بخدمت جناب وزیراعلیٰ صاحب
جناب عالیٰ!
میں آپ کی توجہ ایک بہت ہی حساس اور سنگین مسئلہ کی طرف مبذول کروانا چاہتا
ہوں جس کی سنگینی کا ادارک اگلی چند سطروں میں ہو جائے گا۔
جناب والا میں دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں آپ کی حکومت سردست درپیش چیلنجز لوڈ
شیڈنگ پولیو وائرس ،عمران خان وائرس اور طاہر القادری وائرس سے بھی زیادہ
سنگین مسئلہ آپ کے سامنے پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ کیونکہ آئندہ آنے
والے وقت میں آپ کی حکومت کیلئے یہ مسئلہ بہت زیادہ درد سر بننے والا
ہے۔عالیٰ جناب! میں پہلے فوری طور پر نافذ العمل چند گزارشات آپ کی نذر
کرنا چاہتا ہوں۔
ایک تویہ کہ ہنگامی طور پر آپ تمام پنجاب اور بلخصوص گوجرانوالہ میں حکم
صادر فرمائیں کہ شہر بھر میں جتنی بھی ادبی بیٹھکیں اور موسیقی کی اکیڈمیز
ہیں انہیں فوری طور پر سیل کر کے ان کے کرتہ دھرتاؤں کو گرفتار کر کے کسی
نا معلوم مقام پر منتقل کر دیں اور حضور والا! اگر میں جان کی امان پاؤں تو
ان تمام خوشحالی کے دشمنوں کے ٹھکانے آپ کو بمعہ ایڈریس بتانے کیلئے تیار
ہوں۔اگر آپ کے سٹی پولیس آفسیر راقم کو وعدہ معاف گواہ بنانے کی یقین دہانی
کروائیں تو پولیس ریڈنگ پارٹی کے ساتھ بندہ خود جانے کو تیار ہے۔
سب سے پہلے تو میں محکمہ پولیس ہی کے دو ایسے افسران کا بغیر کسی انعام و
اکرام کے بتاتا ہوں۔
ایک تو ڈی ایس پی کے عہدہ کے آفیسر ہیں! غلام عباس موصوف کے سر پر بھی
لوگوں کی ’’بہو بیٹیوں ‘‘کو سیدھی راہ سے بھٹکانے کا الزام ہے۔کیونکہ لوگ
اپنی بیٹیوں کو محکمہ پولیس میں اس لیے بھیجتے ہیں کہ وہ شب و روز محنت کر
کے خوب ترقی کریں اور آنے والے وقت میں خوشحال زندگی گزاریں۔مگر موصوف کسی
ماہر جوہری کی طرح ان میں سے مستقبل کی نوشی گیلانی،پروین شاکر،عصمت چغتائی
اور فاطمہ ثریا بجیا کو ڈھونڈتے رہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کے بے وزن شعروں
پر اکثر دل کھول کر داد دیتے نظر آتے ہیں۔جس کی وجہ سے یہ بچاریاں محکمانہ
ترقی کو چھوڑ پہلی فرصت میں اپنی شاعری کا مجموعہ چھپوانے میں مصروف ہو
جاتی ہے۔
دوسرے نمبر پر سی پی او آفس میں سپرٹینڈنٹ کے عہدئے پر معمور عمران اعظم
رضا ہیں موصوف بھی تنخواہ تو محکمہ پولیس سے وصول کرتے ہیں مگر توجہ تمام
کی تمام ادبی کاموں پر مبذول رکھتے ہیں۔ان کے سر بھی لوگوں کی اولاد ’’خراب
کرنے کا الزام ہے‘‘۔یہ بھی ملک کی نوجوان آبادی میں سے کام کی چیزین تلاش
کرتے رہتے ہیں۔اور اکثر نوجوان طبقہ کو درس دیتے نظر آتے ہیں کہ ’’فلاں‘‘
چیز اردو ادب میں ابھی تک موجود نہیں لہذا تم لوگ اس پر طبع آزمائی کرو جن
