پاکستان آرمی نے کیری لوگر بل پر اپنے شدید
تحفظات کا اظہار کیا جو ایک اچھی بات ہے اور الحمداللہ شائد پاکستان کی
تاریخ میں پہلی مرتبہ افواج پاکستان نے پاکستان کو دی جانے والی ممکنہ
امداد کو چند غیر مناسب امریکی تجاویزات کے پیش نظر مسترد کرنے کا عندیہ دے
دیا ہے۔
اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ فوجی امداد دراصل بالا ہی بالا پاکستان کی
جمہوری حکومت کو بغیر فوجی مشاورت اور عمل دخل کے دی جانے کی تجویزات دی
گئی ہیں امریکی بل میں۔ اس سے پہلے بھی کاش ہمارے فوجی حکمران اسی قومی
حمیت اور غیرت کا مظاہرہ کرتے تو ہم آج غیروں سے بھیک نا مانگ رہے ہوتے اور
در در اپنا کشکول لیے نا پھر رہے ہوتے۔
مگر چلیں شکر ہے کہ دیر آید درست آید۔ جس طرح افواج پاکستان نے اس امریکی
بل پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے اس سے پہلے بھی کاش پریسلر ترمیم اور اس
جیسے دوسرے بلوں کو بھی ٹھکرا دیا جاتا اور کاش ہم اور ہمارے لیڈران گھاس
کھانے کے لیے تیار رہتے مگر اپنی شان و شوکت کے لیے غیر ملکی اس قسم کی
امداد ٹھکرانے رہتے تو کیا اس مملکت خداد کا یہ حشر ہوتا جو آج ہو رہا ہے۔
پاکستان اپنے مختلف ادوار میں جو کرتا رہا ہے اس کی تفصیل تو نہایت طویل ہے
مگر گزشتہ ٨ سے ١٠ سالوں کے درمیاں پاکستان اور امریکی برطانوی مشہور اخبار
گارڈین کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ملٹری کی مد میں دیے گئے امدادی پیکچ کا
باریک بینی سے جائزہ لیا جا رہا ہے کیونکہ٤۔٥ یعنی قریباً ساڑھے پانچ بلین
امریکی ڈالرز میں سے ستر فیصدی اخراجات میں شدید قسم کی مالی بے قاعدگیوں
کے الزامات لگائے گئے ہیں۔
٢٠٠٢ سے امریکہ بہادر نے پاکستان ملٹری آپریشنز کی مد میں آپریٹنگ اخراجات
ادا کیے افغان باڈر سے متصل ٹریبل بیلٹ پر لڑائی کے لیے جہاں طالبان اور
القائدہ کے جنگجوؤں کے چھپے ہونے کی یقینی خبریں ملتی رہیں ہیں
پاکستان نے ایک لاکھ سے زائد ٹروپس یا افرادی قوت فراہم کی براہ راست لڑائی
کے لیے، جس کے لیے امریکہ نے کھانے پینے، فیول، ہتھیاروں اور مینٹی نینس کے
بلز ادا کیے جس کی کیش ادائیگی کی صورت میں قریباً اسی ملین ڈالر ماہانہ
ادا کیے گئے۔
امریکی اہلکار جو ادائگیوں کے معاملات دیکھتے ہیں ان کے مطابق پاکستان کے
اخراجات جو کلیم کیے جاتے رہے ہیں ان میں بے پناہ بے قاعدگیاں پائی گئیں۔
دو مغربی ملٹری حکام نے گارڈین کو مطلع کیا کہ جتنے اخراجات کلیم کیے جاتے
ہیں ان میں سے صرف ٣٠ فیصدی صحیح ہوتے ہیں۔
آفیشل نے کہا کہ امریکہ نہیں جانتا کہ کیا ہوا ہے بقیہ ستر فیصدی فنڈ کا جن
کی مالیت قریبا ٨۔٣ بلین ڈالرز بنتی ہے اور ان کے مطابق خدشہ ہے کہ اس میں
سے پیسہ F-16 فائٹر جیٹ یا آرمی چیف کے نئے گھر کے لیے خرچ ہوا ہے۔
خبر کے مطابق ہر مہینے پاکستان ملٹری اسی ملین ڈالرز کے اخراجات کی فہرست
جمع کراتی ہے اسلام آباد میں واقع امریکی ایمبیسی میں مگر کوئی اخراجات کی
سپورٹ اور درستگی ثابت کرنے والی کوئی رسید نہیں فراہم کی جاتی اور پھر یہ
فنڈ ڈائریکٹ فائنانس منسٹری کو ادا کردیے جاتے ہیں
واشنگٹن پوسٹ کی خبروں کے مطابق پاکستان نیوی نے بھی روڈز اور ٹریکس کے لیے
کلیم جمع کروایا جسے امریکہ کی طرف سے مسترد کر دیا گیا۔ پاکستان اطہر عباس
صاحب نے عرض کیا کہ نیوی بھی وار آن ٹیرر میں حصہ دار ہے کہ وہ یہ نگرانی
کرتی ہے کہ ہتھیار اور بارودی سامان باہر سے دہشت گردوں کو سمندر کے راستے
نا فراہم کیا جائے۔
بے پناہ بے قاعدگیوں اور بے ضاطبگیوں کے باعث امریکی سیاستدان سینیٹر جو
بائیڈن نے خبردار کیا کہ فنڈز کم کر دیے جائیں گے اگر حالات اسی طرح رہے
تو، مگر تجزیہ نگاروں اور حکام کا خیال ہے کہ امریکہ ایسا نہیں کرے گا کہ
پاکستان کے فنڈز روکے یا کم کرے کیونکہ پاکستان کا ایک اہم کردار ہے اسامہ
بن لادن اور دوسرے غیر ملکی شدت پسندوں کے خلاف۔
دوسری طرف حکومتی مؤقف گرچہ بڑا واضع ہے مگر ظاہر ہے ایسے مسائل کو ٹوسٹ
کرنے والے بھی کم کھلاڑی نہیں ہیں۔ حکومت کھل کر اس مسئلے کو صحیح ثابت
کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اپوزیشن بھی اپنی سی کوشش کر رہی ہے مگر ایک
بات محسوس کی گئی کہ اکثر ماہرین (جن کی اکثریت نے پھر بھی بل کا مطالعہ
کیا ہوا لگتا ہے) مگر عوام جن میں ہمارے سیاستدان بھی شامل ہیں (جن کی ٩٥
فیصد تعداد نے اس بل کا مطالعہ نہیں کیا ہوا) کہ اکثر ماہرین اور سمجھ دار
سیاستدانوں (جیسے ن لیگ کے ایاز امیر اور جاوید ہاشمی صاحبان) نے اس بات پر
ڈھکے چھپے اور کھلے بندوں تنقید کی ہے کہ فوج کا اس طرح آئی ایس پی آر کے
زریعے بل پر اپنے تحفظات کا اظہار انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ ہے اور
جاوید ہاشمی صاحب کا ایک اخباری بیان تو کہتا پایا گیا ہے کہ “فوج اپنی
حدوں میں رہے“۔ دوسری طرف ن لیگ شائد اس چکر میں ہے کہ چلو ججز ایشو ختم
ہوا، آرٹیکل ٦ کا ڈرامہ بھی ختم ہوا چینی کا بحران اور بجلی کا بحران بھی
حکومت کو نہیں ہلا پا رہا رہ سہہ کر فوج ہی رہ جاتی ہے جس کے زریعے اس
حکومت کا خاتمہ کر کے اپنی حکومت قائم کی جاسکتی ہے۔ |