اس نے تو اسے پھر دیکھا۔ سدرہ المنتہیٰ کے پاس۔ جس کے پاس جنت
الماویٰ ہے۔ جب سدرہ پر چھا رہا تھا جو چھا رہا تھا۔ آنکھ نہ پھری نہ حد سے
بڑھی۔ بیشک اس نے اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیں۔ ‘‘
حوالہ: سورہ نجم ، آیت نمبر 1 تا 18، پارہ نمبر 27۔
یاد رہے کہ محدثین کا اتفاق ہے کہ معراج ہجرت مدینہ سے قبل ہوئی۔ شیخ عبد
الحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں:
’’اِعْلَمْ اَنَّہٗ قَدِ اشْتَھَرَ فِیْمَا بَیْنَ النَّاسِ بِدِیَارِ
الْعَرْبِ اَنَّ مِعْرَاجَہٗ ﷺ کَانَ لِسَبْعٍ وَ عِشْرِیْنَ مِنْ رَجَب۔‘‘
ترجمہ: یعنی تم جان لو! کہ دریارِ عرب کے لوگوں میں 27رجب المرجب کی تاریخ
مشہور ہے۔‘‘
حوالہ: ماثبت من السنہ، ذکر شہر رجب، صفحہ 252
جبکہ امام زرقانی فرماتے ہیں کہ 27رجب پر ہی مسلمانوں کا عمل ہے۔ نیز
فرماتے ہیں کہ معراج کی روایت کرنے والے صحابہ کی تعداد 45ہے۔
خلاصہ واقعات معراج
حضور نبی اکرم ﷺ حضرت ام ہانی رضی اﷲ عنہا کے گھر میں آرام فرما رہے تھے کہ
جبرئیل امین علیہ السلام حاضر ہوئے اور آپ ﷺ کو حطیم کعبہ میں لے گئے۔ آپ ﷺ
کے سینہ مبارک کو گردن کے نیچے سے لے کر ناف کے نیچے تک چاک کیا۔ اس واقعہ
کو شق صدر کہا جاتا۔ آپ کا قلب اطہر نکال کر سونے کی طشت میں رکھا اور آبِ
زمزم سے غسل دے کر انوارِ ایمان اورحکمت ( علم الموجودات )سے خوب بھر کر
پھر سینہ میں رکھ کر پیٹ کو بند کر دیا۔ پھر براق ( بجلی سے بھی زیادہ تیز
رفتار جانور ) پیش کیا، جو گدھے سے بڑا اور گھوڑے سے چھوٹا تھا اور اس قدر
تیز رفتار تھا کہ اپنی نظرکی انتہا پر اپناقدم رکھتا تھا۔ اس موقع پر براق
نے اس عظیم اعزاز پر شوخی دکھائی تو جبرئیل امین علیہ السلام نے کہا:
’’اَبِمُحَمَّدٍ تَفْعَلُ ھٰذَا ؟فَمَارَکِبَکَ اَحَدٌ اَکْرَمَ عَلَی
اللّٰہِ مِنْہُ قال فَارْفَضَّ عَرَقاً۔‘‘
ترجمہ: یعنی کیا تو حضرت محمد ﷺ کے ساتھ ایسا کرتا ہے؟ کوئی بھی اِن سے
زیادہ اﷲ کے نزدیک عزت والا نہیں جو تجھ پر سواری کرے پس وہ براق پسینہ
پسینہ ہو گیا۔
حوالہ: جامع ترمذی، باب من سورۃ بنی اسرائیل، 3131۔
پھر آپ ﷺ مدینہ منورہ، مدین، مزار حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ولادت گاہ
عیسیٰ علیہ السلام سے گزرتے ہوئے مسجد اقصیٰ پہنچے اوربعض مقدس مقامات پر
آپ ﷺ نے نماز بھی پڑھی۔ آپﷺ فرماتے ہیں : میں کثیب احمر کے قریب حضر ت
موسیٰ علیہ السلام کی قبر کے پاس سے گزرا:
’’وَھُوَ قَائِمٌ یُّصَلِّیْ فِیْ قَبْرِہٖ۔‘‘
ترجمہ: وہ اپنی قبر میں کھڑے ہوکر صلوٰۃ (یعنی نماز یا درود پاک) پڑھ رہے
تھے۔
صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب من فضائل موسیٰ علیہ السلام، جز 7، صفحہ 102،
طبع بیروت۔
رسول اﷲ ﷺ فرماتے ہیں جب مسجد اقصیٰ پہنچا تو ’’قَالَ جِبْرَئِیْلُ
بِاِصْبَعِہٖ فَخَرَقَ بِہِ الْحََجَرَ وَشَدَّ بِہِ الْبُرَاقَ۔‘‘ ترجمہ:
تو جبرئیل علیہ نے انگلی سے اشارہ کر کے پتھر میں سوراخ کیا اور اس کے ساتھ
براق کو باندھ دیا۔
حوالہ: جامع ترمذی، باب من سورۃ بنی اسرائیل، الرقم3132۔
اس سے حضرت جبرئیل امین علیہ السلام کا خادم ہونا اور آپ ﷺ کا مخدوم ہونا
واضح ہوتا ہے جیسا کہ درودِ تاج میں ہے ’’جِبْرَئِیْلُ خَادِمُہٗ‘‘
تیرے درکا درباں ہے جبرئیل اعظم
تیرا مدح خواں ہر نبی وولی ہے
آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ میں نے انبیاء کو پہچان لیا، کچھ قیام، کچھ رکوع اورکچھ
