محمدیاسر اقبال درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہیں ان کی
تعلیم کے ساتھ ساتھ معاشرے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اور پیچ و خم پر
گہری نظر ہوتی ہے،یہ مثبت سوچ کے مالک ہیں،ان کا تعلق باغ کے گاؤں اندروٹ
سے ہے وہ معاشرے میں تعمیر و ترقی کے حوالے سے بڑا لگاؤ رکھتے ہیں ، یہ
ملنسار ی،خوش اخلاقی ان کا خاصا ہے، میری جب بھی ان سے ملاقات ہوئی انہوں
نے معاشرتی مسائل اور ان کے حل کی بات کی یہ اکثر کرنٹ آفیئرز پر بحث و
مباحثہ کرتے ہیں،اس دفعہ جب ان سے ملا تو باتوں باتوں میں باغ ویمن
یونیورسٹی کی کامیابی ،اور اس کے پیچھے سردار قمر الزمان صاحب کی جد وجہد
کوشش کے حوالے سے بات ہوئی ان کا کہنا تھا کہ بہت سے ایسے حقائق اور دلائل
ہیں جن سے عوام بے خبر ہے اور بہت سے لوگ اس کو تنقید اور تنگ نظری سے
دیکھتے ہیں ان کا کہنا درست تھا کیوں کہ میں اس سے پہلے بھی اس حوالے سے
اپنے کالموں میں ،باغ میں ویمن یونیورسٹی کی ضرورت اہمیت اور سردار قمر
زمان کی کاوشوں کا ذکر بے پنا تنقید اور مخالفت کے باوجود کر چکا ہوں یہاں
تک کہ مجھ پر جانبدارہونے کا الزام بھی لگا مگر میں نے سچ اور حقائق کو
سامنے رکھتے ہوئے اپنے دلائل دیئے۔سچ اور حقیقت کو تسلیم کرنا ،سننا،ماننا
بڑا مشکل کام ہوتا ہے اگر ہم تعلیم پر بات کریں تو تعلیم کسی بھی معاشرے کی
صحت کے لئے اتنی ضروری ہے۔ جتنا جینے کے لئے ہوا پانی اور خواراک ضروری
ہیں۔ تعلیم نہ صرف انسان کو جینے کا ہنر سکھاتی ہے۔ بلکہ آداب زندگی سے بھی
روشناس کرواتی ہے۔ انسان میں شعور و آگہی کے ایسے چراغ جلاتی ہے، جو قوموں
کی تاریکیوں میں روشنیاں پھیلانے کا باعث بنتے ہیں۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں
۔ قوموں نے تعمیر و ترقی کی منازل وہیں طے کیں ۔ جہاں تعلیم با آسانی ہر
خاص و عام تک پہنچی ،اس میں کوئی شک اور دو رائے نہیں تعلیم کے میدان میں
جو کام ،جو کارنامے سردار قمر زمان نے سر انجام دیے ان کی مثال نہیں ملتی
اگر کشمیر میں تعلیم کے حوالے سے کبھی تاریخ لکھی گئی تو اس میں ان کا نام
سنہری حروف سے لکھا جائے گا تعلیم کے حوالے سے جب بھی بات ہوگی تو ان کا
ذکر کئے بغیر بات مکمل نہیں ہوگی،خاص طور پر ویمن یونیورسٹی باغ کے حوالے
سے جو ایشو اور مخالفت تھی جس طرح اس پر تنقید ہو رہی تھی مسلسل دو سال سے
اس کی کامیابی کے لئے سرد جھنگ جاری تھی ۔۔۔ آخر کار اس کا ڈراپ سین ہوا،یہ
سفر سردار صاحب کی محنت،کوشش،اور جد وجہد سے پھر سے جاری ہوا ، وہ سارے بند
ٹوٹے،رکاوٹیں ختم ہوئیں،اور باغ میں ویمن یونیورسٹی کی منظوری اور ڈاکٹر
حلیم صاحب کی بطور وائس چانسلر تعینا تی خوش آئند نہیں بلکہ باغ کی عوام کی
بہت بڑی کامیابی اورفتح ہیں،تعلیم کے میدان میں یہ سفر اب شروع ہوا اس کی
منزل کیا ہے ،دنیا میں یہ اپنا نام کتنی تیزی سے پیدا کرتی ہے یہ وقت بتائے
گا مگر سردار صاحب اس میں مبارک باد کے مستحق ہیں ،جس بہادری سے انہوں نے
اس مشن کو کامیاب کیا یہ کسی اور سیاسی لیڈر کی بس کی بات نہیں تھی،یہاں پر
اس کو لانا اور پھر اس کے لئے جد وجہد کرنا اور ایک طویل جھنگ لڑنا جوئے
