پاکستان میں کیری لوگر بل شدید تنقیدوں کی زد میں

پاکستان میں کیری لوگر بل شدید تنقیدوں کی زد میں........حکمران ہوش کے ناخن لیں
رنگ لاتی ہے حِنا پتھر پر پس جانے کے بعد
حکومت کو ہاتھ پھیلا کر کیری لوگر بل کی وصولی سے قبل اِس پر غورکرنا چاہئے تھا

اِن دنوں امریکا کی جانب سے سالانہ ڈیڑہ ارب ڈالرز امداد کے عوض سخت ترین شرائط کے ساتھ پاکستانی حکمرانوں کے ہاتھوں میں تھمائے گئے کیری لوگر بل کی مخالفت اور حمایت کے چرچے ملکی ایوانوں سے لے کر دور کسی ویرانے میں بنی کسی محب وطن اور غیور غریب کی چھونپڑی تک میں سنائی دے رہے ہیں۔ اگرچہ یہ اور بات ہے کہ اِس بل کی مخالفت میں پورا پاکستان ہے تو حمایت میں ماسوائے حکمران جماعت پاکستان پیپلزپارٹی اور اِس کی حمایت یافتہ چند ایک جماعتوں کے اور باقی سب کے سب کیری لوگر بل کو ملکی بقا و سالمیت کے لئے شدید خطرہ قرار دے رہے ہیں۔

ایک خبر یہ بھی ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے قائد الطاف حسین نے بھی کیری لوگر بل پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں کیری لوگر بل پر اعتماد میں نہیں لیا گیا اور ہم کیری لوگر بل پر آنکھ بند کر کے ہاں یا نہ نہیں کرسکتے اِن کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ جب قومی اسمبلی نے اِس بل پر بحث کے لئے ایک جماعت کی جانب سے تحریک التوا منظور کرلی ہے۔ تو اُدھر ہی ایک دوسری اور اہم خبر یہ بھی ہے کہ پاک فوج نے بھی واضح طور پر امریکی ملٹری کو یہ کہتے ہوئے آگاہ کردیا ہے کہ کیری لوگر بل توہین ہے اور ہمیں قبول نہیں۔ اِس صورت ِ حال میں میرے نزدیک اَب تو یہ بات حکمرانوں کو اچھی طرح سوچنی اورسمجھنی چاہئے کہ جب پوری قوم اِس بل کی مخالفت میں اٹھ کھڑی ہوئی ہے تو پھر کیا ضرورت ہے کہ محض امریکی خوشنودی کے خاطر بغیر سوچے سمجھے اِس بل کی صورت میں امریکی غلامی کا پٹہ اپنی گردنوں میں ڈال لیا جائے۔

جبکہ ایک اور خبر یہ بھی ہے کہ گزشتہ دنوں سالانہ ڈیڑہ ارب ڈالرز کی امداد کے بدلے میں کیری لوگر بل (پاکستانیوں کی غلامی کے وارنٹ) پر قومی اسمبلی نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے کیری لوگر بل پر بحث کرانے کے لئے جمع کرائی گئی تحریک التوا منظور کر کے اِ س پر بحث بھی کرائی ہے ابھی قومی اسمبلی میں اِس بل پر بحث کا سلسلہ جو شروع ہوا ہے اِسے کافی دنوں تک جاری رہنے کی بھی امید ہے اور اِس بحث سے متعلق یہ بھی خیال کیا جارہا ہے کہ اِس بحث سے اخذ ہوئے والے نتائج میں زیادہ تر امکان اِس بات کا ظاہر کیا جارہا ہے کہ اِس بحث کے ذریعے بل کو بھاری اکثریت سے مسترد کردیا جائے گا۔

