سلام اے بھائی

بچپن سے اس کی ایک ہی خواہش تھی۔اسی خواہش کی تکمیل کے لیے وہ ہر ممکن اقدام کرتا تھا۔دیواروں پر جگہ جگہ لکھ کر دوسروں کو بھی اپنی خواہش کا بتاتا تھا۔روزانہ صبح سویرے اٹھنا اس کا معمول تھا،گھنٹہ بھر ورزش کرنا پھر تازہ دم ہوکرناشتہ کر نا اس کی عادت تھی۔جسم کو چاق وچوبند رکھنا،مشکل کام اور تھکا دینے والی مشقیں اس کے روز کا معمول تھا۔پچھلے سال سے پابندی سے روزانہ جیم خانہ جانا،وہاں جاکر خود کو تھکا نا،پھر تازہ مشروبات سے حواس کو بحال کرنا اسے اچھا لگتاتھا۔

ایف ایس سی کا امتحان پاس کرنے کے بعد اس کی نظر میں اپنی منزل کو پانے کی طلب مزید جوش مارنے لگی تھی۔مجھ سے مشورہ لینا اس کی عادت تھی۔ہر بات پر مجھ سے پوچھتا ”اگر ایسا کروں تو ٹھیک ہے یا نہیں“؟ تو جواب سن کر اسے تسکین ہوتی تھی۔اس کے چہرے پر چھائی مسرت اس بات کی غمازی تھی کہ اسے میری بات سے اتفاق ہے۔ اس نے یہ حدیث ِنبوی ﷺ سن رکھی تھی کہ ”مشورہ لینے والا کبھی نادم نہیں ہوتا“۔اس حدیث پر وہ ہر معاملہ پیش آتے وقت پابندی سے عمل کرتا تھا۔میں نے اسے ہمیشہ خوش و خرم دیکھا۔ بڑوں کی عزت،چھوٹوں پر شفقت اس کا بنیادی وصف تھا۔

ہفتہ کے روز اس کی خوشی کی انتہا نہیں تھی۔جب وہ اپنی منزل کو پانے کے لیے ۲گانہ پڑھ کر دیر تک دعائیں کرتا رہا۔پھر ناشتے سے فراغت کے بعد امی سے دعاؤں کے ڈھیر سارے گلدستے لے کر گھر سے چل پڑا۔اس کی نظر میں صرف اپنی منزل کو پانے کی لگن تھی۔میں نے پچپن سے اس کے لبوں سے صرف اسی خواہش کا اظہار سنا تھا۔ ہزاروں مجلسوں میں وہ یہی الفاظ دھراتا۔ اس کے ذھن میں بس اسی خواہش کو پانے کی دھن سوار تھی۔

شام تلک وہ واپس نہ آیا تو مجھے تشویش ہوئی ان دنوں کراچی کے حالات نہایت خراب تھے۔۔۔آئے دن ہزاروں نت نئے مسئلے ذہن کے نہاں خانوں میں گردش کر رہے تھے۔امی بھی خاصی پریشان تھی۔ میں نے فون ملایا تو جواب آیا ”پہنچنے کو ہوں“۔گھر آتے ہی میں نے بلا تامل آج ہونے والی روداد کی بابت پوچھا۔تو خوشی سے پوری کہانے سنا ڈالی،اور کہنے لگا کل پھر بلایا ہے،دوبارہ جانا ہے۔

ہر انسان کو کامیابی کے لیے محنت کے کھٹن مرحلے سے ضرور گزرنا پڑتا ہے بارہا مشاہدہ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بغیر محنت کے کامیابی کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔دنیا میں وہی لوگ کامیابی سمیٹتے ہیں جنہوں نے انتھک محنت کو اپنا اوڑنا بچھونا بنایا۔ہر کام وقت پے کرنا،روزانہ کی بنیاد پے کام کی ترتیب اسکا مشغلہ تھا۔مسلسل محنت اور انتھک کوششوں سے اسے بھی امید تھی کہ کامیابی ضرور میرا مقدر بنے گی۔ کیوں کہ وہ بڑوں سے اس بات کو متعدد بار سن چکا تھا کہ اللہ کسی کی محنت کو ضائع نہیں فرماتے۔