سجدہ کررہے تھے تو مؤذن نے اذان پڑھی پھر اقامت پڑھی پس ہم کھڑے ہو کر صف
بستہ انتظار کرنے لگے کہ امامت کو ن کرائے گا؟ تو جبرئیل امین علیہ السلام
نے میرا ہاتھ پکڑا اورآگے مصلیٰ امامت پر کھڑا کر دیا تو میں نے انبیاء
عظام کی امامت کرائی۔
اس موقع پر متعدد انبیاء عظام جن میں حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ، حضرت داؤد،
حضرت سلیمان، حضرت عیسیٰ علیہم السلام شامل ہیں نے اﷲ تعالیٰ کی ثنا اور اﷲ
تعالیٰ کے عطا کر دہ انعامات کے ذکر پر مشتمل خطبے پڑھے پھر حضور نبی اکرم
ﷺ نے یہ خطبہ پڑھا:
’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَرْسَلَنِیْ رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ
بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا لِّلنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ وَ اَنْزَلَ عَلَیَّ
الْفُرْقَانَ فِیْہِ تِبْیَانٌ لِّکُلَِّ شَیْءٍ وَّجَعَل اُمَّتِیْ
وَسَطًا وَجَعَلَ اُمَّتِیْ ھُمُ الْاَوَّلُوْنَ وَھُمُ الْآخِرُوْنَ
وَشَرَحَ لِیْ صَدَرِیْ وَوَضَعَ عَنِّیْ وَزْرِیْ وَرَفَعَ لِیْ ذِکْرِیْ
وَجَعَلَنِیْ فَاتِحًا وَخَاتِمًا۔
ترجمہ: ہر تعریف اس اﷲ کیلئے جس نے مجھے تمام جہانوں کیلئے رحمت بنایا اور
تمام لوگوں کیلئے خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا اور مجھ پر ایسا
کلام نازل کیا جو حق وباطل میں فرق کرنے والا اور جس میں ہر شئے کا بیان
موجود ہے اور میری امت کو مرکزی امت بنایا اور میری امت کو اول اور آخر
بنایا اور میرا سینہ کھول دیا اور میرا بوجھ اتاردیا اور میرا ذکر بلند کر
دیا اور مجھے ہر میدان میں فاتح بنایا اور نبوت کا سلسلہ ختم کرنے والا۔‘‘
اس کے بعد جد الانبیاء حضرت ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السلام کھڑے ہوئے اور
فیصلہ سنایا:
’’بِھَذَا فَضَّلَکُمْ مُحَمَّدٌﷺ۔‘‘
ترجمہ: ان فضائل کی وجہ سے محمدﷺ تم سب پر فضلیت لے گئے۔‘‘
حوالہ جات:
٭ تفسیر در منثور جلد1، صفحہ201 زیر بحث آیت نمبر1 سورہ بنی اسرائیل۔
٭ مجمع الزوائد، باب منہ فی الاسراء، الرقم:235۔۔
٭ شفاء شریف، فصل فی تفصیلہ بما تضمنتہ۔
اس موقع پر سب انبیاء کرام کے سکوت سے بھی حبیب خدا ﷺ کے افضل الانبیاء
ہونے پر تمام نبیوں کا اجماع ثابت ہورہا ہے۔
حضور اکرمﷺ فرماتے ہیں: ’’ ثُمَّ عُرِجَ بِیْ اِلَی السَّمَاءِ۔‘‘ پھر مجھے
آسمان کی طرف چڑھایا گیا (اسی سے اس واقعہ کو معراج کہا جاتا ہے ) حضرت
جبرئیل امین علیہ السلام نے آسمان کے خازن (منتظم ) سے کہا: کھولو ! انہوں
نے پوچھا کون ہے ؟ کہا جبرئیل، اس نے پوچھا : آپ کے ساتھ بھی کوئی ہے کہا:
محمد ﷺ۔اس نے پوچھا کیا انہیں بلایا گیا کہا ہاں۔ تو اس نے دروازہ کھول
دیا۔ یہ سب سوالات وجوابات ساتوں آسمانوں پر ہوئے۔
پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام نے استقبال کیا اورکہا: خوش آمدید !بہت
صلاحیت وقابلیت والے نبی اور بڑی قابلیت والے بیٹے۔ اس موقع پر حضرت آدم
دائیں جانب صورتیں دیکھتے تو خوش ہوتے اور بائیں جانب صورتوں کو دیکھتے تو
رونے لگتے، جبرئیل امین نے عرض کی : دائیں جانب اہل جنت اور بائیں جانب اہل
جہنم کی صورتیں ہیں۔
دوسرے آسمان پر حضرت عیسیٰ وحضرت زکریا علیہماالسلام نے استقبال کیااورخوش
آمدید کہا۔
تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام نے استقبال کیااورخوش آمدید کہا،آپ ﷺ
فرماتے ہیں حضرت یوسف علیہ کو آدھا حسن دیا گیا ہے۔
چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام نے استقبال کیا۔
پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام نے استقبال کیااورخوش آمدید کہا۔
چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ اسلام نے استقبال کیااورخوش آمدید کہا، رونے
لگے اور وجہ پوچھنے پر کہنے لگے یہ بڑی صلاحیت والے نوجوان میرے بعد مبعوث
ہوئے ہیں لیکن ان کی امت میری امت کی نسبت بڑی زیادہ تعداد میں جنت میں
داخل ہو گی۔
ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے استقبال کیااورخوش آمدید کہا۔
آپ ﷺ فرماتے ہیں :
مُسْنِدًا ظَھْرَہٗ اِلَی الْبَیْتِ الْمَعْمُوْرِ وَاِذَا ھُوَ یَدْخُلُہُ
کُلَّ یَوْمٍ سَبْعُوْنَ اَلْفَ مَلَکٍ لَّا یَعُوْدُوَنَ۔‘‘
ترجمہ: ملائکہ کے قبلہ بیت المعمور کی طرف وہ ٹیک لگا کر تشریف فرما ہیں
اور اس میں ہر روز 70 ہزارملائکہ داخل ہوتے ہیں اور دوبارہ اُن کو باری
نہیں ملتی۔
حوالہ: صحیح مسلم، باب الاسراء، الرقم : 259
پھر آپ ﷺ فرماتے ہیں ’’ثُمَّ رُفِعْتُ اِلٰی سِدْرَۃِ الْمُنْتَھٰی‘‘ پھر
مجھے مقام سدرہ المنتہیٰ پر فائز کیا گیا۔‘‘
حوالہ : صحیح بخاری، جز 3، صفحہ 1410، بیروت
تو دیکھا کہ جو اعمال زمین سے یہاں پہنچتے ہیں انہیں یہاں سے وصول کر لیا
جاتا ہے اور جوامور اوپر سے نازل ہوتے ہیں وہ بھی یہاں سے وصول کر لئے جاتے
ہیں۔
جب جبرئیل امین علیہ السلام سدرۃ المنتہیٰ پر رک گئے حضرت شیخ سعدی رحمۃ اﷲ
علیہ یہاں نبی اکرم ﷺ اور جبرئیل امین علیہ السلام کا مکالمہ یوں بیان
فرماتے ہیں :
بدو گفت سالار بیت الحرام
کہ اے حامل وحی برتر خرام
اگر یک سر مُوئے برتر پرم
فروغ تجلی بسوزد پرم
یعنی جبرئیل امین سے بیت الحرام کے سردار نے کہا: اے وحی لانے والے فرشتے
اوپر آؤ۔ تو جبرئیل امین علیہ السلام نے عرض کی اگر ایک بال کے سرے کے
برابر اوپر پرواز کروں تو تجلیات کی شدت کی وجہ سے میرے پر جل جائیں
ایک روایت میں اس طرح آیا ہے کہ حضرت جبرئیل نے عرض کی:
’’لَوْ دَنَوْتُ اَنْمَلَۃً لَّاحْتَرَقْتُ۔‘‘
ترجمہ: ’’اگر میں ایک انگلی کے برابر آپ ﷺ کے قریب آؤں تو جل جاؤں گا۔‘‘
حوالہ:تفسیر کبیر زیر بحث سورہ بقرہ آیت نمبر 43۔
شرح شفا، فصل :فی فوائد متفرقۃ، جلد 1صفحہ437۔
اور تفسیر ابن کثیر میں ہے جب سدرۃ المنتہیٰ پہنچاـ:
’’ فَرَفَضَنِیْ جِبْرَئِیْلُ وَخَرَرْتُ سَاجِدًا لِّلّٰہِ تَعاَلٰی۔‘‘ تو
جبرئیل امین نے مجھے چھوڑ دیا تو میں اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لئے
سجدہ میں گر گیا۔
آپ ﷺ فرماتے ہیں: ’’ثُمَّ عُرِجَ بِیْ حَتّٰی ظَھَرْتُ لِمُسْتَوَی
اَسْمَعُ فِیْہِ صَرِیْفَ الْاَقْلَام۔‘‘ ترجمہ: پھر مجھے بلند مقام پر
چڑھایا گیا جہاں میں قلموں کی آواز سننے لگا۔‘‘
حوالہ : صحیح بخاری، کیف فرضت الصلٰوۃ، رقم:439۔ صحیح مسلم، الاسراء،
رقم:263۔
امام شعرانی فرماتے ہیں: معراج کے موقع پر آپ کا اﷲ تعالیٰ کے اسماء مبارکہ
کی بارگاہوں سے بھی گزر ہوا، جب رحیم سے گزرے تو رحیم ہو ئے۔ غفور سے گزرے
تو غفور ہو ئے، جب کریم سے گزرے تو کریم ہوئے، جب حلیم سے گزرے تو حلیم
ہوئے، جب شکور سے گزرے تو شکور ہوئے اور جب جواد سے گزرے تو جواد ہوئے جب
کسی بھی اسم مبارک سے گزرتے تو اس کا فیضان عطا کیا گیا۔
