عاشقان اہل بیت۲۲رجب المرجب کوقرآن خوانی ونیاز کا اہتمام
کریں
ائمہ اہل بیت اطہار میں دلیل وحجت،ارباب مشاہدہ کے برہان،امام
اولادنبی،برگزیدہ نسل علی،سیدناامام ابو جعفر محمد صادق بن علی بن حسین بن
علی مرتضیٰ الملقب بہ الاامام باقر رضی اللہ عنہم ہیں۔بعض کہتے ہیں کہ آپ
کی کنیت ابو عبداللہ تھی۔علوم کی باریکیوں اور کتاب الٰہی کے رموزواشارات
اور اس کے لطائف واضح طور پر بیان کرنے میں آپ کوکمال دسترس تھی۔آپ پوری
پوری رات عبادت وریاضت،درودووظائف کی کثرت میں گذار دیتے۔ایک مرتبہ آپ کے
خادم نے عرض کیا:اے ہمارے امام!یہ گریہ وزاری کاسلسلہ کب تک جاری رہے گا؟آپ
نے فرمایا:ائے دوست!حضرت یعقوب علیہ السلام کے ایک فرزند حضرت یوسف علیہ
السلام نظروں سے روپوش ہوئے تھے تو اس پر وہ اتنا روئے تھے کہ ان کی آنکھوں
کی بصارت جاتی رہی اور آنکھیں سفید ہو گئی تھی۔لیکن میرے خاندان سے ۸۱نفوس
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی رفاقت میںمیدان کربلا میں شہید ہوئے،یہ غم
کیا کچھ کم ہے؟کیا میں ان کے غم وفراق میںاپنے رب کے حضور فریاد کرکے کیوں
آنکھیں سفید نہ کروں؟آپ انتہائی متقی،نیک،عبادت گذار،پارسا اور مخلص تھے۔آپ
نے دین متین کی تاحیات خدمت انجام دی اور آخرکارراہِ خدا میں جان نثار کی۔
صدیوں سے عاشقان اہلبیت آپ کی بارگاہ میں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے 22رجب
المرجب کو فاتحہ خوانی کااہتمام کرتے ہیں۔فاتحہ کی اصل ایصال ثواب ہے اور
ایصال ثواب جائزو مستحسن امرہے اور ثواب پہنچتا ہے۔کتب فقہ و عقائد میں
تصریح ہے کہ اپنے اعمال خواہ بدنی ہوں یا مالی دوسرے کو ثواب پہنچانے سے
انہیں ثواب ملتا ہے اور اس کو بھی ثواب ملتاہے اور کسی کے ثواب میں کمی
نہیں ہوتی۔ فقہ حنفی کی معتبر کتابوں درمختار، ہدایہ نور الایضاح مراقی
الفلاح ،شرح فقہ اکبر، شرح عقائد نسفی وغیرہ کتب معتبرہ میں ایصال ثواب کے
جائز ہونے کی تصریح موجودہے۔۲۲رجب کو امام جعفر صادق رحمة اللہ علیہ کی
فاتحہ کرانا شرعاً جائز ہے ۔اور دوسرے بزرگوں کی بھی فاتحہ دلانا جائز ہے
کہ اصل جائز ہے اور باعث نفع و ثواب ہے۔
آج کل کچھ لوگ بولتے اورلکھتے ہیں کہ۲۲رجب حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کی نہ تاریخ ولاد ت ہے نہ تاریخ وفات۔ لہٰذا اس تاریخ پر فاتحہ
ناجائز ہے۔ اگر ہم یہ بھی تسلیم کرلیں کہ یہ تاریخ ولادت و وفات نہیں ہے
توبھی ۲۲رجب کو حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فاتحہ نہ کرنے
کی کونسی دلیل ہے۔بعض لوگ کہتے ہیکہ اس دن حضرت امیر معاویہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کی تاریخ وفات ہے ۔اگرایساہے توان کا نام بھی فاتحہ میں شامل
کرلیاجائے۔ معترضین حضرت امام جعفر صادق اور امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ
عنہ کی تاریخ وفات کا غلط حوالہ دیتے ہیں،حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالیٰ
عنہ کی تاریخ وفات۴رجب 68ہجری ہے اورحضرت امام جعفر صادق کی تاریخ
وفات15رجب المرجب 148ہجری ہے۔ یہاں ایک بات اور بھی قابل غور ہے کہ11ربیع
الآخر(کہ اس تاریخ پرمسلمان عموماً گیارہویں شریف کی نیازکرتے ہیں)حضرت
سیّدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نہ تاریخ ولادت ہے اور نہ تاریخ
وصال، لیکن پھر بھی مسلمانوں کا متفق علیہ معمول یہی ہے کہ اسی تاریخ
کوحضور سیّدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نیاز ہوتی ہے اور ایصال
ثواب کیا جاتا ہے۔یوں تو بزرگان دین کی بارگاہ میں کسی بھی مہینے اور کسی
بھی دن ایصال ثواب کیاجاسکتاہے۔تاریخ کاتعین اس لیے کیاجاتاہے کہ بلاناغہ
عقیدتوں کاخراج پیش کیاجاسکے۔معترضین یہ بھی کہہ کر بھولی بھالی عوام کو
روکنے کی کوشش کرتے ہے کہ یہ رافضیوں کا طریقہ کار ہے۔یہ اعتراض بھی کتنا
بھونڈا ہے ۔درحقیقت اسلام میںہرعمل کااجروثواب نیت پر ہے۔ایک شخص نے مسجد
کے آگے کھونٹی گاڑی اور دوسرے نے اکھاڑدی،مگر دونوں کوبرابر ثواب ملے گا
کیوںکہ پہلے نے اس لیے کھونٹی گاڑی تھی کہ لوگ دوردراز سے مسجد میں آتے ہے
مگرجب وہ نماز سے فارغ ہوتے ہے تو ان کے سواری کے جانور انھیں نہیں مل پاتے
یعنی نا باندھنے کے باعث وہ اِدھر اُدھر ہوجاتے تھے اور دوسرے نے اس لیے
اکھاڑ دی تھی کہ مسجد میں معذور اور نابینا لوگ بھی آتے ہیںجواس کھونٹی کو
نہیں دیکھ پاتے اور گرکرزخمی ہوجاتے ہے،معلوم یہ ہوا کہ دونوں کاعمل مخالف
ہے مگر نیت درست ہونے کی وجہ سے دونوںثواب کے برابر حقدار ہیں۔اگر رافضیوں
کا بھی یہ عمل ہے تو ان کی نیت میں فتور ہے اور ہم نبی کی آل کی بارگاہ
میںایصال ثواب کرتے ہیں۔اگر رافضیوں کے عمل سے یہ نتیجہ اخذکیاجائے کہ جو
وہ کرتے ہیں ہم وہ نہ کرے تو پھر رافضی کھانا بھی کھاتے ہے،کپڑے بھی پہنتے
ہے،اس لیے رافضیوں کے ہر عمل سے اختلاف کرنے والے کھانا بھی چھوڑ دے اور
کپڑے بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔جو کہ ممکن نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے نادان اور اوندھی
سمجھ والوں سے محفوظ رکھے ۔ |