راج نگر

ان لوگوں کو راج نگر سے باہر نکال دیا گیا تھا اب وہ لوگ راج نگر بستی سے تقریباً ایک میل کے فاصلے پر آباد ہونا شروع ہوگئے۔ ایک نئی بستی بسا لی گئی۔ راج نگر سے عورتیں ہر روز کالے برقعے میں اپنے اڈے پر پہنچتی اور رات گئے تک وہاں رہتیں۔ طرح طرح کے لوگ ان کے اڈے پرر سارا دن آتے رہتے۔ اڈے کو راج نگر سے باہر نکال دیئے جانے پر چند نوجوانوں میں غصہ تھا کیونکہ اب انہیں روز بستی سے باہر اڈے پر جانا پڑتا جس سے ان کا وقت اور پیسہ برباد ہوتا۔ اڈے کی مالکن نصرت کو اب دوبارہ کام شروع کرنا تھا، مگر اسے دقت محسوس نہ ہوئی کیونکہ لوگ ادھر خود چلے آتے تھے۔ ایک لمبا سا بانس زمین میں گاڑ دیا گیا جس کے اوپر ایک چھوٹا سا کیل لگا دیا گیا، کیل کے ساتھ رسی سے ایک زنانہ جوتی لٹکا دی گئی بس یہی نصرت کے نئے اڈے کی نشانی تھی۔ شروع شروع میں گاہکوں کی تعداد بہت کم رہی مگر آہستہ آہستہ لوگوں کی آبادی اڈے کے قریب بڑھنے لگی، فروٹ کی ریڑھی، شکر قندی کی ریڑھی، سموسے پکوڑوں والے اور مٹھائی والے یہاں روز چلے آتے اور آہستہ آہستہ انہوں نے نصرت کے اڈے کے قریب اپنے ڈیرے جما لیے۔ لوگ راج نگر اور دور دراز سے نصرت کے اڈے پر پہنچتے، وہ رات گئے تک وہاں رہتے۔ شام ہوتے ہی اڈے کی رونقیں بحال ہو جاتیں۔ اڈے کے آس پاس پھولوں والوں کی دکانیں اور تبلے والوں کے تھڑے بن گئے تھے۔ پان والی ایک دو دکانیں بھی وہاں بنا دی گئیں۔ مغرب کے بعد چوباروں کی لائٹیں جلا دی جاتیں اور لوگوں کا رش بڑھ جاتا۔ سردیوں میں نصرت کے اڈے کا کام مزید تیز ہو جاتا۔ لوگ وہاں آتے گانے پر رقص دیکھتے، اپنی خواہشات پوری کرتے اور چلے جاتے۔ اب وہاں لوگوں کی آبادی تیزی سے بڑھنے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے آبادی راج نگر کو چھونے لگی۔ نصرت کے اڈے پر پہنچنے والی عورتیں زیادہ تر طلاق یافتہ تھیں جو اپنے گھر والوں کو چھوڑ کر اس پیشے سے منسلک ہوئیں تھیں۔ ایک وقت تھا جب راج نگر میں گندم کی فصل اردگرد کے علاقوں کی فصل سے زیادہ ہوا کرتی تھی۔ راج نگر میں ایک مسجد اور ایک مندر تھا جو ہر وقت اپنے اپنے عقائد کے ماننے والوں سے بھرا رہتا تھا۔ وہاں چند برس پہلے تک کوئی طلاق نہیں ہوئی تھی۔ لوگ خوش تھے اور اپنے عقیدوں کے مطابق زندگی گزارتے تھے۔ زیادہ تر لوگ کھیتی باڑی سے منسلک تھے۔ وہاں ایک سکول بھی تھا جو بچوں سے بھرا رہتا تھا۔ اگرچہ اس میں صرف ایک استاد تھا مگر بچوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ لوگ آپس میں ملنسار تھے اور ایک دوسرے کی خوشی غمی میں شریک ہوتے تھے۔ راج نگر میں ایک چھوٹی سی ندی تھی جس کا پانی میٹھا اور صاف تھا۔ لوگ ندی کے پانی سے نہاتے اور جانوروں کو پلاتے۔ پورے راج نگر کے اردگرد سفیدے کے لمبے لمبے درخت لگے تھے اور پورا راج نگر ایک چھوٹا سا خوبصورت جزیرہ لگتا تھا۔ ساتھ والے گاؤں اس چھوٹی سی بستی کی دلکشی اور خوبصورتی کی مثالیں دیا کرتے تھے۔ مگر جب سے نصرت اس شہر میں داخل ہوئی تھی تب سے راج نگر کی حالت تیزی سے بدلنے لگی تھی۔ وہاں طلاق کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا اور گندم کی فصل بھی کم ہونے لگی۔ راج نگر میں میٹھے پانی کی ندی بھی آہستہ آہستہ سوکھنے لگی اور راج نگر کو تو جیسے نظر لگنے لگی تھی۔ اب نا کوئی مسجد جاتا اور نہ کوئی مندر کا رخ کرتا۔ باقی ہر چیز ماند پڑ گئی، سوائے اُن سفیدے کے لمبے درختوں کے جو پورے راج نگر کے اردگرد لگے تھے۔ لوگوں میں نفرت ہونے لگی اور گھروں میں بات بات پر تصادم ہونے لگا۔ راج نگر کا چوہدری اس ساری حالت پر بہت پریشان تھا کیونکہ جب سے نصرت راج نگر میں آئی تھی وہاں کی صورت یکسر بدل گئی تھی۔ سو فیصلہ ہوا کہ اڈے کو راج نگر سے باہر نکال دیا جائے اور پھر اڈا بستی سے ایک کلو میٹر باہر منتقل ہوگیا۔ مگر تھوڑے عرصے بعد راج نگر خود ہی اڈے کی طرف منتقل ہوگیا اور نصرت پھر بستی میں داخل ہوگئی۔ پھر ایک دن چوہدری صاحب نصرت کی بستی میں بڑھتی ہوئی مداخلت سے تنگ آکر اس کے اڈے پر اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ نصرت کے کاروبار کو طوالت دینے والے چند لوگوں نے چوہدری کو اڈے پر پہنچنے سے پہلے ہی روک لیا اور آنے کی وجہ دریافت کرنے لگے۔ نصرت کا دست راست نصیر بلوچ بھی ان لوگوں میں شامل تھا۔ نصیر بلوچ نے نصرت کی ہر اچھے بُرے وقت میں ہر طرح سے معاونت کی تھی۔ معاملہ اڈے کو کسی جگہ منتقل کرنے کا ہو یا گاہکوں کو اڈے کی طرف متوجہ کرنے کا، نصیر بلوچ نے ہر طرح سے نصرت کی مد دکی۔ جب کبھی ساتھ والے گاؤں کے بدمعاش اڈے پر آتے اور روپے دیئے بغیر روانہ ہو جاتے تو نصیر ان کے پیچھے جا کر روپوں کی ریکوری کا کام بھی سرانجام دیتا تھا۔