مگر ہمارے حکمران کسی بھی صورت میں اِس بل کو عوامی لاکھ مخالفت کے باوجود بھی مسترد نہ کریں کیوں کہ شائد یہ اِس زمین پاکستان پر بسنے والی عوام پر حکمرانی کرنے والے اشخاص کی فطرت میں یہ عنصر پوری طرح سے غالب آچکا ہے کہ وہ کسی بھی کام کو کرنے سے پہلے اِس کے بارے میں اچھی طرح سے سوچ بچار کرنا کسی گناہِ کبیرہ کے مترادف سمجھتے ہیں اور اِن لوگوں کے نزدیک تو وہ کام یا منصوبہ جو خالصتاً اِس ملک وہ ملت کے لئے ہو۔ اُس کے فوائد اور نقصانات کے بارے میں تو پہلے سے سوچنا یقیناً کسی بھی گناہِ کبیرہ سے کم نہیں ہے۔ کیوں کہ اِس کام اور منصوبے میں صرف ایک فردِ واحد کی اپنی ذات کا نفع اور نقصان نہیں کہ کوئی اِس کے بارے میں سوچے اور پہلے سے فکر و تائل کرے۔ بلکہ برا مت مانیے اور مجھے یہ کہنے دیجیئے کہ مندرجہ بالا کہی گئی باتوں کو آپ یوں بھی لے سکتے ہیں کہ اِس سرزمینِ پاکستان پر بسنے والوں کی نظر میں اَب وہ کام اور منصوبہ جو پاکستان اور پاکستانی قوم کے لئے ہو اُس کے بارے میں فکرمند ہونا تو فضول ہے۔

معاف کیجئے گا....کیوں کہ اَب نہ تو ہماری قوم ہی اِس قابل رہ گئی ہے کہ وہ کچھ سوچ سمجھ سکے اور ناں ہی ہمارے حکمران ہی اِس قابل ہیں کہ وہ اپنا اچھا اور بُرا بھی سمجھ سکیں اِن کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔ اِن کے بارے میں تو کوئی کیا کہے ۔اِن کے قول و فعل کے بارے میں تو آج قوم کا بچہ بچہ بھی اَب خوب جاننے لگا ہے۔ اِن کے بارے میں اَب کسی کو کچھ کہنے یا سننے کی کوئی ضرورت نہیں اور یوں بھی اَب تو ہمارے حکمرانوں کے قول و فعل کے بارے میں کوئی بات کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے۔ اِسی کو ہی دیکھ لیجئے کہ اَب تو امریکا اور دنیا کا بڑا سود خور ادارہ آئی ایم ایف اِن سے جتنے بھی کام کروانا چاہتا ہے۔ وہ اپنے ایک اشارے، اپنی ایک فون کال، اور اِنہیں ڈالروں کی لالچ دے کر بھی اپنی مرضی کے عین مطابق کروا لیتا ہے اور ڈنکے کی چوٹ پر کروابھی رہا ہے۔

جیسے آپ کیری لوگر بل کو ہی لے لیجئے کہ جیسا امریکا نے چاہا کہ پانچ سالوں میں سات ارب ڈالرز (اورسالانہ ڈیڑہ ارب ڈالرز امداد کے عوض اپنی کم ....مگر بھارت کے تحفظ کی ضمانت کی سخت ترین شرائط کے ساتھ کیری لوگر بل دینے کی ایک انتہائی شرمناک دستاویز امریکا ہمارے حکمرانوں کے ہاتھوں میں تھما بھی چکا جِسے ہمارے یہ عاقبت نااندیش حکمران اپنا سینہ پھلا کر اور اپنی گردنیں تان کر یہ کہہ رہے ہیں کہ دراصل کیری لوگر بل جمہوری حکومت کی فتح ہے۔ امریکا اِس بل کی شکل میں ایک ایسا بلیک وارنٹ ہمارے حکمرانوں کے ہاتھوں میں پکڑا کر اِنہیں ایک ایسے جال میں پھانس نے کی تیاری کرچکا ہے کہ اِس سے آسانی سے بچ نکلنے کی امید کی کرن پوری پاکستانی قوم کو برسوں میں تو کیا صدیوں میں بھی کسی کونے کُھدرے سے بھی نظر نہیں آسکے گی۔