نونہالوں نے آگے چل کر ڈاکٹر،انجنیئر اور معاشرے کا کامیاب ’’پرزہ‘‘ بننا
ہوتا ہے۔موصوف انہیں ادب کی راہ پر لگا کر ’’صرف‘‘انسان بنانے کا کام کر
رہے ہیں۔آپ خود سوچیں یہ حساس بے زر،بے ضرر نوجوانوں کی فوج کل کلاں کو
ہماری ملکی معشیت پر کیا بھاری بوجھ نہیں بنے گی؟؟۔
عزت مآب! یہاں پر میں چند شخصیتیں اور اداروں کا نام بھی آپ کو بتانا چاہتا
ہوں جو ایسے ہی سنگین جرم کے سرعام مرتکب پا جا رہے ہیں۔
1:مرکزی بزم اقبال:2:انجمن ترقی پسند مصنفین
اور ان کے علاوہ شہر بھر میں کئی فعال اور غیر فعال انجمنیں اور سلطان راہی
بہ کثرت موجود ہیں۔جی ہاں! سلطان راہی ان ادبی انجمنوں کے کرتا دھرتا
ہیں۔جو سوائے بھڑکیں مارنے کے کوئی عملی کام نہیں کر سکتے۔
عالیٰ مرتبت!اب میں آتا ہوں شخصتیوں پر چوہدری محمد انور کمبوہ ایڈووکیٹ جو
کہنے کو تو سنیئر قانون دان ہیں مگر پس پشت ان تمام مجرموں کے سرغنہ ہیں۔سب
سے زیادہ جرم ان کا ہی بنتا ہے۔کیونکہ یہ دامے۔ درمے،سخنے،قدمے جرم کی
آبیاری میں مصروف عمل رہتے ہیں۔اور ان کے ساتھی عبادت علی ملک ایڈووکیٹ ان
کے شریک جرم ہیں۔یہ حضرت بھی اکثر لوگوں کے شعروں پر داد دیتے پائے گئے
ہیں۔دوسرا ان کا بڑا جرم یہ ہے کہ آج کل بھیگی پلکوں سے عوام کو سرعام تصوف
کا بھی سبق دینے کے مرتکب پائے جا رہے ہیں۔موصوف خود تو ریٹائرمنٹ انجوائے
کر رہے ہیں’’اور کھا کما بھی چکے ہیں‘‘۔اب نوجوان طبقہ کو دولت کی برائیاں
بیان فرما رہے ہوتے ہیں۔
’’اہے کوئی گھٹ جرم تے نئی‘‘ یہ کوئی چھوٹا جرم نہیں ہے۔
ذی وقار! اب اس جرم کی دنیاں کے سب سے زیادہ متحرک نوجوان ’’بابے‘‘کا ذکر
کروں گا جو 90سال کی عمر میں بھی 25سالہ نوجوان کی طرح متزکرہ جرم کو
پھیلانے میں 24گھنٹے مصروف رہتا ہے۔اسے نہ تو دن رات کی کوئی تمیز ہے اور
نہ ہی موسمی اثرات اس پر اثر انداز ہوتے ہیں۔اس بے چین روح نے شاید قسم کھا
رکھی ہے کی اس جرم کو ہر گھر کی دہلیز تک پہنچا کر دم لے گا۔جرم کی دنیا کے
باسی اس سیماب صفت کو انصر علی انصر کے نام سے جانتے ہیں۔اور اس کے ہمراہی
ملزم کو اقبال رندھاوہ کے نام سے پہچانتے ہیں۔
عزت مآب! آپ دیکھتے جائیں میں کیسے کیسے شرفاء کو آپ کے سامنے بے نقاب کرتا
ہوں۔اب آپ ’’نیاز ہاؤس‘‘ کے وارثان میں سے ایک سپوت کو ہی دیکھ لیں۔جس نے
اپنا اوڑھنا بچھوناہی اس جرم کو رکھا ہوا ہے۔حضرت کے مخصوص حلیہ شریف سے ہی
معلوم پڑتا ہے کہ موصوف ببانگ دھل اس جرم کی پشت پناہی فرما رہے ہیں۔ان
مہاشے کے جرم کی شہرت تو سرحد پار بھی پہنچ چکی ہے۔یعنی انہیں ہم بین
الااقومی مجرم کہیں تو بہتر ہو گا ۔اگر یقین نہ آئے تو ’’میاں زاہد
ممتاز‘‘کو ایک نظر دیکھ لیں۔
