اسلام کا قانون لعان

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

لعان کا لفظی مطلب ’’لعنت کرنا‘‘ہے۔دورنبوت میں ایک مسلمان حضرت ہلال بن امیہ نے دربار نبوی ﷺ میں پیش ہو کر اپنی زوجہ پربدکاری کالزام لگایا،انہیں کہاگیاکہ اپنے الزام کے ثبوت میں چار گواہ پیش کریں،جو ان کے پاس نہیں تھے۔ایسے میں اسلام کا’’قانون قذف‘‘جاری ہوتا ہے جس کے مطابق اگر کوئی شخص کسی پر زناکاالزام لگائے اور پھر ثبوت میں اپنے علاوہ چار گواہ پیش نہ کرسکے تو اس پرحد قذف جاری ہوتی ہے ،حد قذف کی تین سزائیں ہیں،پہلی سزایہ کہ اسی کوڑے اسکی کمر پر لگائے جاتے ہیں،دوسری سزا میں اسکی گواہی آئندہ کبھی قبول نہیں کی جاتی اور تیسری سزا یہ ہے کہ وہ فاسق قرارپاتاہے۔ہلال بن امیہ نے آپ ﷺ کے ہاں قسمیں کھائیں کہ انہوں نے اپنی بیوی کو اپنی آنکھوں سے بدکاری کرتے ہوئے دیکھاہے،لیکن اس کے باوجود بھی چونکہ ان کے پاس گواہ نہ تھے اس لیے فیصلہ کیاگیا کہ ان پر اسی کوڑے برساکر حدقذف جاری کی جائے۔ہلال بن امیہ ایک راسخ العقیدہ سچے مسلمان تھے اس لیے ذرہ برابربھی پریشان نہ ہوئے اور انہیں یقین کامل تھا کہ چونکہ وہ سچے ہیں اس لیے اﷲٰتعالی انکی خلاصی کی کوئی سبیل پیداکرے گا۔اس شان نزول کے سبب اﷲٰتعالی نے سورۃ نور میں آیت ملاعنہ نازل فرمائی:
’’اور جو لوگ اپنی بیویوں پر الزام لگائیں اور ان کے پاس خود ان کے اپنے سوا کوئی گواہ نہ ہوں توان میں سے ایک شخص کی شہادت یہ ہے کہ وہ چار مرتبہ اﷲٰتعالی کی قسم کھاکر کہے کہ وہ اپنے الزام میں سچاہے اور پانچویں بار کہے کہ اس پر اﷲتعالی کی لعنت ہو اگروہ اپنے الزام میں جھوٹاہو،اور عورت سے سزا(حدزنا)اس طرح ٹل سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اﷲٰکی قسم کھاکر شہادت دے کہ یہ شخص اپنے الزام میں جھوٹاہے اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اس بندی پر اﷲٰتعالی کا غضب ٹوٹے اگر وہ اپنے الزام میں سچاہو۔‘‘(سورۃ نور)

میاں بیوی کامعاملہ بہت نازک اور حساس معاملہ ہے،ایک’’ ہاں‘‘ سے پیداہونے والا تعلق ایک ’’ناں‘‘ سے ٹوٹ جاتاہے جبکہ معاشرتی تقاضاہے کہ اس تعلق کو مضبوط سے مضبوط تر بنایاجائے اس لیے کہ اس تعلق کوایک نسل کی پرورش کاباعث بنناہے،تعلق مضبوط ہونے سے نسل میں انضباط پیداہوگااوراگرزوجین میں تعلق کمزورہوگاتو آنے والی نسل ذہنی و نفسیاتی مریض بن کر ابھرے گی۔’’شک‘‘ایسا امر ہے جو میاں بیوی کے درمیان بہت جلد جڑ پکڑ لیتاہے اور پھردل ہی دل میں شیطان اس جڑ کو پانی اور کھاد مہیاکر کے تو ایک تناور درخت بنادیتاہے۔اسلامی شریعت نے اس ’’شک‘‘کی بیخ کنی کے لیے ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیاجس میں بدکاری کی جڑکونشانہ بنایاگیا۔پردہ،نقاب،حجاب،استیذان،حرمت نسب و حرمت مصاحرت اوراختلاط زن و مرد سے پرہیزوہ اقدامات ہیں جو شک کی جڑ مار دیتے ہیں۔اس کے باوجود بھی چونکہ شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتاہے اس لیے صرف تبلیغ و ارشاد کی بجائے اسلامی شریعت نے قانون سازی بھی کی اور حد زنا اور حد قذف جیسے سخت ترین قوانین جاری و ساری فرمائے تاکہ اگر کسی کے ذہن سے مذہب،معاشرت اورعزت و ناموس کے سارے خوف بھی نکل جائیں تو کمر پر برسنے والے کوڑے ہی اسے جرم سے بچانے کا سبب بن سکیں۔ان سب اقدامات کے بعد کوئی بھی شخص کسی دوسرے یادوسری کو بدکاری میں مبتلادیکھ کر تو اس لیے خاموش رہ سکتاہے کہ اسکی پیٹھ بچی رہے لیکن اپنے جیون ساتھی کو بدکاری میں مبتلا دیکھ کر کون خاموش رہے؟؟؟اس کاحل اسلام نے سورۃ نور کی مذکورہ آیت ملاعنہ میں پیش کر دیا۔

