دوستی اور پیار - حصہ دوئم

گزشتہ کہانی کا خلاصہ :
یسری سید ماں باپ کی اکلوتی بیٹی اور پانچ بھائیوں کی اکلوتی بہن نفسیات کی ہونہار طالبہ تھی . کہنے کو اس کے پاس سب کچھ تھا لیکن حقیقت میں وہ بہت تنہا تھی یسری نے خود کو مار دیا اس نے اپنا اصل اپنی ذات کو خود ہی کھو دیا اسکے اندر سناٹو ں کا راج تھا اسے کسی چیز کی خو شی یا غم نہیں ہوتا تھا . اسے اپنی ہر کامیابی سے ڈر لگنے لگا تھا اس کی کامیابی ہمیشہ اسے دکھ دیتی تھی پھر ایسا ہونے لگا کا اس نے کامیابی سے دوربھاگنا شروع کر دیا وہ ناکامیوں کو زندگی کا حصہ بنانے لگی ہر کوئی ہمیشہ اسے اپنے مطلب کے لیے استعمال کرتا تھا اور دل بھر جانے پر چھوڑ دیتا تھا اور ہر بار ایک کھلونے کی طرح ٹوٹ جاتی تھی . پھر اچا نک یسری سید کی زندگی میں محبت نے قدم رکھالیکن اس بازی میں بھی ہمیشہ کی طرح وہہار گئی اس سے پہلے کے وو پھر سے ریزہ ریزہ ہوتی اس کی سناٹوں اور کتابی دنیا میں ایک خوبصورت دوست آگیا جس نے دھیرے دھیرے اسے سمیٹناشروع کر دیا اس کا دوست بھی اسی کی طرح ٹوٹا اور بکھرا ہوا تھا دونوں کا دکھ دونوں کی تکلیف ایک ہی تھی دونوں نے محبت کی بازی ہاری تھی جلد ہی دونوں ایک دوسرے کے بہت قریب آ گئے ایک دوسرے کے سب اسی اچھے دوست بن گے. یسری کو لگتا تھا کہ فہد وو پہلا شخص ہے جو اسے سمجھتا ہے اور حقیقت بھی یہی تھی فہد اس کی ہر کہی اور ان کہی باتوں کو سمجھ جاتا تھا فہد اس کا خیال رکھتا تھا .یسری کی زندگی بدل گئی وہ خو ش رہنے لگی ہر لمحے کو جینے لگی اور کب اس دوستی کی ڈگر پر چلتے چلتے کب اس نے پھر سے ایک نامعلوم منزل محبت کی رہ میں قدم رکھ دیا فہد اسے بولتا تھا اک جسٹ ویٹ اینڈ واچ تمہیں ایک دن مجھے چھوڑنا پڑھے گا یہی دستور دنیا ہے وو اس کی اس بات پے چپ ہو جاتی تھی کیوں کا وہکبھی اسییہبات ناسمجھا پائی تھی کہ وہ اسے کبھی نہیں چھوڑ سکتی دنیا کا کیا ہے اس دنیا نے اور اس کے اپنوں نے ہمیشہ اس سے رشتے چھینے ہی تھے اسے درد ہی دیا تھا وو ان لوگوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتی لیکن اس نے دل میں ٹھان لی تھی اور وہ فہد سے بھی ہمیشہ یہی بولتی تھی کہ وہ اپنی اس دوستی کو زندگی کی آخری سانس تک نبہائے گی کیوں کے اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ ٹھیک ہے اگر اس کی قسمت میں فہد کا پیار نہیں تو کیا ہوا دوستی تو ہے نہ وہ اس کے ساتھ دوست بن کے ہی رہ لے گی لیکن اس سے جدائی یسری کے لئے موت تھی پتا نہیں یہپیار کہانی ہے یا دوستی کی انمول مثال ایسی دوستی جس پے ایک دوسرے کے لیے سب قربان کرنے کا جذبہ ہے جس میں پیار خلوص سب کچھ ہے .اور آج بھی ان کی دوستی ویسے ہی ہے جس میں ایک دوسرے کیلئے عزت پیار خلوص سب کچھ اب آگے کیا ہوگا کیا یسری اپنا کیا وعدہ پورا کر پا ئے گی یا ہمیشہ کی طرح یہ اکلوتا رشتہ بھی چھن جائے گا ؟