نصیر بلوچ نے چوہدری سے آنے کی وجہ دریافت کرتے ہوئے کہا:
’’جی چوہدری صاحب خیر تو ہے آج آپ خود چلے آئے؟ لگتا ہے گلی کی رونقیں دیکھنے آئے ہیں۔‘‘
چوہدری ماتھے پربل چڑھاتے ہوئے بولا :’’مجھے‘‘ نصرت سے ملنا ہے۔‘‘
نصیر بولا: ’’تو مجھے بتاتے میں خود ڈیرے پر چلا آتا‘‘۔
چوہدری اپنی مونچھ کو بل دیتے ہوئے بولا:
’’نہیں تجھ سے مجھے کوئی کام نہیں‘‘۔
بلوچ نے کہا: ’’چوہدری جی جو کام آپ نے نصرت کو بتانا ہے بعد میں بھی وہ میں نے ہی کرنا ہے، تسی کم دسو؟‘‘
چوہدری نے بلوچ کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اُسے سائیڈ پر لے جا کر بولا:
’’تم مجھ اکیلے کو اندر لیے چلو‘‘۔
نصیر بلوچ نے ہنستے ہوئے کہا: ’’ہاں ہاں تو یہ بات ہے‘‘۔
’’ڈریں مت اور آئیں میرے ساتھ‘‘۔

