محمد ارسل نبیل۔جس نے دنیا میں سب سے پہلے میری آوازسنی

جولائی ۲۰۱۳ء (۱۴۳۴ھ) رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہمارے پوتے صاحب کی آمد بھی متوقع تھی۔ وہ اپنی زندگی کا اولین دور اپنی ماں کی کوکھ میں مکمل کر چکے تھے۔اب انہیں اس دنیا میں آنا تھا۔ جس کی تیاری انہوں نے شروع کردی تھی۔ ان کے استقبال کے لیے ہم بھی تیار تھے۔ سائنسی ترقی نے بہت سی چیزوں کو آسان تر بنا دیا ہے۔ ایک وقت تھا کہ آخری وقت تک یہ معلوم نہیں ہوپاتا تھا کہ دنیا میں آنے والا مہمان آدم کے قبیلے سے تعلق رکھتا ہے یا اماں حوا کی نسل سے ہے۔ آخری لمحے جب یہ راز افشاہوتا کہ موصوف ابنِ آدم ہیں تو خوشیوں کے شادیانے بج جایا کرتے اور دوسری صورت میں جب یہ معلوم ہوتا کہ آنے والی مہمان بنتِ حوا ہے تو شادیانوں کی آوازیں مدہم ہوجاتیں اور خاموشی سے خوشی منا لی جاتی۔ اسلام میں تو مرد اورعورت برابر ہیں پھر بھی نہ معلوم ہمارے معاشرے میں یہ رواج عام کیوں ہوگیا ہے ۔ حالانکہ بیٹی رحمت تو ہے اور نعمت بھی ، بیٹی باپ کا مان ہے تو ماں کا سکون ، آنکھ کا نور ، دل کا سرور اور زندہ رہنے کی پہچان بھی ہے ۔اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے کہ’’یہ فیصلہ صرف ہم کرتے ہیں کہ کس جوڑے کو لڑکی یا لڑکا دیا جائے یا دونوں سے نوازا جائے‘ یا انہیں بے اولاد رکھا جائے‘‘۔اﷲ کی ہربات پر ایمان ہم پر لازم ہے اور ہم ایمان رکھتے ہیں تو پھر اپنے پروردگار کے ہر فیصلے کو صدق دل سے قبول کرنے میں تامل نہیں ہونا چاہیے۔ وہ کائینات کا مالک ہے جس سے چاہے نوازے یا ہمیں اس نعمت سے ہی محروم رکھے اور ایسا ہوتا بھی ہے۔ہم تو اﷲ سے اپنی خواہش کی تکمیل کی دعا ہی کرسکتے ہیں اب اس کی مرضی وہ ہماری خواہش کے مطابق ہمیں نوازے یا اس کے برخلاف، ہمیں ہر صورت میں اس کا شکر گزار مُطیِع و فرماں بردار رہنا چاہیے۔

آج کی جدید ترقی کئی ماہ قبل یہ اعلان کردیتی ہے کہ والدین بیٹے کے باب بننے والے ہیں یا بیٹی سے ان کی خوشیاں دوبالا ہوں گی۔ساتھ ہی اب یہ رواج بھی عام ہوگیا ہے کہ بچے کی پیدائش کی قدرتی تکلیف برداشت کرنے کے بجائے عمل جراحی( سیزر)کو فوقیت دی جانے لگی ہے۔ بعض کے ساتھ تو واقعتا مجبوری ہوتی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ قدرتی تکلیف سے بچنے کی پوری پوری کوشش کی جاتی ہے۔ اس کی حوصلہ افزائی میں پرائیویٹ اسپتالوں کا کلیدی کردار ہے۔ رہی سہی کثر اسپتالوں میں پینل سسٹم نے پوری کردی ہے۔اب اکثر مائیں یہ خواہش رکھتی ہیں کہ نومولود آپریشن کے ذریعہ دنیا میں آجائے اور سیزیرین کہلائے۔