(الیواقیت و الجواھر امام شعرانی )
آپﷺ فرماتے ہیں: ’’ثُمَّ دُلِّیَ لِیْ قَطْرَۃٌ مِنَ الْعَرْشِ فَوَقَعَتْ
عَلٰی لِسَانِیْ ۔۔۔ فَاَنْبَانِیَ اللّٰہُ بِھَانَبَأَ الْاَوَّلِیْنَ
وَالْآخِرِیْنَ وَنَوَّرَ قَلْبِیْ۔‘‘
ترجمہ: پھر عرش سے ایک قطرہ گرایا گیا جومیری زبان پر پڑا ․․․ تو اﷲ تعالیٰ
نے اس سے مجھے پہلوں اورپچھلوں کی خبریں بتا دیں اور میرے دل کو خوب خوب
روشن فرما دیا۔
حوالہ: مدارج النبوت جلد دوم صفحۃ 203۔
آپ ﷺ نے 70ہزار حجابات جن میں سے ہر ایک کی موٹائی پانچ سو سال کی مسافت
تھی طے کئے۔ فرماتے ہیں : پھر میں نے کچھ خوف محسوس کیا تو کسی نے ابو بکر
کی آواز میں کہا: ’’قِفْ یَا مُحَمَّدُ فَاِنَّ رَبَّکَ یُصَلِّی۔‘‘ ترجمہ:
اے محمد ! (ﷺ ) ٹھہر جائیں آپ کا رب صلوۃ بھیج رہا ہے۔ پھر فرماتے ہیں میرا
خوف دور ہوگیا تو آواز آئی: ’’اُدْنُ یَااَحْمَدُ اُدْنُ یَامُحَمَّدُ۔‘‘
ترجمہ: اے احمد قریب آؤ،اے محمد قریب آؤ ۔‘‘ (الیواقیت و الجواھر امام
شعرانی۔ )
جبکہ قرآن مجید سورہ نجم میں ہے: ’’ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰیoفَکَانَ قَابَ
قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی۔‘‘ ترجمہ: پھر وہ قریب ہوا پس اور قرب چاہا ۔ جبکہ
صحیح بخاری میں ہے: ’’وَدَنَا الْجََبَّارُ رَبُّ الْعِزَّۃِ فَتَدَلّٰی
حَتّٰی کَانَ مِنہ قَابَ قَوْسَیْن اَوْ اَدْنیٰ۔‘‘ ترجمہ: ’’اور رب العزت
جبار قریب ہواپس اور قرب چاہا یہاں تک فاصلہ دو کمانوں کا یا اس سے کم۔‘‘
حوالہ: صحیح بخاری جز 6 صفحہ 2730 طبع بیروت
چنانچہ حضور نبی اکرم ﷺ نے سرکی آنکھوں سے اپنے رب تعالیٰ کا خوب دیدار
کیا۔ اسرار ورموزکی باتیں ہوئیں بے شمار علوم ومعارف آپ کو عطاہوئے سورہ
بقرہ کی آخری آیات کا بلا واسطہ فرشتہ آپ ﷺ پرنزول ہوا اور پچاس نمازیں آپ
پر اور آپ کی امت پر فرض کی گئیں اور آپ نے امت کی مغفرت کا سوال کیا اور
بارگاہ الوہیت سے مغفرت امت اور قبول شفاعت کا وعدہ فرمایا گیا۔
امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اﷲ علیہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں: حضرت انس
رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’ فَوَضَعَ یَدَہٗ بَیْنَ ثَدْیِیْ وَبَیْنَ کَتْفِیْ فَوَجَدْتُ
بَرْدَھَا بَیْنَ ثَدْیِیْ فَعَلَّمَنِیْ کُلَّ شَیْءٍ‘‘
ترجمہ: ’’اﷲ تعالیٰ نے اپنا دست ِقدرت میرے سینہ اورمیرے دوکندہوں کے
درمیان رکھا میں نے اس کی ٹھنڈک سینہ میں پائی تو اﷲ تعالیٰ نے مجھے ہر چیز
کا علم دے دیا۔‘‘
حوالہ: تفسیر در منثور جلد 5 صفحہ320
معجم طبرانی جامع ترمذی ویگر کتب حدیث
واپسی پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی توانہوں نے پوچھا آپ کی
امت پر کیا فرض ہوا؟ فرمایا: دن رات میں پچاس نمازیں، تو موسیٰ علیہ السلام
نے عرض کی آپ کی امت ہر گز پچاس نمازیں نہیں پڑھ سکے گی میں بنی اسرائیل کا
تجربہ کر چکا ہوں ’’فَارْجِعْ اِلٰی رَبِّکَ فَسَلْہُ التَّخْفِیْفَ۔‘‘
ترجمہ: آپ اپنے رب کی طرف جائیں اور تخفیف کا سوال کریں۔‘‘
حوالہ: صحیح مسلم، باب الاسراء، رقم : 259۔
چنانچہ خلاصہ حدیث یہ ہے: آپ ﷺبار بار اپنے رب تعالیٰ کی بارگاہ میں حضرت
موسیٰ علیہ اسلام کے اصرار پر حاضر ہوتے رہے اور نمازوں میں تخفیف ہوتی رہی
یہاں تک کہ پانچ نمازیں باقی رہ گئیں اور اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: اے محمد !