ان کے علاوہ دو ایک شخصیتیں تو باطنی فرقہ قرامطہ کی طرز پر زیر زمین اس
جرم کو پھیلا رہے ہیں۔ان میں ایک شخصیت تو بظاہر شعبہ درس و تدریس سے
وابستہ ہیں۔کہنے کو تو موصوف سکول ٹیچر ہیں مگر ظاہری حلیہ ان کا کسی
درباری ’’گوئیے‘‘ جیسا ہوتا ہے۔
انہیں پہلی نظر میں دیکھیں تو ’’فوک گلوکار‘‘
دوسری نظر میں’’سٹیج ایکٹر‘‘
اور تیسری نظر میں ’’جون ایلیا ‘‘ جیسی حرکتیں کرتے نظر آتے ہیں۔
آپ خود سوچیں مذکورہ بالا نظر آنے والا حلیہ جات کسی سکول ٹیچر سے زرہ بھی
مسابقت رکھتا ہے۔
اور ہاں ان سے بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ حضرت24گھنٹوں میں سے
ایک گھنٹہ ایسا بھی گزارتے ہیں جب یہ ذہنی طور پر اپنے آپ کو علاقہ کا ’’ڈان‘‘
سمجھ رہے ہوتے ہیں۔
ان کی طبعیت کا یہ عنصر شاہد زیر زمین سرگرمیوں کی وجہ سے ان کی شخصیت پر
حاوی ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہ حضرت اپنے حلقہ احباب میں تمام تر ایسی شخصیت کو
داخل رکھتے ہیں جو دیکھنے میں’’ماجھے، ساجھے‘‘ ہوتے ہیں۔
موصوف علاقہ تھانہ باغبانپورہ میں رہائش پذیر ہیں۔انہں لوگ کلیم عباس کلیم
کے نام سے جانتے ہیں۔
یہاں میں ایک اور خدائی فوجداری کے بارے میں آپ کو بتانے لگا ہوں جو اپنی
بیش بہا معلومات کے بل بوتے پر اندھوں میں کانے راجہ بنے پھیرتے ہیں۔موصوف
کا یہ نعرہ ہے کہ سارے جہاں کا درد میرے جگر میں ہے۔یہ بھی کسی کا شعر سن
کر نہ صرف بے جا داد دینے میں بڑی سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہیں بلکہ پھر تمام
شہر میں یہ ڈھنڈوراہ پیٹتے پھرتے ہیں کہ موجود دور میں اس سے اچھا شعر کو
ئی کہہ ہی نہیں سکتا۔اور اس کی بے جا تعریف و توصیف کے اس وقت تک پل
باندھتے رہیں گے جب تک وہ بیچارہ اپنی محنت مزدوری چھوڑ کر خیالی طور پر
مرزا اسد اﷲ غالب کی حالت میں نہیں آ جاتا۔اور پھر پلٹ کر اس کا پتہ بھی
نہیں لیتے کہ وہ ’’خیالی غالب‘‘ قرض خواہوں سے تنگ آ کر خود کشی کر بیٹھا
ہے یا پھر دنیا سے منہ چھپائے اپنی آئندئے چھپنے والی کتاب کی آخری غزل
کیلئے نئی زمین تلاش کر رہا ہے۔جی ہاں ان لوگوں کو اپنے آخری وقت کے لیے دو
گز زمین کا ٹکڑا ملے یا نہ ملے نئی غزل کیلئے نئی نئی بنجر زمینوں کو یہ
زرخیر کرنے پہ مکمل قادر ہوتے ہیں۔اور ان کی اس قدرت میں بڑا ہاتھ ان ’’جغادری‘‘
دانشور طبعیت کے لوگوں کا ہوتا ہے۔جو ایک سادہ لو اور شریف آدمی کو یہ باور
کرانے میں جتے رہتے ہیں کہ تم اپنے آپ کو کہاں ضائع کرتے پھیر رہے ہو
تمہارا اصل کام تو ادب کی خدمت اور معاشرے کو آگاہی دینا ہے۔لہذا تم فوری
طور پر اس صنف میں طبع آزمائی شروع کر دو آنے والے دور میں لوگ تمہیں ’’سر
سید ‘‘کی طرح یاد کریں گے۔
محترم مقام!