ڈاکٹر کی جانب سے ہمارے پوتے صاحب کی دنیا میں آمد کی تاریخ ، دن اور وقت طے کر دیا گیا تھا۔حالانکہ یہ اختیار تو صرف اور صرف اﷲ ہی کو ہے کہ وہ کس کو کب دنیا میں بھیجے اور کب واپس بلا لے لیکن یہ بھی ہے دستور اب زندگی کا۔ پوتے صاحب کی آمد کی تیاریاں شروع ہوچکی تھیں۔ جمعہ۷ جون ۲۰۱۳ء ؍۲۷ رجب المرجب ۱۴۳۴ھ کی شب مَیں، شہناز اور نبیل اپنی بہو ثمرااور نئے آنے والے مہمان کا صدقہ دینے کے لیے ایدھی ہوم گئے۔ صدقے کا بکرا نکلوایا گیا بہونے بکرے پر ہاتھ پھیرا اور سامنے ذبح کر دیا گیا۔اب تو ہر چیز کی سہولت ہوگئی ہے۔ اگر ہم چاہیں تو بعض فلاحی ادارے صدقے کا بکرا گھر پر بھی لے آتے ہیں اور ذبح کرکے لے جاتے ہیں۔ صدقہ مصیبتوں کو، بلاؤں کو، پریشانیوں کو ٹالتا ہے۔ صدقہ و ذکوۃ ایک ہی مفہوم میں استعمال کیے گئے ہیں ، تاہم صدقہ کا عام استعمال رضاکارانہ طور پر خیرات کرنے کے معنوں میں ہے۔ امام مالک نے اسے انسانوں کا میل کچیل کہا ہے۔

ہمارے گھر کے ساتھ ہی ابنِ سینا اسپتال ہے ۔ چھوٹا لیکن صاف ستھرا، ڈاکٹر بھی اچھے جب ایسی سہولت نزدیک موجود ہو تو دور جاکر پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے ۔ ہمارے بڑے پوتے ’محمد صائم عدیل‘ کی آمد بھی اسی اسپتال میں ہوئی تھی۔ ہفتہ ۸ جون ۲۰۱۳ء ؍۲۸ رجب المرجب ۱۴۳۴ھ، صبح ۹بج کر ۴۰ منٹ پر ہمارے پوتے صاحب نے اعلان کیا کہ وہ دنیا میں آچکے ہیں۔ شہناز ، نبیل کے علاوہ ان کے نانا، نانی، ماموں اور خالہ بھی موجود تھیں۔مَیں دعاؤں کے ساتھ ثمرا کولیبر روم رخصت کرکے گھر آگیا تھا۔سب آپریشن تھیٹر کے باہر اس خبر کے منتظر تھے ، ہر کوئی دل ہی دل میں اچھی خبر سننے کی دعا کررہا تھا۔جیسے ہی یہ خبر ملی سب نے اﷲ کا شکر ادا کیا ، اﷲ نے خوشی کا موقع دکھایا۔ نبیل نے فوری طور پر گھر آکر مجھے خبر دی ۔ پہلے عمل کے طور پر شکرانے کے نفل ادا کیے اور اپنے پروردگار سے اپنی بہو اورنو مولودپوتے کی صحت اور درازی عمر کی دعا کی اور اسپتال پہنچ گیا۔ پوتے صاحب بالکل ٹھیک ٹھاک،حشاش شاش،چیختے، چلاتے ، شور مچاتے تشریف لے آئے انہیں احتیاطی تدابیر کے طور پر انکیوبیٹر میں لٹا دیا گیا۔

نومولود بچے کے دنیا میں آجانے کے بعدمسلمان کی حیثیت سے ہمارا پہلا عمل یہ ہوناچاہیے کہ ہم اس کے کانوں کے ذریعہ اس کے دل اور دماغ میں یہ بات پہنچائیں کہ وہ ایک مسلمان کے گھر پیدا ہوا ہے ، اﷲ ایک ہے ،اس کے سوا کوئی معبود نہیں، محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اﷲ کے آخری رسول ہیں۔ یہ پیغام اذان کے ذریعہ پہنچا یا جاتا ہے۔ اذان کے کلمات دین کی روح بلکہ دین کے پورے بنیادی اصولوں کی تعلیم و دعوت کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔حضرت ابو رافع رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو (اپنے نواسے حسن بن علی کے کان میں نماز والی اذان پڑھتے ہوئے دیکھا ( جب آپ کی صاحبزادی ) فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے ہاں ان کی ولادت ہوئی ۔ ( جامع ترمذی، سنن ابی داؤد)

