گیس کے غبارے کو صرف دھاگے
سے باندھ کر بچے بھاگ بھاگ اُڑاتےہیں۔ ہاتھ سے چھوٹنے کی غلطی اسے آسمانوں
کی طرف اُڑانیں بھرنےمیں آزادی کے سفر پر گامزن کر دیتی ہے۔ کھونے کا درد
اور تکلیف چہرے کے فق رنگ کے ساتھ ساتھ کبھی کبھار چیخنے تک لے جاتی ہے۔بڑے
بچوں کو غباروں کی آزادی پر پہرے بٹھانے کے لئے تراکیب سمجھاتے ۔ کھڑکی ،کلائی
سے باندھ رکھو۔ اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو کھلے میدان میں پڑے کسی چھوٹے
پتھر سے باندھ لو ہوا کے جھولے میں جھولتا رہے گا۔جوں جوں گیس بھرے غبارے
سائز میں بڑے اور تعداد میں بڑھتے جائیں۔ایسے پتھر کا استعمال شروع ہو جاتا
ہے جو زمین سے اُٹھنے کی بجائے اپنی طرف کھینچنے کی طاقت زیادہ رکھتا ہے۔
دھاگہ بھی ایسا استعمال میں لایا جاتا ہے جو انہیں ایک دوسرے سے اس کھینچا
تانی میں الگ ہونے سے بچاتا رہے۔
زندگی بھی اسی اصول پر سدا کاربند رہتی ہے۔خیر اور شر کی قوتیں اسی فارمولہ
پر کھینچا تانی میں مصروف عمل رہتی ہیں۔جسم ایک دھاگہ کی مانند ان کے
درمیان رسہ کشی میں الگ ہونے سے بچانے کے لئے کوشاں رہتا ہے۔ روح جب آزادی
کی طلب میں آسمانوں کی طرف پرواز کا قصد کرتی ہےتو دنیاوی خواہشات ،محرومیوں،مجبوریوں
اور ضرورتوں کے پتھروں سے جسم کو مضبوطی سے جکڑ لیتی ہیں۔ روح آزادی کی تڑپ
میں بے بسی کی رسی سے لٹکی جھولتی رہتی ہے۔تاوقتکہ کوئی ان پتھروں سے انہیں
آزادی نہ دلا دے ۔
پتھروں کی پہچان کے لئے سنگتراش ہونا ضروری نہیں۔ سائز دیکھ کر ہی وزن اور
طاقت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ خواہشات اور ضرورتیں جتنی زیادہ ہوں گی زمین کی
گرفت بھی اتنی زیادہ ہو گی۔ روح بیچاری اپنے زور پر آسمانوں کی طرف محو
پرواز ہوتی ہے۔جس کی قوت بندشوں سے زیادہ آزادی کی تڑپ ہوتی ہے۔جس کے لئے
شدت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جو اسے دنیاوی خواہشات کی فنا سے حاصل ہوتی ہے۔اگر
اس فنا کو زندگی کا حاصل سمجھ لیا جائےتو روح کی بقا کے سفر کو روکا نہیں
جا سکتا۔
جسم بھوک اور ہوس کے دائرے میں رقصاں رہتا ہے۔یہ مکڑی کی طرح ایسا جال بنتا
ہے کہ اس کی خوبصورتی کے فریب میں زندگی کا مقصد فنا ہو جاتا ہے۔ روح کے
لمس کے سفر پر فاصلوں کا اندازہ وقت اور رفتار سے جانچ کر رکھنا ضروری
ہے۔جنہیں علم کی تشنگی ہے وہ عالم سے رجوع کریں۔ بھوک رکھنے والے آگ سے
،ہوس و حرص کے پجاری حسن و جمال سے۔
مگر جنہیں درِ کائنات تک پہنچنا ہوتا ہے وہ دستک سے آنے کی اطلاع دیتے
ہیں۔وہاں تک پہنچنے میں خیر و شر کی عظیم کشمکش سے گزرنا پڑتا ہے۔جسم حیلے
بہانےسے ضرورتوں مجبوریوں ان کہی کہانیوں محرومیوں نا انصافیوں کےرونے
دھونے سے لمس خیال کو عشق حقیقی میں پرونے سے روکتا ہے۔جن کی آنکھیں کھلی
ہیں ان کا صرف یہ جہاں کھلا ہے۔ جن کی بند آنکھ کھلی ہے ان کے لئے ایک الگ
جہاں بھی کھلا ہے۔جن کا لفظ احاطہ نہیں کر سکتے۔
جنہیں اس سفر پر چلنا ہوتا ہے وہ لفظ کی حرمت کو لمس سے محسوس کرتے ہیں۔جو
آنکھوں سے آنسو بہا دے۔جسم چیخنے اور چنگھاڑنے کی تسکین طلب رکھتا ہو۔تو
سمجھ لو کہ وقت کا پہیہ رک نہیں سکتا۔جسم خواہشات کے وزن سے زمین سے چپک
جائے مگر روح کو آزادی کے لمس سے زیادہ دیر تک دور نہیں رکھا جا سکتا۔
تقریریں اور تحریریں کتابوں کا لمس رکھتی ہیں۔جن سےسوالات کا دھواں اُٹھتا
ہے۔جوابات کا پانی کہیں اور سے بادل بن اُڑتا ہے۔ خشک دھرتی کی بے چینی کو
بس بادل سمجھتا ہے۔
درِ دنیا کے سوالی تو بہت مگر درِ کائنات کےنہیں جو درِ اثر سے گزریں۔ جس
کے نشے کی لت کا شکار جو ایک بار ہو گیا تو احساسِ لمس کی پریاں بادِ صبا
کے جھونکوں کی طرح سحر میں مبتلا کر دیں گی۔ مگریہاں تک کا سفر اتنا آسان
نہیں۔کیونکہ یہ داستانِ عشق ہے۔اور یہ عشق ہر ایک کسی کے نصیب کا مقدر
نہیں۔
پروانہ شمع سے جلے الزام تمازتِ آفتاب پہ ہو
عشقِ وفا کہاںجوچاہتِ محبوب وصلِ بیتاب پہ ہو
زندگی کو تماشا نہ بناؤ تماشا خود زندگی ہو جائے
درد کا چیخِ مسکن خوشیِ القاب پہ ہو
تختِ عرش کو دوام رہتا جو ہوا میں ہے
فرشِ محل نہیں پائیدار قائم جو بنیادِ آب پہ ہو
گل گلزار سے تو مہک بہار سے ہے وابستہ
اُگتا ہے صرف خار ہی بستا جو سراب پہ ہو
شاہِ زماں سے دل گرفتہ رہتے جو معظمِ ہمراز
دلگیرئ فقیر میں سدا رنگ تابانئ مہتاب پہ ہو |