ہلال بن امیہ اپنے بیوی سمیت محسن انسانیت ﷺ کے حضورپیش کیے گئے تاکہ لعان کے قانون پر عمل کیاجاسکے۔زوجین کو آیت ملاعنہ سنائی گئی اور بتایاگیاکہ آخرت کی سزادنیاکی سزاسے کہیں زیادہ سخت اور طویل ہے اس وعظ و نصیحت کے بعد بھی دونوں لعان پر تیار تھے چنانچہ پہلی بار شوہر نے قسمیں کھائیں آپ ﷺ باربار انہیں تنبیہ فرماتے رہے پانچویں دفعہ سے قبل پھر ہلال بن امیہ کو یادلایاگیا کہ اگر قسم جھوٹی ہوئی تو اﷲ تعالی کاغضب نازل ہوکر رہے گالیکن انہوں نے پانچویں دفعہ بھی گزار لی کہ اگر میں جھوٹاہوں تو مجھ پر اﷲٰتعالی کی لعنت ہو۔آپ ﷺ نے فرمایا تم دونوں میں سے ایک ضرور جھوٹا ہے توپس کوئی ہے توبہ کرنے والا؟؟اس کے بعد بیوی کی باری تھی،اس نے بھی چاربار قسم کھائی اور اسے اس دوران خداکاخوف دلایاجاتارہاپانچویں دفعہ سے پہلے اسے روک کر پھر تنبیہ کی گئی ،وہ ٹھٹھکی اور ایک لمحے کو رک گئی لیکن پھر بولی کہ میں اپنے قبیلے کو بدنام نہیں کروں گی اور پانچویں بار بھی قسم کھالی۔اس ’’عمل لعان‘‘کے بعدآپ ﷺ نے دونوں کے درمیان جدائی واقع کر دی اور فیصلہ صادر فرمایا کہ بچہ ماں کی طرف منسوب ہوگا اور اس بچے کے نسب پر کسی کو بات کرنے کی اجازت نہ ہوگی اور وہ خاتون دوران عدت اپنے خاوند کی طرف سے ملنے والے تمام حقوق سے محروم کردی گئی۔اسی طرح کاایک واقعہ ایک اور مسلمان’’عدیمرعجلانی‘‘کے ساتھ بھی پیش آیااورآپ ﷺ نے ان کے اور انکی بیوی درمیان بھی لعان کے بعد تفریق کروادی۔

اپنی بیوی کو بدکاری کرتے ہوئے دیکھنااور پھر بھی قانون کادروازہ کھٹکھٹانااسلامی معاشرے کاطرہ امتیازہے۔آج کے نام نہاد’’مہذب معاشروں‘‘میں بھی عورت اپنی کسمپرسی کی تاریخ رقم کررہی ہے،امریکہ جیسے ملک میں ہر چار منٹ میں ایک عورت اپنے شوہر کے ہاتھوں پٹتی ہے جس کی وجوہات میں سے سب سے بڑی وجہ شوہر کااپنی بیوی پر’’شک‘‘ہوتاہے حالانکہ اس معاشرے میں زن و شو کے تعلقات کوئی معیوب نہیں سمجھے جاتے لیکن تہذیب کتنی ہی تصنع اور بناوٹ سے کام لے اور کتنی ہی ملمع کاری کرے تب بھی انسان کی فطرت تو تبدیل نہیں کی جاسکتی۔ہندو معاشرہ ایسی عورتوں کے ساتھ جو سلوک کرتا ہے وہ کسی سے ڈھکاچھپا نہیں ہے جبکہ یہودیت اور عیسائیت سمیت دنیا کے متعدد مذاہب میں تو ایسی خواتین کوحق زندگی سے ہی محروم کردیناتجویزکیاجاتاہے،لیکن اسلام نے معاشرے کو یہ طریقہ سمجھایاکہ کیساہی گھمبیرمعاملہ کیوں نہ ہوگھروں میں بیٹھ کر قانون ہاتھ میں لینایاگھروں میں عدالتیں لگالینایاپھر خود کو عورتوں کامالک گردانتے ہوئے ان کی جان ومال اور عزت و آبروکاٹھیکیدار بن کر ان پر اپنی من مانیاں مسلط کرنا کسی طرح بھی اسلامی شریعت میں جائز نہیں۔کتنے دکھ کی بات ہے کہ جہالت اور ہندومت کے باقی ماندہ اثرات کے باعث وطن عزیزمیں اگراس نوعیت کاکوئی واقعہ رونماہوتاہے تواسے دانستہ طور پر اسلام کے اور علمائے اسلام کے گلے میں ڈال دیاجاتاہے۔