معارف الحدیث میں علامہ محمد منظور نعمانیؒ نے اس حدیث کی تشریح بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایک دوسری حدیث سے جو ’’کنزالعمال‘‘ میں مسند ابو یعلی موصلی کی تخریج سے حضرت حسین بن علی (رضی اﷲ عنہ) سے روایت کی گئی ہے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے نو مولود بچہ کے داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت پڑھنے کی تعلیم و تر غیب دی، اور اس برکت اور تاثیر کا بھی ذکر
فرمایا کہ اس کی وجہ سے بچہ اُمّ الصبّیان کے ضرر سے محفوظ رہے گا (جو شیطانی اثرات سے بھی ہوتا ہے)

پیارے نبی ﷺ کی اس سنت کی ادائیگی میں دیر کرنا مناسب نہیں تھا چنانچہ اسپتال کے عملے سے استدعا کی گئی کہ نومولود کے کان میں اذان دینا ضروری ہے انہوں نے یہ سہولت فراہم کردی۔ ہم اس کمرے میں پہنچے جہاں ہمارے پوتے صاحب لنگوٹ کسے شیشے کے چھوٹے سے گھر میں جلوہ نما تھے۔ آنکھیں بند تھیں لیکن ہاتھ پیر چل رہے تھے۔اﷲ اکبر کی صدائیں سننے کے لیے بے قرار تھے۔ نرس نے کہا کہ آپ انکیوبیٹر کے نذدیک ہوکر اذان دیدیں ۔یہ مناسب نہیں لگ رہاتھا میری کہنے پر نرس نے پوتے صاحب کو کپڑے میں لپیٹ کر ہمارے ہاتھوں میں دے دیا۔ ماشاء اﷲ بہت پیارا لگ رہا تھا۔اس موقع پر پوتے صاحب کی دادی، نانا نانی اور ان کے بابا( نبیل) موجود تھے۔ میں نے قبلہ روہوکر اذان کے لیے پہلے اس کا داہنا کان اوپر کیااور اذان دی، پھر بائیں کان کو اوپر کیا اوراقامت کہی۔ ساتھ ہی پوتے صاحب کے کان میں یہ بھی کہا کہ آپ ایک مسلمان گھرانے میں پیداہوئے ہو آپ کا نام ’’محمد ارسل نبیل‘‘ رکھا گیا ہے ۔ جو ہم سب کی طرف سے آپ کے لیے پہلا تحفہ ہے۔ ’ارسل ‘عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں’ وہ جو بھیجا گیا‘، کلام مجید میں یہ لفظ بے شمار جگہ بھیجے جانے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔فوٹو گرافی کا سیشن بھی ہوا، نانا ، نانی اور دادی نے گود میں لے کر نو مولود کو پیار کیا اور دعائیں دیں۔الحمد اﷲ ہمارے پوتے صاحب کو اس دنیا میں سب سے پہلے اپنے دادا کی آواز سننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اس سے قبل ہمارے بڑے پوتے ’محمد صائم عدیل‘ جو اب ماشا ء ﷲچھ سال کے ہوچکے ہیں نے بھی سب سے پہلے اپنے دادا کی ہی آواز سنی تھی۔ دادا کی بھی خوش نصیبی ہے کہ اﷲ نے اتنی عمر اور یہ سعادت نصیب فرمائی۔

حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ وہ ہجرت سے پہلے مکہ میں حمل سے تھیں جب ہجرت کر کے مدینہ آئیں تو قباء میں ان کے ہاں ولادت ہوئی اور عبداﷲ بن زبیر پیدا ہوئے کہتی ہیں کہ میں نومولود بچے کو لے کر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور میں نے اس کو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی گود میں رکھ دیا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے چھوہارا منگوایا اور اس کو چبا یا پھر اپنا لعاب دہن اس کے منہ میں ڈالا اور پھر اس کے تالو پر ملا، پھر اس کے لیے دعا کی اور برکت سے نوازا‘‘۔ اس عمل کو ’’عمل تحنیک‘‘ کہتے ہیں۔(صحیح مسلم و صحیح بخاری )

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس لایا کرتے تھے تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ان کے لیے خیر و برکت کی دعا فرماتے تھے اور تحنیک فرماتے تھے۔ (صحیح مسلم) حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی اپنے بچے کو سب سے پہلا تحفہ نام کا دیتا ہے اس لیے چاہیے کہ اس کا نام اچھا رکھے۔ (معارف الحدیث)۔ ہم نے بھی سنت پر عمل کرتے ہوئے اپنے پوتے صاحب کے کان میں
اذان دی اور ان کا اچھا سا نام بھی رکھ دیا۔

عقیقہ بچے کی پیدائش سے ساتویں دن کرنے کی ہدایت احادیث میں ملتی ہے۔حضرت حسن بصری نے حضرت سمرہ بن جندب رضی اﷲ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ہر بچہ اپنے عقیقہ کے جانور کے عوض رہن ہوتا ہے جو ساتویں دن اس کی طرف سے قربانی کیا جائے اس کا سر منڈوایاجائے اور نام رکھا جائے۔( سنن ابی داؤد، سنن نسائی)عقیقہ کے جانور کی قربانی میں نر یا مادہ کی قید نہیں،بکرا یا بکری، گائے یا اونٹ جس میں سات حصے ہوتے ہیں ، یعنی اگردو لڑکوں اور ایک لڑکی کا عقیقہ کرنا ہو تو ایک گائے قربان کی جاسکتی ہے۔عقیقہ کردینے سے بچے کی بلائیں دور ہوجاتی ہیں اور وہ آفتوں سے محفوظ رہتا ہے۔عقیقہ کے جانور کے عوض بچے کے رہن ہونے کی وجہ علامہ محمد منظور نعمانی نے ’معارِ ف الحدیث‘ میں یہ بیان کی ہے کہ ’’دل کو زیادہ لگنے والی بات یہ ہے کہ بچہ اﷲ تعالیٰ کی ایک بڑی نعمت ہے اور صاحب استطاعت کے لیے عقیقہ کی قربانی اس کا شکرانہ اور گویا اس کا فدیہ ہے۔ جب تک یہ شکریہ پیش نہ کیاجائے اور فدیہ ادانہ کردیا جائے وہ بار باقی رہے گا اور گویا بچہ اس کے عوض رہن رہے گا‘‘۔

۱۵ جون ۲۰۱۳ء مطابق ۶ شابان المعظم۱۴۳۴ھ بروز ہفتہ ارسل صاحب کا عقیقہ ہوا، سر کے بال صاف ہوئے اور دو عدد بکرے صدقے کے طور پر ذبح کرائے گئے۔ اب ہمارے پوتے صاحب کے سر پر موجود چمک دار کالے اور گھنے بالوں کی جگہ صاف ستھرے چٹیل میدان نے لے لی تھی۔ اب وہ قدرے مختلف نظر آرہے تھے۔ بلکہ زیادہ حسین لگ رہے تھے۔

جامعہ ترمذی کی ایک حدیث یہ بھی ہے کہ ’حضرت علی بن ابی طالب رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے حسنؒ کے عقیقہ میں ایک بکری کی قربانی کی اور آپ ﷺ نے (اپنی صاحبزادی سیدہ) فاطمہ ؓ سے فرمایا کہ اس کا سر صاف کردو اور بالوں کے وزن کے بھر چاندی صدقہ کردو ہم نے وزن کیا تو وہ ایک درہم کے برابر یا اس سے بھی کچھ کم تھے‘‘۔