آپ بھی سوچ میں گم ہوں گے کہ میں نے ابتدائی سطور میں جس سنگینی کا ذکر کیا
تھا وہ تو کجا ابھی تک تو اس تحریر میں قابل دست اندازی پولیس کا معاملہ
بھی نہیں پایا جاتا۔تو جناب من! مزکورہ بالا تمام ادبی انجمنیں اور شخصیات
کا تفصیلی ذکر کرنا اسے لیے مقصود تھا کہ کہیں کل کلاں کو محکمہ پولیس عدم
پتہ کو مجبوری بنا کر ان مجرمان کو نظر انداز نہ کر دے۔
عالیٰ مرتبت! یہ مذکورہ بالا تمام ادبی محافل انجمنیں اور ان کے سرخیل جو
جرم ایک مکمل مذہبی ریاست میں سرعام پھیلا رہے ہیں آپ نے کبھی ان پر غور
فرمایا ہے؟۔کہ یہ نوجوان نسل کا سویا ہوا ضمیر جگا رہے ہیں۔یہ اُجڈ ذہنوں
کو حساس بنا رہے ہیں یہ رقیق القلبی کو فروغ دے رہے ہیں یہ معاشرے میں حساس
طبقہ کو بڑھتی دینے میں مصروف عمل ہیں۔یہ آنے والی نسلوں کے زہریلے ڈنک
نکال کر انہیں بے ضرر عام انسان بنا رہے ہیں۔یہ معاشرے میں عدم برداشت کا
خاتمہ کر رہے ہیں یہ بھولی بھالی عوام کو مسلکی اور فروعی معاملات سے اوپر
دیکھنے پر مجبور کر رہے ہیں یہ مذہبی بنیادوں پر ہونے والے قتل عام کو بند
کروانا چاہتے ہیں۔یہ اچھے بھلے مزدور ذہنوں کو جو ’’ڈھور ڈنگروں ‘‘کی طرح
پر امن زندگی گزار رہے ہوتے ہیں ان میں چھپی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کر
کے انہیں آگہی کا عذاب دے رہے ہیں۔ان جرموں کی فہرست بہت لمبی ہے آپ خود
سوچیں اگر ہمارے معاشرے میں مسلکی جھگڑے ہی ختم ہو گئے تو ہر گلی کی نکڑ پر
بنی مسجد کیسے آباد ہو گی یہ تو سرا سر ’’خانہ خدا‘‘ کو بے آباد کرنے کی
گھناؤنی سازش ہوئی نہ؟؟۔
اگر معاشرے کے تمام لوگ ہی بھائی چارے کی فضا کو قائم کرنے میں مصروف ہو
گئے تو جناب والا! آپ کو محکمہ پولیس سمیت اور بہت سارے محکمے ختم کرنا
پڑیں گے۔اور دوسری بات یہ کہ ان کی تمام مصنوعات معاشرے میں مس فٹ
ہے۔کیونکہ اس پراڈکٹ میں سے کوئی کسی محکمہ میں اگر بھرتی ہوتا ہے تو وہ
موجودہ سسٹم کو جام کرنے کا سبب بنے گا۔کیونکہ یہ نہ تو رشوت لیں گے اور نہ
لینے دیں گے۔
جناب! آپ جہاں دیدہ اور متحرک وزیراعلیٰ ہیں آپ حکومتی معاملات میں بڑے دور
اندیش مانیں جاتے ہیں مستقبل قریب میں ہمیں جو لوگ بطور سیاست
دان،بیورکریٹ،بزنس مین،تعلیمی شعبہ جات اور دیگر محکموں کیلئے لوگ چاہیں
ہیں وہ دل سے نہیں دماغ سے سوچنے والے ہونے چاہیں۔بلکہ میں تو یہ عام عوام
جنہیں آپ لوگ نجی محفلوں میں ’’کتیک پارٹی‘‘ کہتے ہیں۔ان میں بھی کوئی محنت
کش ٹائب کا بندہ ایسا نہیں دیکھنا چاہتا جو دل سے سوچتا ہو۔کیونکہ یہ ہماری
ملکی ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔
جناب! سیاسی اور ملکی ترقی کیلئے ہمیں تو ایسی ٹیم درکار ہے جس کے تمام
اراکین صبح اٹھ کر سب سے پہلے اپنے ضمیر سے ’’پکڑ‘‘لگاہیں اور اس ضمیر جیسی
بے وقعت طاقت کو چاروں شانے چت کر کے گھر سے نکلیں اس عمل کو روزانہ دہرانے
سے ہی ہمارا ملک دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرئے گا۔راقم اسی لیے بار بار
حساس اور سنگین مسئلہ کو آپ کے روبرو اجاگر کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ
مذکورہ بالا شخصیات انجمنیں ادبی محافل اور بیٹھکیں جو آنے والے وقت میں
