الله تبارک تعالی نے جتنے بھی
انبیاء کرام کو مبعوث فرمایا انکو معجزات سے بھی نوازا، تمام انبیاء کو
حالات کے مطابق معجزات دے کر بھیجا۔ اس دور میں جو شعبہ اپنے عروج پر ہوتا
الله اپنے نبی کو اسی طرح کا معجزہ عطا فرماتا۔ مثال کے طور پر حضرت داؤد
علیہ سلام جس دور میں تشریف لائے وہ دور دھاتوں کو پگھلا کر مصنوعات بنانے
کا دور تھا اسی لئیے آپکو اسی طرح کا معجزہ عطا کیا گیا، آپ لوہے جیسی دھات
کو پکڑتے تو وہ نرم ہو جاتی اور آپ اس سے جو چاہتے بنا لیتے۔ حضرت موسی
علیہ سلام کا دور جادو و سحر اپنے عروج پر تھا، الله نے جادوگروں کے عروج
کو نبی کے قدموں تلے روندھنے کے لئیے جناب موسی علیہ سلام کو عصاء اور ید
بیضاء جیسے معجزات عطا کیے۔ ابن مریم جناب عیسی علیہ سلام اس دور میں تشریف
لائے جب طب و حکمت کا سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ افلاطون و
جالینوس کی حکمت کا طوطی بولتا تھا۔ اس عروج کو جناب عیسی علیہ السلام کے
قدموں میں سرنگوں کرنے کے لئیے الله نے آپ کو لاعلاج مریضوں کو شفاء یاب
کرنے کا معجزہ عطا کیا ، وقت کے نامور حکیم کوڑھ و جذام کے مریضوں کو
لاعلاج قرار دیکر بستی سے نکال دیتے تھے، لیکن جب یہ مریض ابن مریم کی
بارگاہ میں آتے تو آپ ہاتھ پھیرتے اور الله شفا دے دیتا ، آپ روح و جسم کے
ٹوٹے ناطے کو بھی قم باذن الله کہہ کر جوڑ دیتے، جسے جوارش جالینوس کبھی نہ
جوڑ سکتی تھی۔ معجزہ کی عام فہم تعریف ہے کہ ایسا فعل جو عقل انسانی کو
عاجز کر دے۔ یاد رکھیں معجزہ میں بھی اصل میں کارفرما قدرت ہوتی ہے، معجزہ
کا انکار الله کی قدرت کا انکار ہوتا ہے۔ آپ انبیاء کے معجزات کو کبھی بھی
عقل کے ترازو پر نہیں تول سکتے، لوگ عقل کے گھوڑے دوڑا کر تھک گئے مگر
معجزہ کو نہ سمجھ سکے۔ جب باری آئی میرے آقا و مولا جناب رحمتہ اللعالمین،
راحت العاشقین ، انیس الغریبین ، مشتاق العارفین ، مصباح المقربین ، شفیع
المذنبین ، جد الحسن والحسین ، مولانا و مولا الثقلین ، ابی القاسم محمد
ابن عبدالله صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی تو خالق کائنات نے آپکی ذات
مبارکہ کو سر مبارک سے لیکر قدمان مبارک تک معجزہ بنا کر بھیج دیا۔ الله
کریم نے فرمایا قد جآکم برھان من ربکم تحقیق آگیا تمھارے پاس الله کی طرف
سے برہان۔ برہان عربی میں معجزہ و دلیل کو کہتے ہیں۔ آقا صلی الله علیہ و
آلہ وسلم کے ان گنت معجزات میں سے ایک معجزہ جسے دنیا معرآج النبی صلی الله
علیہ و آلہ وسلم کے نام سے جانتی ہے ۔ یہ معجزات میں سے ایک معجزہ ہے۔ آپ
کے معجزات میں میں سے ایک عظیم الشان معجزہ ہے جسمیں خالق کائنات نے اپنے
محبوب صلی الله علیہ و آلہ وسلم کو مسجد الحرام سے مسجد اقصی اور پھر اقصی
سے لا مکاں تک سیر کرائی ۔ معرآج النبی صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے دو حصے
ہیں پہلا مسجد اقصی تک جسکا ذکر خالق کائنات نے قرآن مجید میں فرمایا ہے
دوسرا حصہ اقصی سے لامکاں تک کا سفر ہے جسکی تفصیلات احادیث کی کتب میں
ملتی ہے۔ میرے آقا صلی الله علیہ و آلہ وسلم کا دور قیامت کی صبح تک ہے
لہذا الله نے معجزہ بھی اسی مناسبت سے عطا کیا۔ کیونکہ خالق کائنات
جانتاتھا کہ سائنس کے عروج کا دور آنا ہے انسان نے چاند کو مسخر کرنا ہے ،