ہمارے گھر گویا ایک کھلونا آچکا تھا۔ ہمارے پاس اب کرنے کوئی کوئی کام نہ تھا۔ ہم تھے اور ارسل صاحب ، ہر دم ہر پل ان سے کھیلنا ، ان کی باتیں کرنا،انہیں دیکھنا ہمارا کام رہ گیا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہمارے بڑے پوتے صاحب کئی سال قبل اپنے امی اور ابا کے ساتھ سعودی عرب کے شہر جدہ جاچکے تھے۔ جب تک وہ ہمارے پاس تھے اپنے دادا ، دادی، چاچا اور چاچی کے لیے خوشیوں اور توجہ کا مرکز تھے۔ اب بھی کوئی دن ان کی یاد کے بغیر نہیں گزرتا۔ صائم صاحب جدہ جاتے ہوئے چپ کے سے اپنے دادا کے کان میں یہ کہہ گئے تھے۔ ایک شعر تضمیم کے ساتھ ؂
مَیں جاتا ہوں دادا، دل کو آپ کے پاس چھوڑے
مِری یا د آپ کو یہ ہر پل دلا تا رہے گا

ہم نے بھی اپنے پوتے صائم صاحب کے دل کو اپنے پاس بہت سنبھال کے رکھا ہوا ہے ہر روز ہم ان کے دل سے اپنی یادوں کو بہلالیتے ہیں ۔ اسی دور ان وزیر علی صباؔ کی زمین میں ایک شعر کچھ اس طرح سے ہوا ؂
دل میں اک آہ سی اٹھی ، آنکھوں سے ہوئے اشک جاری
آج یہ بیٹھے بیٹھے ہمیں کیا خوب اپنے صائم کی یاد آئی

۸ جون کو ارسل صاحب الحمد اﷲ ایک سال کے ہوگئے ۔ اب یہ وہ ارسل نہیں ہیں۔ ان کے معمولات بھی بدل گئے ہیں ، کب اٹھناہے کب جاگنا ہے کوئی پتا نہیں اپنی مرضی کے مالک ہیں۔ سوتے میں مسکراتے ہیں۔ بھوک لگی ہوتو پھر ان سے ایک منٹ برداشت نہیں ہوتا دادی اور ماما کو فیڈر بنا نا مشکل کردیتے ہیں۔ نہانے کے شوقین ہیں انہیں باتھر میں کتنی ہی دیر نہلاتے رہیں مجال ہے کے یہ کہہ دیں کہ بس بہت ہوگیایا نہاتے ہوئے رونا تو دور کی بات آواز بھی نکال لیں۔ پوٹی کرنے کے بعد چلا چلا کر بتاتے ہیں کہ جلد ی سے صفائی ستھرائی شروع کردی جائے۔ جوں ہی کسی نے ان کے پیمبر کو ہاتھ لگا یا اور یہ خاموش ہوئے اور سمجھ گئے کے صفائی والے آچکے ہیں اوراپنا کا کام شروع کردیاہے۔ آثار بتا رہے ہیں کہ یہ نفاست پسند ، صفائی ستھرائی کو پسند کرنے والا مزاج رکھتے ہیں۔