(ﷺ)دن رات میں پانچ رہ گئیں ہیں ہر نماز پر 10نمازوں کا ثواب ہے لہذا یہ
(ثواب میں ) پچاس ہی ہیں جو ایک نماز پڑھے گا اسے 10 کا ثواب ملے گا اور جو
ایک نماز چھوڑے گا اسے صرف ایک نماز کے چھوڑنے کا گناہ ہو گا۔ اس موقع پر
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک بار پھررب تعالیٰ کی بارگاہ میں جا کر باقی
پانچ نمازوں کی معافی کا سوال کرنے پر اصرار کیا تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا
میں اتنی بار حاضر ہواہوں کہ اب مجھے حیا محسوس ہوتی ہے۔
قرآن مجید سورہ نجم میں ہے : ’’لَقَدْ رَاٰی مِنْ ٰایٰتِ رَبِّہِ
الْکُبْرٰی۔‘‘ ترجمہ: البتہ تحقیق اس (بندہ محبوب ) نے اپنے رب کی بڑی
نشانیاں دیکھیں ‘‘۔ چنانچہ واپسی پر جنت ودوزخ کا مشاہدہ بھی فرمایا۔ سدرۃ
المنتہیٰ پر فرشتوں اور ارواح انبیاء کے علاوہ اﷲ تعالیٰ کے انواروتجلیات
کا مشاہدہ فرمایااور جو بے شمار عظیم نشانیاں دیکھیں، دکھانے والا اﷲ
تعالیٰ اور دیکھنے والے حبیب اکرم ﷺ ہی جانتے ہیں۔
سفر معراج میں عالم برزخ کے چند نظارے :
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے سُبْحٰنَ
الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلااًا کی تفسیر میں فرمایا:
میرے پاس ایک جانور لایا گیا اور اس پر مجھ کو سوار کرایا گیا، آپ نے
فرمایا: اس کا قدم منتہیٰ بصر پر تھا، آپ روانہ ہوئے اور آپ کے ساتھ
جبرائیل بھی چلے آپ ایک ایسی قوم کے پاس پہنچے جو ایک دن فصل بوتی تھی اور
دوسرے دن فصل کاٹ لیتی تھی اور جس قدر وہ فصل کاٹتے تھے اتنی ہی فصل بڑھ
جاتی تھی، آپ نے کہا: اے جبرائیل :یہ کون لوگ ہیں ؟انھوں نے کہا: یہ اﷲ کی
راہ میں ہجرت کرنے والے ہیں، ان کی نیکیوں کو سات سو گنا تک بڑھا دیا گیا۔
اور تم جو چیز بھی خرچ کرتے ہو اﷲ تعالیٰ اس کے بدلے میں اور چیز لے آتا ہے
اور وہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے پھر آپ ایک ایسی قوم کے پاس آئے جن کے
سروں کو پتھروں سے کچلا جا رہا تھا اورجب سرکچل دیا جاتا تو وہ سرپھر درست
ہو جاتا اور ان کو مہلت نہ ملتی( کہ پھر سر کچل دیا جاتا)۔ میں نے کہا: اے
جبرائیل : یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ وہ لوگ ہیں جن کے سر نماز کے
وقت بھاری ہو جاتے تھے۔ پھر آپ ایسی قوم کے پاس گئے جن کے آگے اور پیچھے
کپڑوں کی دھجیاں تھیں اور وہ جہنم کے کانٹے دار درخت زقوم کو جانوروں کی
طرح چر رہے تھے اور جہنم کے پتھر اور انگارے کھا رہے تھے، میں نے کہا: اے
جبرائیل یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مالوں کی
زکوۃ ادا نہیں کرتے تھے اور اﷲ تعالیٰ نے ان پر بالکل ظلم نہیں کیا اور نہ
اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں پر ظلم کرتا ہے۔
پھر آپ ایک ایسی قوم کے پاس آئے جن کے سامنے دیگچیوں میں پاکیزہ گوشت پکا
ہوا رکھا تھا اور دوسری جانب سڑا ہوا خبیث گوشت رکھا ہوا تھا وہ سڑے ہوئے
خبیث گوشت کو کھا رہے تھے اور پاکیزہ گوشت کو چھوڑ رہے تھے۔ آپ نے کہا: اے
جبرائیل یہ کون لوگ ہیں؟ انھوں نے کہا: یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس حلال اور
طیب بیوی تھی اور وہ اس کو چھوڑ کر رات بھر بدکار عورت کے پاس رہتے تھے۔
پھر آپ ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرے جن کی زبانیں اور ہونٹ آگ کے انگاروں
سے کاٹے جارہے تھے اور جب بھی ان کو کاٹ دیا جاتا وہ پھر پہلے کی طرح ہو
جاتے اور ان کو ذرا مہلت نہ ملتی، آپ نے کہا: اے جبرائیل یہ کون لوگ ہیں
؟کہا یہ آپ کی امت کے فتنہ پرور خطیب ہیں۔