آگے پڑھیے !
یسری سید کی زندگی شہزادہ فہد کے گرد گھوم رہی تھی کب وہ اس دوستی اور پیار میں اتنا بڑھ گئی کہ پہلی دفعہ فہد کے ناراض ہونے پر اس نے اپنی جان لینے کی کوشش کی خود کو ازیت دی اور جیسے ہی فہد کو اس کے پاگل بن کا پتا چلا اس نے اسے اپنی قسم دی کہ آج کے بعد وہ کبھی ایسا نہیں کرے گی اور یسری کیلئے فہد کی کہی ہر بات پتھر پھر لکیر ہوتی تھی وو اس کی بولی ہربات کو پورا کرنے کی کوشش کرتی تھی .دونوں ایک دوسرے کی کمپنی میں بیحد خوش تھے جب تک دونوں ایک دوسرے سے بات نہیں کر لیتے تھے دونوں بیحد اداس رہتے تھے اور سارا وقت انتظار میں گزار دیتے تھے .

پھر اچانک خزاں کی ہوائیں چلنے لگی اوریہ خزاں یسری اور فہد کے رشتے پر بھی اثر دکھانے لگی . فہد کو لگنے لگا کے جیسے یسری اسے دھو کہ دے رہی ہے اور یسری تو جیسے ٹوٹنے لگی وہ کبھی فہد کی بے بنیاد باتوں پے روتی تو کبھی حیران ہوتی کہ کب اور کیسے ان کا رشتہ اتنا کمزور ہو گیا کہ فہد کو اس پہ اعتماد ہی نہیں رہا یسری جان ہی نہیں پائی تھی کہ اس کی کمزوریاں اس کے پیار پر اس کے رشتے پر ایسا اثر ڈالیں گی اگر کبھی یسری اس کی بولی کوئی بات پورا کرنے سے قاصررہتی تو فہد کو لگتا کہ وہ اسے دھوکا دے رہی ہے .فہد بات بات پر اسے چھوڑنے کی بات کرنے لگا اور ہر بار وہ اسکی اسی باتوں پر تکلیف سے کٹ جاتی لیکن زبان سے ایک حرف بھی نہیں بولتی تھی لیکن ہر لڑائی ہر جھگڑے کے بعد یسری اور فہد میں نزدیکی اور بڑھ جاتی پر اس بڑھتی نزدیکی کے باوجود وہ ایک دوسرے سے بہت دور ہو گئے تھے.

جانے کیوں کبھی کبھی ایسا لگتا تھا کہ فہدکیلیے یہ رشتہ نبھانا مشکل سا ہو گیا تھا اور کہیں نا کہیں یہ پیاراور یہ دوستی کو نبھانا یسری کے لیے بھی دو دھاری تلوار پے چلنے کے جیسا ہو گیا تھا .ایسا رشتہ بن گیا تھا کہ دونوں نہ ایک دوسرے سے الگ ہو پاتے تھے اور نہ ایک دوسرے سے جڑ پاتے تھے. ایک دوسرے سے لڑ جھگڑ کے سب ختم کر دیتے تھے لیکن بعد میں پاگلوں کی طرح انتظار کرتے تھے کب دوسرے کا میسج آئے کب فہد یسری کو یا یسری فہد کو منائے۔

سو کبھی خوشی کی بارش ہوتی تو کبھی غموں کی گھٹا چھا جاتی .اس سب کے باوجود دونوں ایک دوسرے کی سنگت میں خوش تھے لیکن ہر خوشی کے بعد غم ہوتا ہے اور ایسا ہی ان دونوں کے ساتھ ہوا دونوں کے اس خوبصورت ساتھ کو وقت کا منہ زور سیلاب بہہ لے گیا . کب ان کے اتنا مضبوط رشتہ ریت کی طرح بہہ گیا .