ان کے بارے میں پہلے تو سب کا یہ کہنا تھا کہ یہ اپنے بابا نبیل سے ملتے ہیں، کچھ نے دادا سے بھی ملانے کی ناکام کوشش کی ، کچھ دیکھنے والے انہیں ان کی ماما ڈاکٹر ثمرا سے ملا تے ہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ یہ اپنے اکلوتے ماموں کی مثل ہیں۔مشابہت یقینا قریبی خون کے رشتوں سے ہی ہوا کرتی ہے۔حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ حضرت حسن ؓ اپنے نانا حضرت محمد مصطفی ﷺسے مُشابِہ تھے۔ ارسل صاحب بھی اپنے دادا ، نانا یا کسی اور کی مشابِہ ہو سکتے ہیں لیکن یہ تو اپنی ہی شکل و صورت لے کر آئے ہیں ۔کتابی چہرہ، شروع میں رنگ گوراتھا اب کچھ کمی آتی جارہی ہے، گول گول بڑی بڑی خوبصورت آنکھیں، کھڑے نقش،چوڑی ناک ہمار ے خاندان کا ٹریڈ مارک ہے لیکن اس معاملے میں یہ مختلف ہیں ان کی ناک کھڑی اور خوبصورت ہے، کشادہ پیشانی، سر پر سیاہ چمکدار اور گھنے بال، گلابی باریک چھوٹے ہونٹ، چھوٹا بایا، ہاتھ چہرہ سے زیادہ گورے اور خوبصورت، مخروطی انگلیاں، قد ابھی سے لمبائی کی جانب ،بڑے ہوکر اپنے ماموں کا مقابلہ کرنے کا ارادہ لگتاہے۔آواز میں بانکی انداز جو کانوں کوبھلا لگتا ہے ۔

ستاروں کے علم پر اکثر لوگوں کا ا ِعتِقاد نہیں مسلمان کی حیثیت سے ہمارا ایمان بھی ہے کہ غیب کا علم صرف اور صرف اﷲ کو ہے۔ لیکن علمِ فلکیات اُن علوم میں سے ہے جسے قدیم علم کہا جاتا ہے۔ اﷲ کی مخلوق نے بے شمار کاموں کے لیے چاند ، سورج اورستاروں سے مدد لی ہے۔ ماہر فلکیات کی باتوں پر یقین کرنا یا نا کرنا اپنی جگہ لیکن اس کی حقیقت سے انکار بھی مشکل ہے۔ ارسل صاحب جس تاریخ کو اس دنیا میں وارد ہوئے اس اعتبار سے ان کا اسٹار ’جوزا‘ یعنی (Gemini)ہے ۔ ۱۲ مئی تا ۲۰ جون کے درمیان پیداہونے والے ’جوزا‘ہوتے ہیں۔ارسل میاں کی ایک پھوپھو ’ سحر‘ بھی جوزا تھی، کم سنی میں ہی اﷲ کو پیاری ہو گئی ۔ ماہر ین فلکیات نے ’ جوزا‘افراد کی جو خصوصیات بیان کی ہیں ان کے مطابق ’جوزا‘ مر د دانش مند، بذلہ سنج، نکتہ سنج، ظریف الطبع ہونے کے ساتھ دلربا، دلفریب ، دل پسند، دلچسپ اور لوگوں کے لیے پسندیدہ ہوتا ہے۔یہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اکثر اوقات لوگوں کی توجہ اور نظروں کا مرکزرہتے ہیں کیونکہ یہ انہیں اپنے اوپر بیتی ہوئی باتوں پر مشتمل قصے کہا نیاں خوبصورت انداز سے سنا کر انہیں محظوظ کرتے ہیں۔ ’جوزا‘ مرد ایک اچھا مقرر بھی ہوتا ہے۔ بعض ماہرین فلکیات نے تو ’جوزا‘ مرد کو علم خطابت کا دیوتا کہا ہے کیونکہ یہ بہترین مبصر اور شارع ہوتے ہیں۔متاثر کن گفتگو کے ساتھ ساتھ ان میں لکھنے کی صلاحیت بھی ہوتی ہے یہ اگر لکھنے کی جانب آجائیں تو اچھے لکھاری ثابت ہوتے ہیں۔ کسی حد تک سادہ لوح بھی ہوتے ہیں۔ یہ فوری طور پر بات کی تہہ تک نہیں پہنچتے بلکہ فرد مخاطب کے ظاہری خلوص سے فورناً متاثر ہوجاتے ہیں۔ یہ ان کی سادہ لوحی ہوتی ہے۔بسا اوقات یہ لوگوں کی زیادتیوں اور کوتاہیوں کو بھی فراموش کردیتے ہیں اپنی انہی عادتوں کے باعث کبھی کبھی دھوکا بھی کھا جاتے ہیں۔ معروف ’جوزا‘ افراد میں امریکی صدر جارج بش(۱۲ جون ۱۹۲۴ء)، بابرا بش (۸ جون ۱۹۲۵ء)،امریکی صدر جان ایف کنیڈی(۲۹ مئی ۱۹۱۷ء) ،پرنس فلپس (۱۰ جون ۱۹۲۱ء)، پاکستان کے سابق صدر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان( ۱۴مئی ۱۹۰۷ء)، رابرٹ منڈگمری (۲۱مئی ۱۹۰۴ء)، کوئین میری (۲۶ مئی ۱۸۶۷ء)، معروف شاعر داغ دہلوی(۲۵ مئی ۱۹۳۱ء)، بنگلہ دیش کے معروف شاعر نذرالسلام (۲۵ مئی ۱۸۹۹ء)، ڈاکٹر جمیل جالبی (۱۲ جون۱۹۲۹ء) سابق وائس چانسلر جامعہ کراچی، یوسف رضا گیلانی(۹ جون ۱۹۵۲ء) سابق وزیر اعظم پاکستان ، صحافی انصار عباسی ۱۲ جون ۱۹۶۵ء)شامل ہیں۔