پھر نصیر چوہدری کو اوپر چوبارے پر لے گیا۔ چوبارے کی تنگ سیڑھیاں اوپر چڑھتے ہی دائیں ہاتھ پر ایک دروازہ لگا تھا جس پر کئی لڑکیوں کی تصویریں آویزاں تھیں۔ اندر داخل ہوتے ہی ایک سرخ رنگ کا ایرانی قالین نیچے بچھا ہوا تھا، جو دھول پڑنے کی وجہ سے اپنا رنگ بدل رہا تھا۔ قالین کے اوپر ایک لکڑی کا نہایت خوبصورت دیوان پڑا تھا جس پر دو تکیے بڑے نفیس انداز سے لگائے گئے تھے۔ دیوان کے ساتھ ایک ٹیبل پڑا تھا جس پر گلاب کے پھول اور ایک چاندی کا پان دان موجود تھا۔ پان کی خوشبو کمرے میں چاروں اطراف پھیلی ہوئی تھی۔ پاس ہی موسیقی کے کچھ آلات پڑے تھے۔ کمرے کی دوسری نکڑ پر ایک کالے رنگ کا جھنڈا بانس کی پتلی سی چھڑی میں سلا پڑا تھا۔ دیواروں پر بہت ساری تصویریں آویزاں تھیں۔ سب سے بڑی تصویر نصرت کی جوانی کی وہ تصویر تھی جو اُن کے ابتدائی ادوار میں نصیر بلوچ اپنی جیب میں رکھتا تھا اور گاہکوں کو تصویر دکھانے کے الگ سے پانچ روپے وصول کرتا تھا۔ چوہدری چند منٹ بڑے کمرے کے چاروں طرف نظر دوڑاتا رہا اور آخر اس نے اپنی نظریں نصرت کی جوانی کی تصویر پر مرکوز کر لیں۔ اتنے میں نصرت چھوٹے کمرے سے بڑے کمرے میں داخل ہوئی اور چوہدری کو دیکھتے ہی تالیاں بجاتے ہوئے بولی:
’’آداب آداب چوہدری صاحب آداب‘‘ ماتھے پر بل کھاتے ہوئے بولی:
’’آپ نے خود کیوں تکلیف کی بھلا نصیر کو پیغام بھجوا دیتے میں خود چلی آتی؟‘‘
چوہدری بولا :’’نہیں، میں چاہتا تھا خود جا کے ملوں تم سے‘‘۔
وہ بولی: ’’تو بولیں عالی جان میں آپ کی دوبارہ کیا خدمت کرسکتی ہوں؟‘‘
یہ کہتے ہوئے نصرت بڑے دیوان پر بیٹھ گئی اور چوہدری صاحب وہیں کھڑے رہے۔
’’دیکھو تمہیں بستی سے باہر نکالا گیا تھا۔‘‘
نصرت چوہدری کی بات کو غصے سے کاٹتے ہوئے بولی: ’’تو آپ یہاں گڑے مردے اُکھاڑنے آئیں ہیں؟‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ دیوان سے اٹھی اور بولیؒ:
’’چوہدری پُرانی باتوں کو بھول جا اور یاد رکھ راج نگر میں بھی میں تیرے کہنے پر آئی تھی کچھ یاد ہے تجھے؟‘‘