مریخ و نظام شمسی پر انسان نے کمندیں ڈالنی ہیں لہذا معرآج کی رات الله نے
اپنے محبوب صلی الله علیہ و آلہ وسلم کو لامکاں میں بلا کر چاند سورج،
ستاروں ، سیاروں ، کہکشاؤں کو اپنے محبوب صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے
قدموں کی گرد بنا کر دنیا کو بتلا دیا کہ جتنی بھی ترقی کی منازل طے کر لو
مگر رہو گے میرے محبوب صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے قدموں کے نیچے۔ معرآج
کی رات تمام نظام شمسی میرے آقا کی منزل نہیں بلکہ نشان منزل تھا۔ یہ حضور
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ عظیم مُعجزہ ہے جس پر اِنسانی عقل آج بھی
اَنگشت بدنداں ہے۔ اِنتہائی قلیل وقت میں مسجدِ حرام سے بیت المقدس تک کی
طویل مسافت طے ہو جاتی ہے۔ قرآن اِس کا ذکر اِن اَلفاظ میں کرتا ہے۔
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ
الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ
لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ (بنی
اِسرائيل، 17 : 1) وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے
سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصٰی
تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندۂ
کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بیشک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا
ہے۔۔
آج کچھ لوگ اعتراضات کرتے ہیں کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے عقل نہیں مانتی میں
ہمیشہ پہلا جواب تو یہی دیتا ہوں کہ معجزہ ہوتا ہی وہ ہے جو عقل کو عاجز
کردے، اس کے بعد انکی عقل و خرد کا آپریشن کرتا ہوں۔ اِس آیتِ مقدّسہ پر
غور و تدبر کریں تو شکوک و شبہات کے تمام راستے خودبخود مُقفّل ہو جاتے
ہیں، کسی اِلتباس کی گنجائش رہتی ہے اور نہ کسی اِبہام کا جواز باقی رہتا
ہے۔ عقلی اور نقلی سوالات آنِ واحد میں ختم ہو جاتے ہیں۔ مسئلہ کا ہر پہلو
روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتا ہے اور حقیقت اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کے
ساتھ ذہنِ اِنسانی پر مُنکشف ہو جاتی ہے۔ اِیمان میں مزید اِستحکام پیدا
ہوتا ہے، اِیقان کو مزید پختگی نصیب ہوتی ہے، نصِ قرآن سے بڑھ کر تو کوئی
رِوایت نہیں ہو سکتی۔ جب باری تعالیٰ خود فرما رہا ہے کہ میں اپنے بندے کو
رات کے ایک قلیل عرصے میں مسجدِ حرام سے مسجدِ اَقصیٰ تک لے گیا۔ اِس پر
بھی عقلِ اِنسانی اِستعجاب کا مظاہرہ کرتی ہے۔ ذہنِ اِنسانی میں سوال پیدا
ہوسکتا ہے کہ وہ سفر جو ہفتوں اور مہینوں کا تھا، وہ رات کے ایک تھوڑے سے
وقت میں کیسے مکمل ہو سکتا ہے؟ اِس کا جواب یہی ہے کہ اِس کا اِنحصار تو لے
جانے والے کی طاقت اور قوّت پر ہے۔ اُس سفر کا سارا اِنتظام ربِّ کائنات کی
طرف سے ہو رہا ہے، وہ جو ہر چیز پر قادِر ہے۔ طاقت اور قُدرت اُس ذات کی
کار فرما ہے جو اِس کائنات کا خالق و مالک ہے، کائنات کا ذرّہ ذرّہ جس کے
حکم کا پابند ہے۔ وہ ربّ جو إِنَّ اللَّه عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ کا
مالک ہے۔ وہ ربّ جو اَمرِ كُن فَيَكُونُ کی طاقت رکھتا ہے اور اُس کے لئے
کوئی چیز ناممکن اور محال نہیں۔ اِنسانی عقل اُس کی قُدرتِ مُطلقہ کے ساتھ
