کل نہیں آج بدلو

تم شیعہ ہو، میں سنی، تم کافر میں مسلمان، تم دیو بندی، میں بریلوی، تم گستاخ، میں عاشق رسولؐ، تم غیر مقلد، میں آئمہ کرام ،اولیاء کا پیرو کار، تم غریب جھونپڑی میں رہنے والے، ہم امیر بنگلوں میں رہنے والے، تم معمولی کسان، مین زمیندار، تم مزدور، میں صنعتکار، سرمایہ دار، اربوں کھربوں کا مالک، تمھارے پاس کیا ہےٖ؟ کچھ بھی تو نہیں۔ تم جاہل گنوار، ان پڑھ، میں ایک تعلیم یافتہ، عالم اور مفتی……یہ بحث ہم کو چائے کے ’’ڈھابوں‘‘ سے لیکر حکومتی ایوانوں تک، غریب کی جھونپڑی سے لیکر امیر کے عالیشان محلوں تک ملتی ہے۔ ہم ایک قوم نہیں رہے، معاشی طور پر طبقوں، مذہبی طر پر فرقوں اور تعلیمی طور پر پرائیویٹ اور پبلک سیکٹر میں تقسیم ہو چکے ہیں۔سیا سیات کی زبان میں اسے سرمایہ داران نظام کا نتیجہ کہا جا سکتا ہے۔ ہمارے ملک میں الگ الگ نظام تعلے رائج ہیں، مدرسوں کا الگ نظام، الگ نصاب، گورنمنٹ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کا الگ الگ سسٹم ہے، اے لیول اور او لیول کے الگ دستور ہیں، ہمارے ملک میں تقریباً 26 نظام تعلیم رائج ہیں، یعنی ہم 6 لاکھ 96 ہزار 96 مربع کلو میٹر کے خطہ پر 26 قوتیں تیار کر رہے ہیں، ہمیں پنجابی، سندھی، بلوچی، پٹھان، کشمیری، پوٹھو ہاری ہزاروی، سرائیکستانی تو نظر آتے ہیں۔ نہیں ملتا تو ایک پاکستانی نہیں ملتا، نہیں ملتا تو ایک مسلمان نہیں ملتا، ہم سیاسی طور پر کبھی جمہوریی نظام اپناتے ہیں تو کبھی فوجی چھتری تلے پناہ ڈھونڈتے ہیں، کبھی اسلامی سوشلزم کا سہارا لیتے ہیں تو کبھی خود ساختہ شریعت کا۔ کبھی بندوق کے ذریعے اپنا حکم چلاتے ہیں تو کبھی کوئی اور راستہ اختیار کرتے ہیں، ہماری ’’بہادری‘‘ کا یہ حال ہے کہ ایک فون کال پر سب کچھ اپنے دشمن کے حوالے کر دیتے ہیں، گوروں نے ایسے ہی نہیں کہا کہ پاکستانیوں کو چند ڈالر دے دئیے جائیں تو یہ اپنی ماؤں تک کو بیچ ڈالیں گے۔

استاد ہیں تو علم کی بجائے اپنا ’’نظریہ‘‘ بچوں کے ذہنوں میں ٹھونستے نظر آتے ہیں، صحافی ہیں تو قلم اور زبان کو سگریٹ کی ڈبی، چائے کی پیالی، شراب کی بوتل اور حسینہ کی زلفوں پر وار دیتے ہیں، سیاستدان ہیں تو اپنے لیڈرز کے لئے سب کچھ ’’بک‘‘ دیتے ہیں۔ تاجر ہیں تو مال کو بیچنے کے لئے ’’مقدس کتابیں‘‘ سر پراٹھا لیتے ہیں، حالانکہ مال ایک حصہ خالص ہوتا ہے تو تین حصے ملاوٹ شدہ، قانون میں طاقور پاک باز، کمزور مجرم اور گناہ گار، یہاں انصآف ملتا نہیں……بکتا ہے۔

مذہب ان لوگوں کے حوالے ہے جو سطعی باتوں میں ماہر ہیں، چرب زبان یا الحان، مذہب کی روح پیش نظر نہیں ہے، الفاظ کی رنگینی ہے جو معتبر ہے، لباس کی طرح۔ چند ٹکوں کے لئے کسی کو بھی کافر، گستاخ ٹھہرایا جا سکتا ہے، ہمارے ہاں فتوؤں کی فیکٹریاں موجود ہیں، کاروبار بچانے کے لئے ہم ایمان بیچ میں لے آتے ٍہیں۔ مفادات کی تیز آندھی میں ہر شے اڑتی جا رہی ہے، ہمارا سماج بھی کسی نہ کسی ’’بوکو حرام‘‘ کی گرفت میں ہے، سیدنا مسیحؑ نے ایک گروہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا: مچھر چانتے اور اونٹ نگلتے ہیں، اس پیغمبرانہ صداکی بارگشت آج بھی سنائی دے رہی ہے۔

لکھتے ہوئے کلیجہ پھٹنے کو آتا ہے کہ ہم نے حوس پوری کرنے کے لئے 4 سال تک کی بچیوں اور بچوں کو نہ چھوڑا ،جائیداد کے لئے ماں، باپ کے گلے کاٹ دئیے وہ ماں باپ جنہوں نے اپنی جوانیاں قربان کر دیں اور ہمیں آنچ تک نہ آنے دی، وہ ماں باپ جو خود کانٹوں پر سوگئے اور ہمیں پھولوں کی سیج فراہم کرتے رہے، جب ان کی باری آئی تو منہ پھیر لئے، چند روپوں کے لئے ان کی جان لے لی۔ آج ہمارے ’’کرتوتوں‘‘ پر اقبال شرمندہ ہے، قائدؒ غمزدہ ہے۔ تحریک پاکستان کا ہر کارکن، ہر شہید، نالاں ہے، دنیا بلندیوں کو چھو رہی ہے تو ہم بستیوں کو۔ اگر ایمان کا ایک قطرہ بھی باقی ہے تو سوچ کو بدلنا ہوگا، سماج کو، ریت رواج کو بدلنا ہوگا، قوم کا کل ہمارے ہاتھ میں ہے۔ نئی نسل ہماری تقلید کرے گی، کل کو کل پر نہیں چھوڑنا، کل کے لئے آج کو بدلنا ہوگا۔وگرنا داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں!!!
Azhar Thiraj
About the Author: Azhar Thiraj Read More Articles by Azhar Thiraj: 77 Articles with 68439 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.