گرمیوں کے آغاز کے ساتھ ہی ملک میں بجلی کا بدترین بحران
ایک بار پھر سر اٹھانے لگا ہے اور بجلی کا شارٹ فال 3200میگاواٹ سے زائد
ہوچکا ہے جس کی وجہ سے غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ نے نہ صرف ملک میں اندھیرے
بھردیئے ہیں بلکہ صنعتی اور تجارتی سرگرمیاں بھی سبوتاژ ہورہی ہیں اور
کاروبار زندگی متاثر ہوجانے کے باعث بیروزگاری بڑھ جانے اور غربت میں مزید
اضافے کے خدشات نے بھی جنم لینا شروع کردیا ہے جبکہ غیر اعلانیہ و طویل لوڈ
شیڈنگ سے جہاں امتحانات میں مصروف طالبعلموں کو شدید ذہنی اذیت کا سامنا ہے
وہیں ان کے مستقبل پر بھی اندھیرے کے سائے منڈلارہے ہیں اور بجلی کی عدم
دستیابی کے باعث فیکٹریوں میں پروڈکشن کم ہوجانے سے اشیائے صرف کی قلت
مہنگائی و گرانی میں اضافے کے اسباب بھی پیدا کررہی ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے
کہ وسائل و مسائل میں تضاد کے باعث فی الفور توانائی بحران پر قابو پانا
ممکن نہیں ہے کیونکہ عشروں کی خرابی لمحوں میں نہیں سدھاری جاسکتی مگر اس
حقیقت کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ بہتر حکمت عملی کے ذریعے اس خرابی
کے نقصانات میں کمی ضرور لائی جاسکتی ہے گوکہ موجودہ حکومت اور وزیراعظم
میاں نواز شریف توانائی بحران پر قابو پانے کیلئے بھرپور توجہ صرف کررہے
ہیں ملک بھر میں نئے پاور پلانٹ اور جنریشن یونٹ لگانے کے ساتھ متبادل
ذرائع سے توانائی کے حصول پر بھی توجہ دی جارہی ہے مگر ان پلانٹس کے
پیداواری مقام تک پہنچنے میں طویل وقت لگے گا لہٰذا جب تک بجلی کی پیداوار
میں اضافہ نہیں ہوجاتا عوام کو اسی طرح لوڈ شیڈنگ کے عذاب کو ہر حال میں
سہنا ہی ہوگا جس کیلئے عوام ذہنی طور پر یقینا تیار ہیں مگر توانائی کے
بحران کے حل تک لوڈ شیڈنگ کا غیر اعلانیہ ہونا زیادہ مسائل کا باعث بن رہا
ہے ۔ حکمران اگر چاہتے ہیں کہ بجلی کی بندش کیخلاف عوامی احتجاج نہ ہو اور
بجلی و پانی کی عدم دستیابی کا شکار سڑکوں پر اشتعال انگیزی کے مظاہرے کے
ذریعے قومی و نجی املاک کو نقصان پہنچانے اور روایتی جلاؤ گھیراؤ سے باز
رہیں تو پھر لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ پورے ملک میں یکساں کرنے کے ساتھ اسے
اعلانیہ اور شیڈولڈ کرنا ہوگا تاکہ عوام کو یہ معمول ہو کہ اس وقت سے اس
وقت وہ بجلی جیسی بنیادی ضرورت سے محروم رہیں گے اور اس وقت سے اس وقت تک
انہیں یہ بنیادی ضرورت مہیا ہوگی تو وہ اپنے کاموں کو بھی ایک ترتیب و
تنظیم کے ذریعے اسی دورانیہ میں نمٹانے کی کوشش کریں گے جب انہیں بجلی مہیا
ہوگی اس سے ایک جانب عوام مشتعل نہیں ہوں گے اور ذہنی اذیت و تکلیف سے بھی
محفوظ رہیں گے تو دوسری جانب صنعتی و تجارتی اور کاروباری سرگرمیاں بھی ایک
ضابطے میں آکر مکمل تباہی سے بچ جائیں گی جبکہ بکھری ہوئی اور غیر منظم قوم
بھی تربیت کی مراحل سے گزرکر پابندی اوقات اور مقررہ وقت میں ترتیب و
ترجیحات کے تحت کاموں کی تکمیل کی عادی ہوجائے گی جس سے یقینا بہت بہتر
نتائج ملنے کی توقع ہے جبکہ لوڈ شیڈنگ کو مسئلے کا مستقل حل جاننے کی بجائے
بجلی پیدا کرنے کے تمام یونٹس اپنی پوری رفتار سے چلانے ‘ بجلی چوری روکنے
‘ لائن لاسز کی وجوہات کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ بجلی کی پیداوار میں اضافے
پر دی جانے والی توجہ میں بھی مزید اضافے کی ضرورت ہے کیونکہ ہمارے ملک میں
تمام تعلیمی ‘ اقتصادی ‘ کاروباری ‘ تجارتی ‘ صنعتی ‘ ادبی اور سماجی
سرگرمیوں کا دارومدار بجلی کی فراہمی سے مشروط ہے اسلئے حکومت کو بجلی کی
پیداوار کے تمام ذرائع پر توجہ دیتے ہوئے بجلی بحران کا مکمل خاتمہ کرنا
ہوگا اور دہشتگردی کے خاتمے کے بعد یہی حکمرانوں کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہے
!
|