بے بس اور عاجز ہے۔ اگر یہ نکتہ ذِہن نشین کر لیا جائے تو سفرِ مِعراج کی
ساری حقیقت عیاں ہو جاتی ہے۔ جبرئیلِ اَمین کو اُس نے بھیجا کہ جاؤ! میرے
محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لے آؤ۔ برّاق اور رفرف بھی مِن جانبِ اﷲ
بھیجے گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سماوِی سفر کس رفتار سے طے
کیا اور کیسے کیا، زمان و مکان کی قیودات سفرِ مِعراج پر اَثر اَنداز ہوئیں
یا نہ ہوئیں، کیا برّاق اور رفرف کی رفتار روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ
تھی؟ اِن تمام سوالات کے جوابات لفظِ ’’سُبْحٰنَ الَّذِیْ‘‘ میں مضمر ہیں۔
معرآج کی رات میرے آقا نے براق پر بیٹھ کر سفر کیا، برق عربی میں بجلی کو
کہتے ہیں اس طرح براق روشنیوں اور بجلیوں کا مجموعہ ٹہرا۔ روشنی کی رفتار
سائنسدان جو بیان کرتے ہیں وہ 186,000 فی سیکنڈ ہے اور براق کی رفتار دنیا
کا کوئی آلہ پیمائش نہیں کر سکتا۔ خدائے علیم و خبیر کے علم میں تھا کہ
کفار و مُشرکین واقعۂ معراج کو بھی تسلیم کرنے سے اِنکار کر دیں گے کیونکہ
اِس عظیم سفر کا ہر ہر پہلو حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
عظمتوں اور رِفعتوں کا آئینہ دار ہے۔ مُشرکینِ مکہ جو پہلے ہی اِسلام اور
پیغمبرِ اِسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف سازشوں کا جال بچھا رہے
تھے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و رِفعت کی بات کو وہ کیسے قبول
کریں گے! دستورِ زمانہ ہے کہ جو شخص پسند نہ ہو اُس کے حسن و جمال کا کوئی
پہلو بھی گوارا نہیں کیا جاتا بلکہ کمالات کو بھی تضحیک و تحقیر کا نشانہ
بنایا جاتا ہے اور حقیقت کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ کر بھی تسلیم نہیں
کیا جاتا۔ کفار و مُشرکین کا یہی رویہ اللہ کے نبی کے ساتھ تھا۔ وہ حضور
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صادق و اَمین تسلیم کرنے کے باوجود اآپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیماتِ مقدّسہ کا تمسخر اُڑانے میں مصروف تھے۔
اِس کے برعکس اپنی کسی محبوب شخصیت کے عیوب بھی وجہِ کمال بن کر نظر آتے
ہیں اور محبوب کے حسن و جمال کی تعریفوں میں مُبالغہ آرائی کی اِنتہا کر دی
جاتی ہے، خواہ محبوب کے یہ اَوصاف معمولی سے ہی کیوں نہ ہوں۔ ربِّ کائنات
کے علم میں تھا کہ مکہ میں بسنے والا ہر شخص اَبوبکرصدیق رضی اللہ عنہ
نہیں، ہر شخص عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی آنکھ نہیں رکھتا، ہر شخص عثمان رضی
اللہ عنہ جیسا اَہلِ اِیمان نہیں، ہر شخص علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ جیسا جاں
نثار نہیں۔ اللہ ربّ العزّت کی منشاء یہ تھی کہ حاسِدین اور مُنکرین بھی اس
پر اِعتراض نہ کر سکیں۔ اِس لئے آیتِ مذکورہ کا آغاز اَپنے نام سے کیا
کیونکہ کفار و مُشرکین کسی نہ کسی صورت میں خدائے واحد کا تصوّر رکھتے تھے۔
فرمایا کہ وہ ذات جس نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مِعراج کی
نعمت سے سرفراز فرمایا، وہ ذات جو نقص اور عیب سے پاک ہے، جس کی کوئی
اِبتدا ہے اور نہ کوئی اِنتہاء، وہ ذات جسے جو چاہتی ہے عطا کرتی ہے۔ اِس
ساری بحث کو اِن اَلفاظ میں سمیٹا جا سکتا ہے گویا ذات باری تعالیٰ کہنا یہ
