آزاد کشمیرکے شہرراولاکوٹ سے ہجیرہ کی طرف جائیں تو تحریکِ
آزادیِ کشمیر کے تاریخی مقام دوتھان(شہیدآباد)سے گزرتے ہوئے اس کی مخالف
سمت میں اونچے نیچے پہاڑوں پر مشتمل ایک گاؤں نظر آتا ہے، پڑکوٹ نامی یہ
گاؤں غالباََ ضلع پونچھ کا پسماندہ ترین گاؤں ہے۔ اکیسویں صدی میں بھی ،پانچ
ہزار سے زائد نفوس پر مشتمل اس گاؤں میں کوئی گرلز مڈل یا ہائی سکول
نہیں،گاؤں کے تقریباََ تمام پرائمری سکول درودیوار اور چھت سے محروم ہیں،
بچے بیٹھنے کے لیے پتھر بطورِ کرسی اور ڈیسک استعمال کرتے ہیں۔ گاؤں کا
واحد بوائز ہائی سکول سٹاف کی کمی کا ہی شکار نہیں اسکی عمارت بھی ٹوٹی
پھوٹی ہے اور تنگیَ داماں کا شکوہ بھی کرتی نظر آتی ہے،ہائی سکول کے ساتھ
پلے گراؤنڈ نام کی کوئی چیز نہیں۔ آدھے سے زیادہ گاؤں میں سڑک موجود ہی
نہیں،آدھے گاؤں میں کچی اور ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ہیں جن میں سے ا کثر عوام نے
اپنی مدد آپ بنائی ہیں۔
گاؤں کے سب سے اونچے پہاڑ پر واقع ڈنہ پڑکوٹ کا پرائمری سکو ل بھی گاؤں کے
باقی سکولوں کی طرح 2005 کے زلزلے کے بعدسے ایرا کے بلند وبانگ دعوؤں کے
باوجود درودیوار اورچھت سے محروم ہے۔یوں تو پورے گاؤں کے سکولوں کی حالتِ
زار دیکھ کے دِل خون کے آنسو روتا ہے لیکن اس سکول کو دیکھ کر دُکھ کچھ
زیادہ ہی ہوتا ہے۔اسکی بہت ساری وجوہات ہیں،ایک وجہ تو یہ ہے کہ میری پہلی
درسگاہ بھی یہی سکول ہے، پرائمری تک تعلیم میں نے بھی اسی سکول سے حاصل کی
ہے،اپنے سکول کو اس حال میں دیکھ کر زیادہ دُکھ ہونا ایک فطری عمل ہے۔دوسری
اہم وجہ اس سکول کے شاندار رزلٹ کے باوجود متعلقہ حکام اور منتخب نمائندوں
کی بے حسی ہے۔ 21اپریل2014 کوایلیمنٹری بورڈ پونچھ کا رزلٹ آیا ،جس میں اس
ٹوٹے پھوٹے سکول کی طالبہ مصباح شوکت نے 88%نمبر لے کربورڈ میں انیسویں اور
تحصیل بھر میں دوسری پوزیشن حاصل کی،باقی طلبہ وطالبات کی کارکردگی بھی غیر
معمولی رہی،نومیں سے تین نے اے پلس(A+ )اور چھ نے اے(A )گریڈ حاصل کیا،یوں
نتیجہ ہمیشہ کی طرح سوفیصد رہا۔ایسا پہلی بار نہیں ہوا 2008 سے سکول بورڈ
ایلیمنٹری بورڈ پونچھ میں پوزیشن بھی لے رہا ہے اور سو فیصد نتیجہ بھی دے
رہا ہے۔2008 میں ریحانہ عزیز نے بورڈ میں تیسری اور تحصیل میں پہلی پوزیشن
حاصل کی،2009 میں شباب پرویز نے بورڈ میں دوسری اور تحصیل میں پہلی پوزیشن
لی،2010 میں راشد عزیز تحصیل میں پہلی پوزیشن کے حقدار ٹھہرے،2012 میں
رباب اشرف نے بورڈ میں بیسویں اورتحصیل میں چودھویں پوزیشن لے کرسکول کانام
روشن کیا۔ سکول کی شاندار کارکردگی اور خستہ حا لی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں،
محکمہ تعلیم کے ضلعی حکام اس سے لا علم ہیں نہ ہی منتخب ایم ایل اے اور
دیگر عوامی نمائندے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ پڑکوٹ صدرِریاست کے گاؤں علی سوجل
کے ساتھ دوسرا گاؤں ہے اور ڈنہ پڑکوٹ کا یہ سکول صدرِریاست کے گھر سے آٹھ،
دس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے،اور سپیکر آزادکشمیر اسمبلی سردار غلام صادق