لعان کے لیے شرط ہے کہ یہ شوہراور بیوی کے درمیان ہی ہوسکتاہے،کوئی اور رشتہ لعان کے قانون سے باہر ہے۔باپ بیٹی کے درمیان لعان نہیں ہوسکتااور بھائی بہن کے درمیان بھی لعان نہیں ہوسکتااور نہ ہی کسی اور تعلق کے درمیان یہ ممکن ہے۔لعان کی ایک بنیادی شرط شوہر اور بیوی کا مسلمان ہونا ہے ظاہر ہے اگر زوجین مسلمان ہی نہیں تو ان پر کوئی بھی اسلامی قانون نافذ کیسے ہوسکتاہے؟؟ لعان کی اگلی شرط یہ ہے کہ لعان صرف قاضی کی عدالت میں ہی واقع ہوگا،گھرمیں ،گلی محلے میں ،مسجد میں یا جرگے اور پنچائت میں لعان نہیں ہو سکتا۔لعان شک کی بنیاد پر نہیں ہوگا،شوہر واضع الفاظ میں کہے گا کہ میں نے اپنی بیوی کو غیرمرد کے ساتھ یوں اور یوں کرتے دیکھاہے،۔دعوی کرنے کے بعد اگر شوہر قسمیں کھانے سے گریزکرے تو اس پر حد قذف جاری ہو گی اور اگر شوہر قسمیں کھاچکے اور زوجہ اپنے دفاع میں قسمیں کھانے سے گریز کرے تواس پر حد زناجاری کی جائے گی۔اگر عورت حمل سے ہے تو شوہر اس حمل پر بھی لعان کر سکتاہے کہ آیا یہ حمل اسی سے ہے یانہیں۔

لعان کا مقصد صرف زوجین کے معاملے میں گواہوں کی شرط کو ساقط کر دیناہے اور گواہوں کی جگہ وہ خود چار چار بار قسمیں کھاتے ہیں۔لعان کے بعد قاضی زوجین کے درمیان دائمی جدائی واقع کر دے گا،اس جدائی کے اثرات طلاق بائن مغلظہ کے برابرہوں گے،دوران عدت عورت شوہر کے ہاں نہیں رہے گی اور اسکے جملہ حقوق معطل ہوجائیں گے،مرد نے اگر حمل پر لعان نہیں کیاتو بچہ اسی مرد کاہوگا اور بچے کی پرورش کے دوران تک بچہ،اسکی دائیہ اور اسکی ماں کے جملہ اخراجات بھی مرد کے ذمہ ہوں گے اور اگر حمل پر بھی لعان ہوچکاہو توبچہ ماں سے منسوب ہوگا اور صرف اسی کاوارث ہوگااور مرد پر بچے کی ذمہ داری سے آزاد ہوجائے گا۔ایک دفعہ بچے کو قبول کرنے کے بعدیا لعان کرنے کے بعد پھر اس موقف میں تبدیلی ممکن نہ ہو گی۔لعان کے ایک مقدمے میں مرد نے اپنے اداکیے ہوئے حق مہر کاسوال اٹھایا جس کے جواب میں آپﷺ نے فرمایا جس کامفہوم ہے کہ کہ اگر تو سچا ہے تو جتناعرصہ اس عورت کے ساتھ رہاتو تیرے حق مہر کاصلہ مل گیااور اگر جھوٹاہے تو اس مال پر تیراکوئی حق نہیں،یعنی دونوں صورتوں میں مرد کو حق مہرکی رقم واپس نہیں ملے گی۔لعان کے بعد آپ ﷺ نے سختی سے منع کیا کہ کوئی بھی اس عورت کو یااسکے بچے کو کسی طرح کے نازیباالفاظ کا نشانہ بنائے۔تاہم لعان کی صورت میں جو فریق جھوٹاہوگاوہ دنیاکی سزاسے تو بچ گیالیکن اس نے آخرت عذاب ضرور اپنے گلے لگالیا۔
Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 572007 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.