نیٹ پر موجود ویب گاہ www.horoscopeurdu.com/gemini/میں جوزا افراد کی جن نمایاں چیزوں کی نشاندھی کی گئی ہے ان کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
رنگ: پیلازرد
عنصر: بادی
جواھر: زمرد، زبرجد، زرد عتیق
بہترین شریک حیات: میزان، ولو
ناموافق ساتھی: سنبلہ ، قوس، حوت
دن: بدھ
حروف: ق، ک
عدد: ۵
سیارہ: عطارد
بیماریاں: نمونیہ، سینے کے عوارض، کمر اور سائنس کی تکلیف، اعصابی تکالیف
پیشے : پروفیسر، مصنف، شاعر، صحافی، وکیل، اداکار، مزاح نگار، براڈ کاسٹر، ٹریول ایجنٹ، سیلز مین، ڈپلومیٹ
مثبت خصوصیات: دانش ور، بہادر، ایماندار، مصلحت پسند، وسیع الخیال، سو شل، سربراہ، تحقیق پسند، پر مزاق، ظریف، محبت کرنے والا، مہذب، خلیق، شائستہ، نرم مزاج۔
مفید پھل: اورینجیز(موسمی، کینو، مالٹا)، پپیتہ
لکی نمبر: ۲، ۹
لکی مہینہ: اپریل، اگست

جہاں تک چاند، سورج اور ستاروں کی باتوں کا تعلق ہے انہیں ہر گز حتمی تصور نہیں کرنا چاہیے۔ یہ ایک علم ہے اسے علم کی حد تک ہی لینا چاہیے۔ غیب کی باتوں کا اﷲ کے سوا کسی کو علم نہیں۔ اﷲ تعالیٰ ہمارے پوتے ارسل کو عمر دراز عطا کرے اور علم کی دولت سے مالا مال کرے۔ آمین۔

علم نجوم اور ستاروں کے علم کے ذریعہ شخصیت کے بارے میں معلومات کا طریقہ بہت قدیم ہے ۔ موجودہ سائنسی اور برقی دنیا کی نئی ایجاد نے انسان کی جین اور خون کے گروپ کے توسط سے اس شخص کے بارے میں بہت کچھ بتایا جانے لگا ہے۔ روزنامہ جنگ کی اشاعت ۲۴ ستمبر ۲۰۱۳ء میں فریحہ سلیم کے مضمون میں بتا یا گیا ہے کہ جاپان میں ہونے والی تازہ ترین تحقیق کے مطابق دنیا میں بسنے والے خواتین و حضرات میں چار اقسام کے بلد گرقپ پائے جاتے ہیں اور ہر گروپ کے حامل افرد مختلف خصوصیات رکھتے ہیں ۔