میرے خیال سے اگر انتہائی سنجیدگی اور باریک بینی سے اِس بل کے بارے میں سوچا جائے تو یہ بات عیاں ہوگی کی اِس بل کے ذریعے امریکا نے کھلم کھلا پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت کا سودا بھی خود ہی کیا ہے تو پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری کو خرید کر بل بھی خود ہی ادا کر رہا ہے۔ اِس خرید و فروخت کے معاملے میں آج امریکا ایک ایسی تاریخ بھی رقم کرنے کو جارہا ہے کہ دکاندار (پاکستانی حکمران ہیں کہ جو) اپنی بقا و سلامتی فروخت کررہے ہیں اور امریکا جو خریدارہے۔ بل بھی خود ہی بناکر دے رہا ہے۔ کیوں ہے ناں! یہ دنیاکی تاریخ میں عجیب خریدو فروخت کے دکاندار بل نہیں دے رہا ہے بلکہ خریدار اشیا خرید بھی رہا ہے اور الٹا دکاندار کو بل بھی خود ہی دے رہا ہے۔ بہرحال یہ سوچنے اور سنجیدگی سے سب کے لئے غور وفکر کرنے کا مقام ہے کہ ہم اور ہمارے حکمران کیری لوگر بل کے ذریعے اپنے گلوں میں کونسا طوق پہننے جارہے ہیں۔

ہاں البتہ ! ایک بات ہے کہ ہمارے یہاں زبردستی سے کسی بھی ملکی مفادات میں کئے جانے والے کام اور منصوبے کے ہوجانے کی صورت میں اگر ساری قوم کو کوئی فائدہ ہوگا تو ہوگا۔ مگر عموماً تو یہی دیکھا گیا ہے کہ کسی کام اور منصوبے کی صورت میں اِس کے نقصانات کے خدشات سو فیصدی ہوتے ہیں۔ تو اِس بابت کسی کو کیا پڑی ہے کہ کوئی اِس کے بارے میں اپنا مغز کھپائے اور اپنا دل و دماغ ہلکان کرے کہ اِس کے ہونے یا ناں! ہونے سے کونسا کسی ایک فرد کا نقصان ہوگا۔ پوری قوم کا ہو تو ہو۔ کسی کی بلا سے چاہے جتنا بڑا بھی نقصان ہوجائے۔ کسی کو کیا پڑی ہے کہ کوئی اتنا سوچے اور اپنا قیمتی وقت اور دماغ خراب کرتا پھرے۔

کیوں کہ اِس کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ پہلے ہی گزشتہ 62سالوں میں نہ تو عوام ہی نے ملک کی فلاح و بہبود اور اِس کی ترقی و خوشحالی سے متعلق کچھ سوچا ہے کہ عوام اب سوچے اور چیخے چلائے اور کیری لوگر بل کے برعکس آواز اٹھائے اور جہاں تک بات رہی اپنی عیاشیوں کی غرض سے مسندِ اقتدار پر اپنے قدم رنجا فرمانے والے حکمران کی تو اِنہیں بھی بھلا کیا پڑی کہ وہ ملک اور قوم کی اچھائیوں کے بارے میں سوچ کر اپنا وقت برباد کرتے اور اقتدار سنبھالتے ہی ہمارے حکمران قومی خزانے سے اپنی عیاشیوں اور دولت کمانے والے ٹریک سے سِلپ ہوجاتے اور اپنا بینک بیلنس بھرنے جیسے کام کو چھوڑ کر قوم کی خدمت کا بیڑا اٹھائے پھرتے ....تو اِن کا فارن اکاؤنٹ کون بھرتا وہ تو خالی ہی رہتا۔ یہ ہی وہ پرلے درجے کی منفی سوچ تھی جس میں پڑ کر نہ تو ماضی کے حکمرانوں نے ہی ملک وہ قوم کے لئے کچھ اچھا کیا اور نہ ہی آج کے حکمران بھی ملک اور قوم کے لئے کوئی بہتری کی راہ نکال پارہے ہیں جس کی وجہ سے آج ملک میں ایسے حالات پیدا ہوچکے ہیں کہ ہمیں جن سے اَب کسی بھی صورت میں بچنا نہ صرف ممکن ہی نہیں رہا بلکہ ناممکن ہوچکا ہے۔