خان کا حلقہ انتخاب بھی یہی ہے،گویا دو بھاری بھر کم سیاستدان اور حکومتی
عہدیداراس گاؤں اور اس سکول کے اردگرد رہتے ہیں۔ اس کے باوجود گاؤں کی حالت
دیکھ کر لگتا نہیں کے کسی حکومتی عہدیدارکا اس گاؤں سے کبھی گزر ہوا ہو،
حالانکہ اسپیکر اسمبلی اور دیگر قانون ساز اسمبلی کے اُمیدوار ’’باقاعدگی‘‘
کے ساتھ ہر ’’پانچ سال‘‘ بعد الیکشن سے پہلے گاؤں کے کئی پھیرے لگاتے ہیں،
کئی وعدے بھی کرتے ہیں ،اور بہت سارے دعوے بھی ، اور آفرین ہے گاؤں کے عوام
پر کہ وہ ہر دفعہ اِن وعدوں پر یقین کر لیتے ہیں اور اِن ’’محبوب‘‘قائدین
کے لیے پولنگ اسٹیشن پر باہم دست وگریباں بھی ہوتے ہیں۔2005 میں زلزلے کی
وجہ سے پڑکوٹ میں درجنوں مکانات تباہ ہوئے دس سے زائد لوگ موت کے مُنہ میں
چلے گئے، سارے سکول زمین بوس ہو گئے لیکن کئی ماہ تک کسی سیاستدان نے علاقے
کا رُخ نہ کیا ، الخدمت فاؤنڈیشن اور دیگر این جی اوز اپنے طور پر لوگوں کی
مدد کرتی رہیں۔ زلزلے کے کئی ماہ بعد جونہی الیکشن قریب آئے منتخب ایم ایل
اے سردار غلام صادق خان اور اُن کے حریف خان بہادر خان علاقے میں آ دھمکے
اور اُن گھروں میں بھی فاتحہ پڑھنی شروع کردی جہاں کوئی نہیں مرا تھا۔جب
دونوں سے پوچھاگیاآپ لوگ پہلے کہاں تھے؟کہنے لگے ہمیں علم ہی نہیں تھاکہ
یہاں اتنی تباہی ہوئی ہے،یہ حال ہے ہمارے حکمرانوں کا کہ انھیں اپنے حلقہء
انتخاب کے حالات کا ہی علم نہیں،پوری ریاست میں کیا ہو رہا ہے اُنھیں کیسے
پتا چلے گا؟
2011 کے الیکشن سے کچھ پہلے ڈنہ پڑکوٹ کے اسی ٹوٹے پھوٹے سکول کی ایک
تقریب میں سردار غلام صادق صاحب تشریف لائے،میں اتفاق سے اس تقریب میں
موجود تھا،میں نے سکول کی حالت زار کا ذکر کیااور ساتھ ہی شکوہ کیاکہ جب آپ
پہلی دفعہ بطور اُمیدوار اسمبلی یہاں آئے تھے تو آپ نے گرلز مڈل سکول کا
وعدہ کیاتھاجوابھی تک وفانہیں ہوا۔اپنی تقریر میں کہنے لگے کہ مجھے معلوم
نہ تھا کہ اس سکول کی یہ حالت ہے،(پیپلز پارٹی کے کچھ دوستوں نے وہیں بیٹھے
مجھے بتایا کہ کئی بار سکول کی حالت ان کے گوش گزارکرچکے ہیں)اس بار اگر
جیت گیاتونہ صرف اس سکول کی تعمیر کاکام ہوگابلکہ گرلز مڈل سکول اوربوائز
انٹرکالج بھی پڑکوٹ میں بنے گا۔وہ نہ صرف جیت گئے بلکہ اسپیکر اسمبلی بھی
منتخب ہوگئے،تین سال ہونے کو ہیں سکول کی تعمیر تودور کی بات پہلا پتھربھی
ابھی تک نہیں لگ سکا،انٹر کالج کیا ملنا تھا ہائی سکول کا سٹاف بھی نہیں
پورا۔ان حالات کو دیکھتے ہوئے الخدمت ویلفیئرٹرسٹ پڑکوٹ کے نوجوانوں نے
اپنی مددآپ پرائمری سکول کے لیے دو کمروں کی چھوٹی سی بلڈنگ تیارکر لی
ہے،ساتھ ہی ہجیرہ رورل ڈیویلپمنٹ سوسائٹی کی مدد سے طالبات کے لیے مڈل
کلاسز کا اجراء بھی کردیاہے۔پرائمری سکول ڈنہ پڑکوٹ کی کئی سال سے شاندار
کارکردگی اور علاقے کے نوجوانوں کی طرف سے تعلیم کے لیے یہ اقدامات
حکمرانوں کے لیے دراصل پیغام ہیں کہ آپ لوگ پڑکوٹ اورریاست کے دیگرعلاقوں
کو پسماندہ اور تعلیم سے دور رکھنے کے لیے جتنا زور لگا سکتے ہیں لگا
لیں،ہم اپنی محنت سے انشااللہ آگے بڑھتے رہیں گے۔
|