آج اسے پھر جانا تھا۔اور جاتے ہوئے وہ کہہ گیا تھا کہ تاخیرہوسکتی ہے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ شام کو اس کا فون آیا تو میں نے فوراً پہلی گھنٹی بجتے ہی فون اٹھالیا۔کیوں کہ دل کافی بے چین تھا اور عجیب وساوس آرہے تھے۔سلام کے بعد کہنے لگا ”مبارک ہو کام بن گیا“ اب گھر لوٹ رہا ہوں۔میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور آنکھوں میں خوشی کے آنسو امڈ آئے۔

آج اسے اپنے سفر پے روانہ ہونا تھا۔اسے اپنی منزل مل گئی تھی،ہر قدم پر اسے مسرت ہورہی تھی۔ناجا نے کتنی مشکلات جھیلنے کے بعد آج وہ سرشار دکھائی دے رہا تھا اور اس کی آنکھوں پہ چھائے خوشی کے آنسو اس کی پلکوں کو تر کیے ہوئے تھے۔

روانہ ہونے سے پہلے مجھے فون کر کے کہنے لگا ”تم ملنے آسکتے ہو“۔میں نے اثبات میں جواب دیا اور اسی لمحے گھر روانہ ہونے لگا۔گھر پہنچا تو وہ مکمل تیار تھا بس میرے انتظار میں تھا۔مجھ سے مل کر ڈھیر ساری دعاؤں کا کہنے لگا ”بھائی مجھے یاد رکھنا“۔ اس بات سے مجھے یو لگا جیسے میرا دل پسج گیا ہو۔ بھلا خون کے رشتوں کو کوئی بھول سکتا ہے۔ میرے بھائی تم تو میری ہر دعا میں شامل ہو،میرے ان الفاظ سے اسے گہرا سکون محسوس ہوا۔ سب سے ملنے کے بعد وہ آخر میں امی کے پاس آیا، جن کی آنکھوں کے ڈورے اشکوں سے تر تھے۔ انہیں لخت ِجگر کو جدا کرنے کا غم مارے ہوئے تھا۔گھنٹہ بھر ماں اسے پیار کرتی رہی اور ہزاروں دعاؤں سے روانہ کیا جو اس کے لیے کسی سائبان سے کم نہ تھیں۔

بالآخر وہ روانہ ہونے لگا،وہ خوشی سے پھولے نہ سما رہا تھا۔آج اس کے سامنے پوری کام کا غم تھا۔وہ اپنے ملک کی حفاظت کے عزم سے لبریز تھا۔ملک کے چپے چپے کی حفاظت اس کی مد ِنظر تھی۔

دشمنوں سے ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا حوصلہ پروان تھا۔غموں کی سیا ہ رات کو حسین سحر کی نوید سے روشناس کروانے کا عزم تھا۔ آج اس کی خوشی دیدنی تھی۔

آج اس کا شمار ملک کے ان بہادر سپتوں میں ہونا تھا جو اپنی جان کا سودا ملک کی حرمت پے کرچکے تھے۔ جو اپنا آج ملک کے مستقبل پہ قربان کر چکے تھے۔ جن کی خوشی وغمی ملک ہی کے واسطے سے تھی۔جو دنیائے کفر کو اپنی استقامت سے ورطہ حیرت میں ڈالے ہوئے تھے۔

آج ہمیں بھی فخر تھا۔جب ہم اپنے بھائی کو ملک کی سرحد کی حٖفاظت کے لیے اپنے آپ سے جدا کر رہے تھے۔آج جدائی کا غم،حسین لمحات میں بدلا ہوا تھا۔آج وہ پاک فوج کے دستے میں شامل تھا۔سلام اے بھائی سلام۔
yasir qazi
About the Author: yasir qazi Read More Articles by yasir qazi: 15 Articles with 19061 views IAM 19 YEAR OLD LIVE IN KARACHI
I WANT TO BECOME IN FUTURE A FAMOUS POET.....(ITS MY DREAM)
.. View More