حوالہ: سنن بیہقی۔ دلائل النبوۃ جلد 2 صفحہ 397۔
سفر معراج سے واپسی :
آپ ﷺ نے نماز فجر کے بعدمعراج اور خصوصا مسجد اقصیٰ جانے کا ذکر فرمایا تو
کفار نے بہت شور کیا کچھ نومسلم اسلام سے مرتد بھی ہوگئے۔ ابو جہل حضرت ابو
بکر کے پاس پہنچا اور اس قوی اُمید پر کہ آج ابو بکر بھی پیغمبر اسلام کا
ساتھ چھوڑ دیں گے مسجد اقصیٰ میں آپ ﷺ کے راتوں رات جانے کا دعویٰ بیان کیا
تو حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا: اگر آپ ﷺنے فرمایاہے تو سچ فرمایا
ہے اور میں اُن سے اس سے بڑھ کر صبح وشام آسمانوں کی خبریں سنتا ہوں اور
تصدیق کرتا ہوں۔ اس موقع پر بارگاۂ نبویﷺ سے آپ کو صدیق کا خطاب عطا کیا
گیا۔
نبی اکرم کامسجد اقصیٰ اور تین قافلوں کی نشانیاں بیان فرمانا:
پھر انہوں نے مسجد اقصیٰ کی عمارت، نقشہ اور مسجد اقصیٰ پہاڑ سے کتنی قریب
وغیرہ نشانیوں کے بارے میں سوال کیاکیونکہ انہیں معلوم تھا کہ آپ نے آج تک
مسجد اقصیٰ کا سفر نہیں فرمایا تو آپ ﷺ نے ایک ایک نشانی بیان فرمادی اور
مسجد اقصیٰ آپ ﷺ کے سامنے کردی گئی تھی پھر آپ سے شام سے واپس آنے والوں
قافلوں کے بارے سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ایک قافلہ روحاء کے مقام
پر،دوسرا ذی طویٰ اور تیسرا تنعیم کے مقام پر دیکھا ہے اور سب کی نشانیاں
بھی بیان فرما دیں جس پر انہوں نے آپ ﷺپر جادوکا الزام لگایا اور اب بھی
ایمان نہ لائے۔
معراج النبی ﷺ کے حوالے سے چند نکات افضلیہ
پہلا نکتہ
شق صدر کے واقعہ میں آپ ﷺ فرماتے ہیں میرا دل سینہ سے نکال کر سونے کے طشت
میں رکھا گیا جبکہ کسی انسان کا دل سینے سے نکالنے سے موت واقع ہو جاتی ہے
کیونکہ روح کا مستقر دل ہوتا ہے اور دل کے جسم سے نکلنے سے روح بھی جسم سے
نکل جاتی ہے
لیکن نبی اکرم ﷺ کی آنکھیں، کان اور ذہن ودماغ
دل وروح نکلنے کے باوجود کام کرتے رہے فرشتوں کا عمل آپ دیکھتے رہے اُن کی
باتین سنتے رہے اور یہ سب کچھ اپنے ذہن ودماغ میں محفوظ بھی رکھا جس سے
واضح ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کا جسم مبارک روح اوردل کے بغیر بھی زندہ رہنے کی
صلاحیت رکھتا ہے لہذا قبض روح کے بعد آپ ﷺ کا جسم مبارک دنیاوی زندگی کی
طرح قبر مبارک میں زندہ ہے۔
شارح بخار ی امام احمد قسطلانی رحمۃ اﷲ علیہ اورحضرت شاہ عبد العزیز محدث
دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں : شق صدر کا واقعہ چار بار ہوا:
پہلاشق صدر
پہلی بار حضرت حلیمہ سعدیہ کے پاس تھے اور اس کی حکمت یہ تھی بچوں کے دلوں
میں جو کھیل کود کی رغبت ہوتی ہے آپ کے دل سے ایسے رحجانات پیدا ہی نہ ہوں۔
دوسرا شق صدر
دوسری بار جب آپ ﷺ کی عمر 12سال کے قریب تھی اس کی حکمت یہ تھی کہ جوانی کے
خطرات سے محفوظ رکھنے کی صلاحیت آپ کے دل مبارک میں علی وجہ الکمال پیداکر
دی جائے۔
تیسرا شق صدر
تیسری بار پہلی وحی کے نزول سے پہلے چالیس سال کی عمر مبارک میں ہوا۔ اس کی
حکمت یہ تھی جو کہ قرآن مجید سورہ حشر میں ہے:’’ لَوْ اَنْزَلْنَا ہٰذَا
الْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیْتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ
خَشْیَۃِ اﷲ‘‘ ترجمہ: ’’اگر ہم قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو اسے
دیکھتا کہ اس میں خشیت ِ الٰہی پیدا ہوتی کہ وہ اﷲ کی خشیت کی وجہ سے پھٹ
جاتا۔‘‘ یعنی اس بار شقِ صدر اس لیے ہوا کہ آپ ﷺ قول ثقیل قرآن مجید کے
نزول کو برداشت کر سکیں۔
چوتھا شق صدر
چوتھی بار شب اسراء کو شق صدر ہوا اس کی حکمت یہ تھی کہ آپ ﷺ نے 70,000