شیر لانے یا شیر کے منہ سے نوالہ چھیننے کے مترادف ہے۔سردار قمر زمان صاب
سے یہی امید کی جاتی ہے کہ وہ اس کو اب عوام کی پراپرٹی بناتے ہوئے اس میں
میرٹ کا بول بالا کر کے یہ ثابت کر دیں گے کہ انہوں نے یہ کارنامہ عوام کے
لئے سر انجام دیا اس یونیوورسٹی کے قیام سے اس خطے اعلیٰ تعلیم یافتہ
نوجوان مرد و خواتیں نہ صرف برسر روزگار ہونگے بلکہ معاشرے میں اگائی کے
ساتھ ساتھ انصاف اور میعار کا بھی بول بالا ہوگا۔ کہا جاتا ہے ایک مرد کی
تعلیم ایک فرد کی ہے اور ایک عورت کی تعلیم ایک خاندان کی تعلیم ہے،خواتین
کے حوالے سے یہ کارنامہ صدیوں یاد رکھا جائے گا اور آنے والے وقت میں اسکے
گہرے اثرات مرتب ہونگے۔ جس طرح وائس چانسلر ڈاکٹر حلیم صاحب نے اپنی پہلی
پریس کانفرس میں دعوے کے ساتھ یہ کہا کہ ہم تمام تعیناتیاں میرٹ کی بنیاد
پرکریں گے اور کسی بھی قسم کا کوئی سیاسی دباو ہم پر نہیں ہوگا،اور نہ کوئی
سیاسی تعلق ہے نہ ہوگا،ان کا کہنا تھا کہ اداروں کو کیسے چلایا جاتا ہے یہ
میں اچھی طرح جانتا ہوں اب ہمیں دن رات اس کے لئے کام کرنا پڑے گا۔ یہ بات
حقیقت ہے کہ میرٹ پر تعیناتیاں نہ صرف یونیورسٹی کے مستقبل کے لیے اچھا
ہوگا بلکہ اس کا مثبت اثر تعلیم کے میدان میں بھی پڑے گا،تعلیم کو بلا رنگ
و نسل ہونا چاہئے جب تک ہم میرٹ کو اپنا معیار نہیں بناتے اس وقت تک ہم
دنیا کے چیلنجز کا مقابلہ نہیں کر سکتے،سکول،کالج ،یونیورسٹیاں ایسی تربیت
گاہ ہوتے ہیں یہاں سے ایک سوچ ایک نظریہ اور میشن پیدا ہوتا ہے، ایک شعور
بیدار ہوتا ہے، یہی وہ ادارے ہیں یہاں سے انقلابات آتے ہیں خاص کر کے ویمن
کے حوالے سے یہاں پر یہ بہت بڑی کامیابی ہے ۔اس میں بلاکسی کاسہ لیسی کے یہ
بات کہی جا سکتی ہے کہ اس کی ضرورت بھی تھی اوراس کا مرکز بھی یہی تھا،اس
میں کسی ایک گروپ کی یا کسی ایک پارٹی کی کامیابی یا ہار نہیں بلکہ اجتماعی
طور پر اس کو قومی کامیابی کہا جا سکتا ہے اس کی تکمیل میں بہت سے مسائل
اور مشکلات پیش آئیں گی لیکن مسائل کا سامنا ہمیشہ زندہ قومیں ہی کرتیں
ہیں،یہ کل تک دنیا کی عظیم درس گاوں میں اپنا مقام بنائے گی اور اس خطے کی
پہچان بنے گی یہ یونیورسٹی کسی ایک خطے نہیں بلکہ کشمیر کی نمائندگی کرے
گی،اس کے لئے عوام کو چاہئے کہ وہ اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کر کے اپنا
رول پلے کریں ،معالی وسائل اور مسائل کے حوالے سے وائس چانسلر صاحب نے ذکر
کیا تھا توکشمیری قوم صلاحیتو،کارناموں،اور اپنی محنت،فراغ دلی کے حوالے سے
کسی سے بھی پیچھے نہیں یہ چائیں تو سب کچھ ممکن ہو سکتا ہے۔ محمد یاسر
اقبال نے بڑی خوبصورت بات کی کہ ہمیں من حیث القوم سوچنا چاہیے،جب تک ہماری
سوچ ایک نہیں ہوجاتی،ہمارے مفادات ایک نہیں ہو جاتے،ہم ایک جھنڈے کے نیچے
نہیں آجاتے ہم کبھی بھی دنیا کا مقابلہ نہیں کر سکتے،انفرادی تو ہو سکتا ہے
کہ ہم بہتر ہو جائیں مگر اجتماعی ہم ترقی نہیں کر سکتے،اس لئے با اختیار
اور با کرداربااثر لوگوں کو چاہئے کہ وہ میرٹ کے ساتھ ساتھ بلاتفریق،نفرت و
دشمنی معاشرے میں اپنا کردار ادا کریں۔۔۔۔ |