اس تحقیق کے مطابق ہمارے پوتے ارسل صاحب کا بلڈ گروپ ’بی +‘ ہے ۔ اس بلڈ گروپ کو متحرک (Active)کہا گیا ہے۔ دنیا بھر میں گروپ Bکے حامل افراد میں تقریباً ۹ فیصد لوگ بی پازیٹو اور ۲ فیصد بی نیگیٹو ہیں۔ یہ لوگ خوش مزاج ، مثبت سوچ رکھنے والے ، حساس شخصیت کے ھامل ہوتے ہیں۔ لیکن غیر منتظم اور لاپروا بھی ہوتے ہیں۔ ان میں عام لوگوں کی نسبت پھرتیلا پن زیادہ ہوتا ہے۔ یہ لوگ شور پیدا کرتے ہیں اور اپنی مرضی کو فوقیت دیتے ہیں۔ ان میں منزل پانے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ یہ لوگ ٹیم کے ممبر کی حیثیت سے زیادہ موثر ثابت نہیں ہوتے بلکہ اپنی الگ انفرادیت رکھتے ہیں۔ صرف اپنے لیے کام کرتے ہیں۔ مضبوط شخصیت کے حامل یہ افرادخودسر اور اپنی مرضی چلانے اور من مانی کرنے والے ہوتے ہیں۔ انفرادی کاموں کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ لوگ اچھے محقق،ہمدردمعالج، سیکریٹری، گالف کے کھلاڑی اور کک بھی بن سکتے ہیں۔ اس تجزیے کے بارے میں بھی سنجیدہ نہیں ہو نا چاہیے۔ یہ بھی ایک علم ہے ۔ بہت کچھ ان باتوں کے خلاف بھی ہوسکتا ہے۔ اسے محض علم تصور کرتے ہوئے درج کی گئیں باتوں پر سنجیدہر گز ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔

حال ہی میں برطانیہ کی ایک جامعہ کی تحقیقی رپورٹ منظر عاپر آئی ۔اس رپورٹ کی تفصیل روزنامہ جنگ کی اشاعت ۲ اپریل ۲۰۱۴ء میں شائع ہوئی ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خواتین اور مردوں کو بلڈ گروپ میں موجود خصوصیات کی مناسبت سے اپنے لیے پیشے کا انتخاب کرنا چاہیے ۔ اس رپورٹ کے مطابق ’بی ‘گروپ کے لوگ تنہائی میں کام کرنا پسند کرتے ہیں اور انہیں ایسے پیشے اپنانے بھی چاہیں جن میں دوسرے لوگوں کا بطور ساتھی کارکن کوئی کردار نہ ہو۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’اے‘ اور ’بی‘ ایسے لوگوں کا گروپ ہے جو بہترین انداز میں ترجمانی اور وکالت کے فرائض سر انجام دے سکتے ہیں۔ یہ منطقی رویے کوپسند کرتے ہیں ان کے سامنے غیر ضروری باتوں سے کام نہیں چلا یا جاسکتا ۔’اے بی‘ کی مشہور شخصیت جان ایف کینڈی کی تھی جسے بہترین معاونوں کا تعاون حاصل تھا۔ایسے افراد بہترین لوگوں کو اپنے ساتھ چلانے کاہنر جانتے ہیں ۔یہ اپنے ساتھیوں کی تجاویز اور خیالات کو بھی خصوصی اہمیت دیتے ہیں۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ڈاکٹر والدین کی اولاد ڈاکٹر ہی بنتی ہے۔ دیگر پیشوں میں ایسا کم کم ہوتا ہے ۔ میڈیکل کا شعبہ ایسا واحد پیشہ ہے جس میں ڈاکٹر والدین اپنے بچوں کو ڈاکٹر بنانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں اور اس میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ گمان اور اندازہ ہے کہ ہمارے پوتے صاحب ڈاکٹر ماں اور ڈاکٹر باپ کے نقشِ قدم پر چلیں گے اور والدین بھی انہیں اپنے نقش قدم پر چلنے کی سعٔی کریں گے۔

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1284706 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More