اور آج اوپر سے نیچے ہر فرد ملکی اور قومی مفادات کی فلاح و بہبود جیسی اُس مثبت اور تعمیری سوچ سے قطعاََ عاری ہوچکا ہے جس کی دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی پستی اور زوال میں جکڑی کسی بھی قوم میں ملکی اور قومی مفادات سے متعلق فلاح و بہبود جیسی سوچوں کا جذبہ مزین ہوا تو اُس قوم نے انفرادیت سے نکل کر جب اجتماعیت کا سوچا تو اُس قوم نے دنیا میں ایسا انقلاب برپا کر دیا کہ وہ قوم اور اِس جیسی دیگر اقوام اپنی مثبت اور تعمیری سوچ و فکر اور اجتماعیت کے باعث دنیا کے لئے آج بھی مشعلِ راہ کر درجہ رکھتی ہیں۔ جن کے راستوں پر چل کر آج اکسویں صدی میں بھی دنیا کی دوسری قومیں اپنا آج اور کل بہتر بنارہی ہیں۔ مگر انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے۔ ہم نے اُن اقوام کو دیکھ کر نہ تو اپنا آج سنوارنے کی فکر کی اور نہ ہی ہم نے اپنے آنے والے کل کو بہتر کرنے کے بارے میں کچھ سوچا کاش !کہ ہم دنیا کی اُن اقوام سے ہی کچھ سبق حاصل کرلیں۔ جن کا ماضی پستی میں رہا اور جب اُن میں اپنی خودی کا جذبہ بیدار ہوا تو اُن اقوام نے اپنے اوپر سے انفرادی مفادات کا خول اٹھا پھینکا اور وہ اجتماعی سوچ کا پرچم اٹھائے ساری دنیا پر یوں چھاگئے کہ دنیا اُنہیں دیکھ کر اُس وقت بھی حیرت زدہ تھی۔ ب کوئی اُنہیں دیکھ کر یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ اقوام صرف اپنے جذبہ اجتماعیت کی وجہ سے ساری دنیا پر حکمرانی کے خواب دیکھنے لگے گی اور یہی دنیا ہے جو آج بھی حیران اور پریشان ہے کہ وہ اقوام جن کا مقدر صرف پستی تھا۔ اَب یہی اقوام حقیقی معنوں میں ساری دنیا پر اپنی حکمرانی کے جھنڈے گاڑنے کی مصمم منصوبہ بندی کرچکی ہے اور اب یہ اقوام باہمی اتحاد اور اتفاق سے اپنے اِس خواب جو انہوں نے اپنی پستی سے نکلتے وقت ساری دنیا پر اپنی حکمرانی قائم کرنے کا دیکھا تھا۔ آج اِن کا یہ خواب اِن اقوام کی انتھک محنت اور لگن کے بدولت شرمندہ تعبیر ہوتا نہ صرف اِنہیں ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کو بھی ہوتا ہوا محسوس ہورہا ہے۔

اگرچہ پورے پاکستان سے کیری لوگر بل پر کھلی تنقید کے بعد حکومت نے قومی اسمبلی میں بحث کرانے کا سلسلہ تو شروع کردیا ہے اور ساتھ ہی حکومت نے ہر سطح پر اِس بل اور اِس کی شرائط کے ظاہری اور باطنی نکات اور اِن سے جلد اور دیر سے پیدا ہونے والے اثرات کا بھی جائزہ اور صرف جائزہ لینے کا عمل برق رفتاری سے شروع کر رکھا ہے مگر اِن تمام منظر اور پس منظر میں اَب دیکھنا تو یہ ہے کہ جس طرح رنگ لاتی ہے حنا پتھر پر پس جانے کے بعد.....ہمارے حکمرانوں پر بھی حنا کی طرح کوئی رنگ چڑھا کہ نہیں انہوں نے اِس بل کو سخت عوامی ردِعمل پر مسترد کرنے کا سوچا بھی کہ نہیں.... یا یہ اِس بل کوامریکا کے آگے اپنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے اِسے منظور کرنے کی خوشخبری سناتے ہیں اور اِس کے ساتھ ہی قوم کو امریکی غلامی میں دینے کا صُور پھونکتے ہوئے قوم کو امریکی غلامی میں دے کر اِس کی پستی اور زوال کا سامان کرتے ہیں اور......ملک میں دنیا کی تاریخ کا ایک نئے خونی انقلاب کی شروعات ....... اَب گیند حکمرانوں کے کورٹ میں ہے کہ وہ کیری لوگر بل منظورکر کے امریکا کو خوش کرتے ہیں یا اُسے ناراض......ملک کو بچاتے میں یا اِسے تباہی کے دہانے پر لے آتے ہیں۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 972213 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.