حجابات (جہاں جبرئیل امین نے پروازکرنے سے معذرت کر لی تھی ) طے کر کے مقام
قاب قوسین پر فائز ہوکر اپنے سر کی آنکھوں سے اپنے رب تعالیٰ کا دیدار کرنا
تھا تو آپ ﷺ میں ملکیت اور قدسیت کو بالفعل کرنے اور قلبِ اطہر کواتنا
مضبوط کرنے کیلئے شق صدر ہوا کہ آپ کو یہ شان عطا ہوجائے
’’مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغٰی‘‘
ترجمہ: ’’آپ ﷺ کی آنکھ پھری نہ حد سے بڑھی۔‘‘ (سورہ نجم )
عاشق جامی نے خوب فرمایا
موسیٰ ز ہوش رفت بیک پرتو صفات
تو عین ذات مے نگری درتبسمی
ترجمہ: موسیٰ علیہ السلام ایک صفاتی تجلی سے بیہوش ہوگئے
آپﷺ عین ذات کو دیکھ رہے تھے اور تبسم فرما رہے تھے
تفسیر عزیزی سورہ الم نشرح
مواھب لدنیہ، جلد اول صفحہ 280۔
دوسرا نکتہ :
بجلی کو عربی میں’’ برق‘‘کہتے ہیں جبکہ براق میں حروف کا زیادہ ہونا معنی
کی زیادتی کی دلیل ہے اور بجلی کی رفتار فی سیکنڈایک لاکھ چھیاسی ہزار میل
ہے۔ براق اس سے بھی تیز رفتار تھا لیکن حضرت آدم علیہ السلام اور دیگر
ابنیاء براق سے پہلے آسمانوں پر پہنچے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء کرام
علیہم السلام کی رفتار اور طاقت براق سے زیادہ ہے۔ نیز بہت طاقتور بجلی کے
جانور پر سوار ہونا بھی آپ ﷺ کا کمال ہے اور آپ ﷺ کے نوری بشر ہونے کی دلیل
ہے وگرنہ محض بشر تو بجلی کی کرنٹ سے موت کا شکار ہو جاتا ہے۔
تیسرا نکتہ :
رسول اﷲ ﷺ فرماتے ہیں
کثیب احمر کے قریب موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گرزا پس دیکھا:
’’وَھُوَ قَائِمٌ یُّصَلِّیْ فِیْ قَبْرِہٖ‘‘
ترجمہ: ’’اور وہ کھڑے تھے اپنی قبر میں صلوٰۃ (یعنی نماز یا درود پاک) پڑھ
رہے تھے۔‘‘
حوالہ جات
صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب من فضائل موسیٰ علیہ السلام، جز 7، صفحہ 102،
طبع بیروت۔
مسند عبد الرزاق، باب اسلام علی قبر النبی، جز نمبر 3، صفحہ نمبر 577، طبع
بیروت۔
معجم اوسط طبرانی، جز نمبر 8، صفحہ نمبر 13، طبع القاھرہ مصر۔
اس سے ثابت ہوا کہ محبوبانِ خدا کی قبروں پر جانا سنت مصطفیﷺ ہے اور حضرت
موسیٰ علیہ السلام کاقبر میں حالت قیام میں صلوٰۃ نما ز یا درود شریف پڑھنا
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء کی ارواح صرف جنت میں زندہ نہیں بلکہ انبیاء
کے اجسام قبروں کے اندر زندہ ہیں اور نقل وحرکت بھی فرماتے ہیں اور پھر
تمام انبیاء ِ عظام کااپنی قبروں سے نکل کر مسجد اقصیٰ میں آپ ﷺ کی اقتداء
میں نماز پڑھنا، خطبے دینا اور آپ ﷺ کا خطبہ سننا اور پھر بعض انبیاء کا
آسمانوں پر براق سے پہلے پہنچ کر آپ ﷺ کا استقبال کرنا عقائد اہلسنت وجماعت
کے حق ہونے کی واضح دلیل ہے۔
چوتھا نکتہ :
جیسا کہ کتب صحاح میں آیا ہے کہ معراج سے واپسی پر جب نبی اکرم ﷺ نے حضرت
موسیٰ علیہ السلام کو بتایا کہ اﷲ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض
کی ہیں تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی میں نے بنی اسرائیل کا تجربہ
کیا ہے آپ کی امت پچاس نمازیں نہ پڑھ سکے گی لہذا
ـ’’فَارْجِعْ اِلٰی رَبِّکَ فَسَلْہُ التَّخْفِیْف۔‘‘
ترجمہ: آپ اپنے رب کی طرف جائیں اور تخفیف کا سوال کریں۔‘‘
حوالہ جات
صحیح مسلم، باب الاسراء، رقم : 259۔
مشکوٰۃ المصابیح، باب فضائل سید المرسلین، جز نمبر 3، صفحہ نمبر 275، طبع
لبنان۔
صحیح ابن خزیمہ، باب البدء فرض الصلوات الخمس، جز نمبر 1، صفحہ نمبر 153۔
چنانچہ آپ ﷺ کو موسیٰ علیہ السلام نے اصرار کر کے بار بار بارگاۂ ِ الوہیت