چاہتی ہے کہ جو سفرِ معراج کا مُنکر ہے وہ اللہ کی قُدرتِ کاملہ کا مُنکر
ہے۔ گویا یہ اللہ کے خلاف اِعلانِ جنگ ہے اور اُس سے پوچھئے کہ تو نے یتیمِ
عبداللہ کو اِتنی بڑی نعمت کیوں عطا کی! یہ کتنی بڑی حِکمت ہے کہ مِعراج کا
دعویٰ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما ہی نہیں رہے۔ دعویٰ تو خود اللہ
تعالیٰ فرما رہا ہے۔ گویا مِعراج کا اِنکار اللہ ربّ العزّت کی قُدرتِ
کاملہ کا اِنکار ہے۔ آیتِ مذکورہ میں وُہی اُسلوب اِختیار کیا گیا ہے جو
خدائے بزرگ و برتر نے اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دِلجوئی
کے لئے قرآن میں مختلف مقامات پر اِختیار کیا ہے کہ اپنے محبوب صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی دستگیری بھی فرمائی اور دُشمنانِ اِسلام کے ناپاک
منصوبوں پر اُنہیں وعید بھی سنائی۔ قرآن مجید فرقان حمید میں واقعۂ معراج
تین الگ الگ مقامات پر بیان ہوا ہے۔ سورۃ النجم میں سفر معراج کا ذکر جمیل
قدرے تفصیل سے ہوا ہے۔ فرمایا : وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَىOمَا ضَلَّ
صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَىOوَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىOإِنْ هُوَ إِلَّا
وَحْيٌ يُوحَىOعَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَىOذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوَىOوَهُوَ
بِالْأُفُقِ الْأَعْلَىOثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىOفَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ
أَوْ أَدْنَىOفَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى (النجم، 53 : 1 - 10)
قَسم ہے روشن ستارے (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جب وہ (چشمِ زدن میں
شبِ معراج اوپر جا کر) نیچے اترےo تمہیں (اپنی) صحبت سے نوازنے والے (یعنی
تمہیں اپنے فیضِ صحبت سے صحابی بنانے والے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
نہ (کبھی) راہ بھولے اور نہ (کبھی) راہ سے بھٹکےo اور وہ (اپنی) خواہش سے
کلام نہیں کرتےo اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہےo ان
کو بڑی قوّتوں و الے (رب) نے (براہِ راست) علمِ (کامل) سے نوازاo جو حسنِ
مُطلَق ہے، پھر اُس (جلوۂ حُسن) نے (اپنے) ظہور کا ارادہ فرمایاo اور وہ
(محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شبِ معراج عالمِ مکاں کے) سب سے اونچے کنارے
پر تھے (یعنی عالَمِ خلق کی انتہاء پر تھے)o پھر وہ (ربّ العزّت اپنے حبیب
محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہوگیاo پھر
(جلوۂ حق اور حبیبِ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں صرف) دو کمانوں کی
مقدار فاصلہ رہ گیا یا (انتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہو گیا)o پس (اُس
خاص مقامِ قُرب و وصال پر) اُس (اﷲ) نے اپنے عبدِ (محبوب) کی طرف وحی
فرمائی جو (بھی) وحی فرمائی۔ ۔۔ مندرجہ بالا آیات کا ایک ایک لفظ اپنے اندر
معانی و مطالب، اور بے شمار رموز رکھتا ہے جن پر دفتروں کے دفتر لکھے جا
سکتے ہیں مضمون پہلے ہی طویل ہو چکا ہے بس اس دعا پر ختم کرتا ہوں ، ہمیشہ
مدحت خیر الانام میں گذرے، دعا ہے عمر درود و سلام میں گذرے ۔۔۔۔۔ |