معاشرے کو اپنی تیار شدہ مصنوعات فراہم کریں گی وہ نہ صرف ملکی ترقی کا
پہیہ جام کرنے کا سبب بنیں گی بلکہ آپ کی حزب اختلاف کو ایک نیا ایشو فراہم
کرنے کے ساتھ ساتھ آپ کی پارٹی کی سیاسی ساکھ کو شدید نقصان پہنچانے کا سبب
بنیں گی۔ان مصنوعات کی ایک جھک میں آپ کو دیکھانا چاہتا ہوں ان ادبی محافل
سے تیار ہو کر نکلنے والا شاعر ملکی ترقی میں کیا کردار ادا کر سکتا ہے۔جو
بندہ ایک ایک ہفتہ ایک شعر کو سوچنے اور اس کی نوک پلک سنوارنے میں ضائع کر
دیتا ہے ملکی ترقی تو ایک طرف وہ اپنی ذاتی اور گھریلو ذمہ داریاں پوری
کرنے سے بھی قاصر رہتا ہے۔بلکہ یہ کہنابے جا ہو گا کہ جنہیں اپنے حلیہ کو
سنوارنے کا وقت نہیں ملتا وہ باقی معاملات کیسے سنبھالے گا۔یہی حال ان کے
افسانہ نگار ،سٹوری رائیٹر اور دوسرے ادبی شعبہ جات والوں کاہے۔یہ انجمنیں
اور ان کے سلطان راہی سارا سارا دن زبانی جمع خرچ کرنے میں مصروف ہوتے
ہیں۔کبھی تو یہ لٹھ لیے مذہبی اکابرین پر چڑھ دوڑتے ہیں اور کبھی سرمایہ
درانہ سسٹم کے خلاف زبانی فائرنگ شروع کر دیتے ہیں۔یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم
جن لوگوں کو اپنی تفریع طبع کیلئے دل کھول داد دیتے ہیں وہ مسکین اور مفلوک
الحال شاعر بعد میں کسں اندھیری گلی میں کھو جاتے ہیں۔انہوں نے کبھی گوراہ
نہیں کیا کہ جن اداروں کے سائن بورڈوں کے نیچے یہ بیٹھیں ہوئے ہیں وہاں پر
کبھی کسی مجبور یا نے کس آرٹسٹ یا پھر کسی بیمار شاعر ادیب کے بارے میں
کوئی میٹنگ کال کی ہو یا پھر کسی ایسے باضمیر،انا پرست اور دکھیارے بندے کا
پتہ کیا ہو جو ایک موذی بیماری کا عرصہ دراز سے مفلسی اور تنگدستی کے عالم
میں مقابلہ کر رہا ہو اور اسی دوران اسے ادویات تو شاہد کہیں سے مل جاتی
ہوں مگر اس کے بچوں کو سکول سے بروقت فیس نہ دینے کے جرم میں نکال دیا
ہو۔کل کلاں کو اگر اس شاعر کی ہمت بستر مرگ پر کہیں دم توڑدیتی ہے کہ
جو’’بلاآخر ہونا ہی ہے تو ‘‘۔
عالیٰ مرتبت! اس کے قتل کے جرم کی ایف آئی آر متزکرہ بالا تما شخصیات ادبی
محفلیں،بیٹھکیں،انجمنیں اور ان کے سلطان راہیوں کے خلاف درج کی جائے۔کیونکہ
یہ سب کے سب اس شاعر کے ساتھ شام مناتے اور اس کے شعروں پر جھوم جھوم کے
داد دیتے رہے ہیں۔اگر یہ لوگ شروع ہی میں اس کی حوصلہ افزائی نہ کرتے
مشاعرے اورقہواہ خانوں پر رات گئے تک اس کے کلام کے بارے زمین آسمان کی
قلابیے نہ ملاتے تو وہ شروع ہی میں اس کام کا ترک کر کے کہیں محنت مزدوری
پر جُت جاتا اور آج بستر مرگ پر حسرت و یاس کی تصویر بنا اپنے بے قصور اور
معصوم بچوں کے نا مکمل سکول بیگوں پر ہاتھ پھیرتا نظر نہ آتا۔
حضور والا!تمام قاتل،مقتول،وقوعہ،وجہ عناد تمام چیریں آپ کے روبرو روز روشن
کی طرح عیاں ہیں۔
ٹھہرئیں! ٹھہریں!۔آج صبح کی پکٹر میں میرے ضمیر نے مجھے چاروں شانے چت کر
دیا ہے لہٰذا اس قتل کی ایف آئی آر میں کہیں للکاریں یا پھر زیر دفعہ
109میں راقم کانام بھی لکھ دیں۔کیونکہ راقم اقراری ہے کہ اس نے مستقبل کے
’’مقتول ‘‘شاعر کے کلام پر اس نے بھی ایک دو دفعہ داد دی ہے۔
میں نچیا جگ دے سُکھ پاروں
سدو بلھے نوں میری دھمال ویکھے |