میں بھیجا حتیٰ کہ نمازیں صرف پانچ رہ گئیں۔ اس سے روزِروشن کی طر ح واضح
ہے کہ انبیاء عظام وفات کے بعدبھی اپنے مزاروں میں زندہ ہیں اور جہاں چاہیں
حتی کہ آسمانوں پر پہنچ سکتے ہیں جس کی چاہیں امداد کر سکتے ہیں اور حضور
نبی اکرم ﷺ اپنے رب تعالیٰ کی بارگاہ میں ایسے محبوب ہیں اور ایسے شافع ہیں
کہ آپ کے چاہنے سے اﷲ تعالیٰ اپنی قضا اور فیصلوں کو بھی تبدیل فرما دیتا
ہے۔
نیز ثابت ہوا کہ نبی حیات ِ ظاہرہ میں ہویا عالم برزخ میں، وسیلہ بن سکتا
ہے حضور نبی اکرم ﷺ نمازوں کی کمی کے لئے حیاتِ ظاہرہ میں وسیلہ ہیں اور
حضرت موسیٰ علیہ السلام وفات کے بعد عالم بزرخ میں نمازوں کی کمی کیلئے
وسیلہ بنے۔
نیز اِرْجِعْ اِلٰی رَبِّکَ یعنی آپ اپنے رب کی طرف لوٹیں‘‘ سے واضح ہے کہ
آپ ﷺ اپنے رب تعالیٰ سے ملاقات کر کے آئے تھے اور پھر رب تعالیٰ کی بارگاہ
میں حاضر ہو کر نمازوں میں کمی کرائی۔ جب نمازیں پانچ رہ گئیں تو حضرت
موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی :ایک بار اور جائیں اور معاف کرانے کیلئے عرض
کریں تو آپﷺ نے فرمایا:
’’ اب مجھے حیا محسوس ہوتی ہے۔‘‘
کیونکہ آپ چاہتے تھے میں نے اپنی استعداد کے مطابق معراج کی ہے اور امت
کیلئے پانچ نمازوں کی صورت میں ( الصلوٰۃ معراج المومنین ) معراج ساتھ لے
کر جاؤں گا تو میری امت نماز کے ذریعے سعاداتِ دارین سے بہرہ وار ہو سکے
گی۔
پانچواں نکتہ :
معراج بیداری کی حالت میں جسم وروح کے ساتھ ہوئی جس کی ایک دلیل یہ ہے کہ
شیخ عبد اﷲ بن شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی نے اپنی کتاب مختصر سیرت رسول
میں لکھا ہے:
ترجمہ وخلاصہ :
جب نبی ﷺ نے معراج کا واقعہ بیان کیا تو معطم بن عدی نے کہا آپ کا معاملہ
پہلے تودرست تھا لیکن میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اس بات میں کاذب ہیں کیونکہ
ہم اونٹوں کو خوب دوڑاتے ہیں اور مسجد اقصیٰ میں 2ماہ میں پہنچتے ہیں اور
آپ کہتے ہیں کہ ایک رات میں وہاں گیا ہوں۔
اگر آپ ﷺ نے معراج کا خواب میں ہونابیان کیا ہوتا تو خواب میں تو مسجد
اقصیٰ سے بھی دور جاناممکن ہے مطعم بن عدی اہل لسان تھا اور قریشی تھا
یقینا آپ نے بیداری کا واقعہ بیان کیا تھا جس پر آپ ﷺ کی بے حد مخالفت ہوئی
بلکہ کئی نو مسلم مرتد بھی ہوئے۔
سبحان اﷲ! اس موقع پر حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے گواہی دی کہ بے شک میں
آپ ﷺ کی تصدیق کرتا ہوں اوراس سے پہلے صبح وشام آسمانوں کی جو خبریں دیتے
ہیں میں اس کی بھی تصدیق کرتا ہوں چنانچہ اس موقع پر آپ ﷺ نے ان کو
’’صدیق‘‘ کا لقب دیا۔
تفسیرات احمدیہ میں معراج النبی ﷺ کے متعلق فیصلہ کن بات
دنیا بھر میں درس نظامی میں شامل اصول فقہ کی معتبر کتاب ’’نور الانوار‘‘
کے مصنف اور مفسر قرآن امام ملا جیون رحمۃ اﷲ علیہ اپنی تفسیر ’’ تفسیرات
احمدیہ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں :
’’وَالْاَصَحُّ اَنَّہٗ کَانَ فِی الْیَقْظَۃِ بِجَسَدِہٖ مَعَ رُوْحِہٖ
وَعَلَیْہِ اَھْلُ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ فَمَنْ قَالَ اِنَّہٗ
بِالرُّوْحِ فَقَطْ اَوْ فِی النَّوْمِ فَقَطْ فَمُبْتَدِعٌ ضَالٌّ مُضِلُّ
فَاسِقٌ ‘‘
ترجمہ:
’’ صحیح ترین یہ ہے کہ معراج بیداری کی حالت میں جسم اور روح دونوں کے ساتھ
تھی اور اہلسنت وجماعت اسی عقیدہ پر ہیں تو جو کہے کہ صرف روح کے ساتھ یا
نیند کی حالت میں تھی وہ بدعتی، گمراہ، گمراہ کرنے والا اور فاسق ہے۔‘‘
حوالہ : تفسیرات احمدیہ، زیر آیت نمبر 1، سورہ بنی بنی اسرائیل، صفحہ نمبر
505۔ |