فہد یسری سے چڑنے لگا وہ ہر ممکن کوشش کرتا یسری سے دور رہنے کی پتا نہیں وہ اسے مضبوط بنانا چاہتا تھا یا اس سے دور جانا چاہتا تھا اور اس پر سونے پہ سہاگے کا کام کیا یسری کی شادی نے اور یسری نے بھی زندگی کو ایک اور موقع دینے کا فیصلہ کیا لیکن شاید خود سے بھاگ رہی تھی اس لیے اس نے یہ فیصلہ لیا جس سے اس نے ایک اور زندگی تباہ کر دی شایان احمد بلاشبہ ایک اچھا لڑکا تھا جس نے یسری کو پورے دل سے اپنایا اور اس سے بے پناہ پیار کرنے لگا لیکن یسری اسے چاہ کر بھی وہ پیار محبت نہیں دے پائی جو شایان کا حق تھا اور شایان بھی کبھی کبھی حیران ہوتا تھاکہ یسری کی آنکھوں میں اس کیلئے پیار کیوں نہیں اور ایک دن اتوار کا دن تھا شایان نے یسری کو اپنے پاس بیٹھا لیا اور یسری ہمیشہ کی طرح وہاں سے اٹھنے کا بہانہ ڈھونڈنا شروع ہو گئی شایان نے تیل والی بوتل پکڑی اور یسری کے سر میں مساج کرنے لگا مساج کرتے کرتے اس نے یسری سے پوچھا کیا تم مجھ سے پیار کرتی ہو ؟ یسری کا دل دھک کرکے رہ گیا اور وہ چپ رہی اس نے کوئی جواب نہ دیا تو شایان نے بولا کا مجھے پتا ہے تم مجھ سے پیار نہیں کرتی لیکن ایک دن ضرورآ ئے گا یسری جب تم مجھ سے پیار کرنے لگو گی اور یسری میں اس دن کا انتظار زندگی کی آخری سانس تک کروں گا .

اگلے دن یسری آفس سے آتے ہی شایان کو حیرت کا جھٹکا لگا کیوں کہ یسری اس کے آنے کا انتظار کررہی تھی اس کیلئے کھانا لگاتی ٹیبل پہ وہ بولاکہ یسری میں خواب تو نہیں دیکھ رہا یسری دھیرے سے مسکرا کا بولی نہیں مجھے کام تھا آپ سے توتم ویسے ہی بول دیتی کام ایسے جاگ کے اپنی طبیعت تو خراب نہیں کرنی تھی اچھا چلو بولو کیا کام تھا ہماری بیگم کا وہ ابھی تک جاگ رہی ہیں وہ ایکچولی میں مزید پڑھنا چاہتی ہوں اور جاب کرنا چاہتی ہوں .ہم تم ان سکیور کیوں ہو تمہیں جاب کرنے کی ضرورت نہیں چندہ اور رہی بات پڑھنے کی تو ضرور پڑھو اس پے کوئی پابندی نہیں اور اب مری پیاری سی بیگم جی سو جائیں گوڈ گرل . اگلے دن آفس سے جاتے ہوئے شایان سے یسری کو آواز دی کہ اٹھو اورمیرے ساتھ چلو ہم پہلے یونیورسٹی چلتے بعد میں تمہیں واپس گھر ڈراپ کر کے میں آفس چلا جاؤں گا . یسری جلدی سے تیار ہو کے نیچے آجاؤ میں انتظار رہا ہوں تیار ہو کے وہ شایان کے ساتھ یونیورسٹی چلی گئی اور یک دم اسے فہد کی کہی باتیں یادآ جاتی کہ یسری تم ایک دن ضرور کامیاب ہو گی تمہیں تمہاری منزل ضرور ملے گی اورپھر دیکھنا تمہاری ساری تکلیفیں دور ہو جائیں گی مانو تمہاری زندگی میں خوشیاں ہی خوشیاں ہوں گی .یسری کابہت دفع دل کرتا کہ وو فہد سے بات کرے اس کا نمبر ڈائل کرتی لیکنبات کرنے کی ہمت نہ کر پاتی.

اگر اس طرف یسری پیار کی اگ میں جل رہی تھی تو دوسری طرف فہد بھی یسری کی یاد میں جلتا تھا وہ جتنا اس کی یاد سے دور جانا چاہتا تھا اس کی باتوں سے بھاگنا چاہتا تھا اتنا ہی وو مزید شدت سے اسے یادآتی تھی اور پھر وہ دن آگیا جب فہد نے بھی اپنی زندگی کی ایک نئی شرو عا ت کردی . اس نے اپنے سارے جذبات کو دل کے کونے میں چھپا دئیے تھے اور بس اپنے ما ں باپ کی خاطر ایک سمجھوتے کی زندگی بسر کرنے لگا .

دونوں نے زندگی کی اس تلخ حقیقت کو مان لیا تھا کہ وہ دونوں کبھی نہیں مل سکتے اورپھر دھیرے دھیرے دونوں نے جینا سیکھ لیا ……اور اپنی اپنی زندگی میں مگن ہو گئے-

ٹھیک ہی کہا جاتا ہے کہ وقت ہر زخم کا مرہم ہوتا ہے ………………
ٹھیک ہی کہا جاتا ہے کہ وقت ہر زخم کا مرہم ہوتا ہے ………………

Bint-e-Abid
About the Author: Bint-e-Abid Read More Articles by Bint-e-Abid: 5 Articles with 4552 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.