چوہدری نے کمرے میں د ائیں بائیں دیکھا اور اپنا رومال جیب سے نکال کر ماتھے سے پسینہ صاف کرتے ہوئے اسے واپس جیب میں ڈال لیا۔ چوہدری نے پریشانی میں کہا:
’’ہاں پر‘‘ اور چپ کرکے کھڑا رہا جیسے وہ کسی بادشاہ کی عدالت میں حاضر ہوا ہو جدھر اسے بولنے کی اجازت بھی محدود ہو۔
نصرت بولی: ’’تم نے تو مجھے بستی سے نکال دیا تھا اور پھر حال تک نہ پوچھا، میں کئی سال یہاں سڑتی رہی۔ اب جب بستی خود اس نئی بستی میں آئی ہے تو تمہیں کیا لینا دینا؟‘‘

چوہدری نے نصرت کو دوسرے گاؤں کی فصل اور خوشحالی کے بارے میں بتانا چاہا تو وہ بولی: ’’یہاں کی خوشحالی میں تو نہیں کھا گئی، چوہدری تیرے اپنے کرتوت ہیں‘‘۔

چوہدری نے اُس کی اس بات میں اپنی بے عزتی محسوس کی اور سر نیچا کر لیا۔ اسی دوران کمرے میں ایک لڑکی داخل ہوئی۔ کالے جوڑے میں ملبوس لڑکی نے ماتھے پر چاندی کا ٹکا لگایا ہوا تھا، اور ہونٹوں پر سرخی اتنی تیز کہ کسی کی چوری کرکے ساری ایک ہی دن لگا لی ہو۔ پاؤں میں چاندی کی خوبصورت پازیبیں اُچھل کود میں مصروف تھیں۔ اندر آتے ہی بولی: ’’سلام مالکن‘‘۔
’’آج بہت‘‘ لاڈو دیوان سے اٹھی اور لال سرخ ہو کر بولی:
’’چپ کر بے ادب‘‘ تجھے اتنا نہیں پتا چوہدری صاحب آئے ہیں ’’سلام کر‘‘ کالے کپڑوں میں ملبوس اس دوشیزہ نے چوہدری کو سلام کیا اور باہر چلی گئی۔ نصرت تیسری مرتبہ پھر دیوان سے اٹھی اور چوہدری کے قریب جا کر بولی:
’’دیکھو چوہدری مجھے بتایا گیا ہے کہ تم آدمیوں کے ساتھ آئے تھے اور بڑے دبنگ انداز میں بانس کو پار کرتے ہوئے یہاں تک پہنچے تھے۔‘‘
’’تیرے آدمی تو بھاگ گئے‘‘۔ وہ ہنسی اور بولی:
’’اب توں بھی بھاگ جا، راج نگر کسی کے باپ کی جاگیر نہیں۔‘‘

نصرت کو جب پہلے راج نگر سے نکالا گیا تھا تو تب وہ علاقے میں اتنی مضبوط نہیں تھی اور چپ چاپ علاقے سے ایک میل باہر چلی گئی تھی۔ مگر اب کے بار آدھا راج نگر اس کے ساتھ تھا۔ اس بار چوہدری چاہتا بھی تو کچھ نہ کر پاتا۔ چوہدری وہاں سے باہر نکلا اور اپنے ڈیرے میں آ کر دبک کر بیٹھ گیا۔ چند دنوں بعد نصرت نے پورے راج نگر میں لکڑی کے کئی بانس زمین میں لگوا دیئے اور ان کے اوپر کیل کی مدد سے لگی جوتیاں پوری آب و تاب سے چمکنے لگیں۔ کچھ عرصے بعد چوہدری طبعی موت مر گیا اور اب سارا نظام نصرت کے ہاتھ چلا گیا۔ سفیدے کے وہ درخت جو ندی اور فصلوں کے سوکھ جانے کے باوجود ہرے بھرے تھے آہستہ آہستہ وہ بھی سوکھنے لگ گئے۔

Uzair Altaf
About the Author: Uzair Altaf Read More Articles by Uzair Altaf: 26 Articles with 28034 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.