مسند انصاف پر براجمان رہتے ہوئے حاکم وقت کی نافرمانی کے
باعث معطلی اور اس عوام کی جانب سے اس نافرمانی کو بغاوت قرار دیئے جانے کے
بعدمیڈیا کے باعث عوامی ہیرو بن کر دوبارہ منصف اعلیٰ کی مسند پر بحال اور
سوموٹو ایکشن کے حوالے سے مشہور ہونے والے سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار
محمد چوہدری کا دور انصاف عوامی حقوق کے حوالے سے فعال تو ضرور دکھائی دیتا
ہے مگر افادیت پذیری سے یکسر محروم بھی ہے اور عوام کا کوئی طبقہ ایسا نہیں
ہے جو ان کے دور انصاف میں عوامی مفادات کیلئے غیر جانبدارانہ فیصلوں کی
تائیدوتوثیق کرتا دکھائی دے البتہ عوامی رائے ان کی مسلم لیگ (ن) سے محبت
اور میاں صاحب سے عقیدت کی گواہی دیتی ہے جبکہ ان کے صاحبزادے ارسلان
افتخار کے حوالے سے سامنے آنے والے الزامات اور ان الزامات کی تحقیق و
تفتیش میں سستی ان الزامات پر وقت کی دھول جمانے کا باعث بن کر جس طرح سے
انصاف کی تضحیک کا سبب بنی اس کے پس پردہ محرکات اور شخصیات تاحال اندھیرے
میں ہیں مگر جب ان کے چہرے سامنے آئیں گے تو عوام کی صائب رائے میں ان میں
سب سے روشن و نمایاں چہرہ خود دیوتائے انصاف کا ہی ہوگا کیونکہ قومی
انتخابات 2013ء میں دھاندلی کے حوالے سے مچنے والے شور اور اس دھاندلی کے
پیچھے چیف جسٹس کی موجودگی کے حوالے سے الزامات و انکشافات اور عمران خان
کا اس بات پر اصرارکہ مسلم لیگ (ن) کی فتح میں ووٹرز سے زیادہ سابق چیف
جسٹس افتخار محمد چوہدری اور سابق چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم کا
ہاتھ ہے عوام کے ذہن میں انصاف و اقتدارکے شعبوں کے سربراہان کے حوالے سے
شکوک و شبہات کو تقویت دے رہا ہے جبکہ بہت سے حلقے تو اب برملا اس بات کا
اظہار کرنے لگے ہیںکہ سابق چیف جسٹس کے دورمیں قانونی سقم کا سہارا لیکر جس
تیزی سے خطرناک دہشتگردوں کو بری کرنے اور ضمانت پر رہائی کا سلسلہ شروع
کیا گیا اس کے باعث دہشتگردوں کے حوصلے بلند ہوئے اور دہشتگردی میں خطرناک
حد تک اضافہ ہوا حالانکہ پاکستان کے عدالتی نظام میں اتنی تیزی سابق سربراہ
عساکر و سابق صدر پاکستان پرویز مشرف کے معاملے میں بھی دکھائی نہیں دیتی
کیونکہ پاکستان کا سست عدالتی نظام چوری کے معمولی اور جھوٹے مقدمے میں بری
ہونے کیلئے بھی ایک عمر کامحتاج ہوتا ہے اور ایسے نظام میں دہشتگردی کے
حوالے سے رنگے ہاتھوں گرفتارہونے والوں کی مہینہ دس روز میں رہائی فکر کے
دروازوں پر دستک دیتی دکھائی دیتی ہے اور اب نیویارک میں پاکستانی کمیونٹی
سے خطاب میں سابق چیف جسٹس کا بلوچستان میں ناراض عناصر سے بات چیت کے
حوالے سے ذمہ داری کے نام پر نئے عہدے کے حصول کی خواہش کااظہار اور مارشل
لگانے کوشش کیخلاف سخت مزاحمت کا چیلنج ریٹائرمنٹ کے بعد دوسالہ آئینی مدت
سے قبل سیاسی اڑان بھرنے کی ایسی کوشش دکھائی دیتی ہے جسے آئینی کسی طور
نہیں کہا جاسکتا کیونکہ آئین پاکستان سرکاری عہدوں سے ریٹائر ہونے والے
افراد کو ریٹائرمنٹ کے بعد دوسال تک سیاست سے دور رہنے کا پابند بناتا ہے۔
دوسری جانب مارشل لاء کیخلاف مزاحمت کیلئے عدلیہ بحالی تحریک کاحوالہ اس
بات کا مظہر ہے کہ موصوف ایکبارپھر وکلاء برادری کو اپنے مفاد کیلئے
استعمال کرنا چاہتے ہیں اورجلد نئی سیاست جماعت کے ساتھ میدان سیاست میں
جلوہ افروز ہونے والے ہیںیا احسانمند حکمرانوں کی ٹیم میں شامل ہوکراپنے
انتخابی احسانات کا صلہ و مرتبہ پانے کی عجلت میں ہیں ! |