میانوالی کی خوشبو ایوان پاکستان میں

ایوان کارکنان تحریک پاکستان اب ایوان کارکنان پاکستان بھی بن چکا ہے۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ پاکستان کے اندر تحریک پاکستان چلا رہا ہے۔ یہ بہت ضروری ہے۔ یہاں حکمران اور سیاستدان قائداعظم کے پاکستان کو نجانے کس کا اور کس کس کا پاکستان بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ جرات اظہار کے سب سے بڑے آدمی نظریہ پاکستان کے پاسبان مجاہد صحافت مجید نظامی کی سرپرستی میں شاہد رشید اور رفاقت ریاض بہت محنت کر رہے ہیں۔ اس محنت میں محبت بھی شامل ہے۔ اب انہیں عزیز الحق قریشی کا تعاون بھی حاصل ہے۔ اب روایتی سرگرمیوں کے ساتھ علم و عمل کی نئی روایتوں کا سلسلہ بھی جاری ہوا ہے۔ دور آباد علاقوں سے وہ اساتذہ آجکل لاہور میں ہیں جو پرائمری ٹیچرز کو پڑھاتے ہیں ان میں میرے میانوالی کے خواتین و حضرات بھی ہیں۔ انہیں نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی طرف سے بلایا گیا۔ یہ بہت اعلیٰ کام ہے۔ میرے خیال میں پرائمری ٹیچر ہی ’’اصلی تے وڈا‘‘ ٹیچر ہوتا ہے۔ بچپن میں ایک کردار بن جاتا ہے جسے اگلے راستوں پر منزلوں کی طرف موڑا جاتا ہے۔ آدمی نے جو کچھ بننا ہوتا ہے وہ پانچ سات سال میں بن جاتا ہے۔ فطرت بھی اسی عمر میں تربیت کرتی ہے۔ پرائمری ٹیچر اور فطرت ایک ہی فرض ادا کرتے ہیں۔ قوموں کی ترقی اور تعمیر میں اصل کام پرائمری ٹیچر کا ہے۔ حکومت اور حکمت والوں کی سب سے زیادہ توجہ اور معاونت کے حق دار ٹیچر ہیں۔ پرائمری ٹیچر اہلیت اور خدمت کے اعتبار سے یونیورسٹی ٹیچر سے بھی زیادہ اہم ہے۔ اس کی کوالیفکیشن اور تنخواہ سب سے زیادہ ہونا چاہئے۔ ہمارے ہاں حال یہ ہے کہ سکول اکثر دیہاتوں اور چھوٹے شہروں میں اجاڑ ویرانیوں کا منظر بنے ہوئے ہیں۔ وہاں بنیادی سہولیات بھی نہیں۔

ایوان کارکنان میں تحریک پاکستان کے مختلف منظروں سے بھری ہوئی گیلری سے میانوالی کے مقتدر اور معزز اساتذہ ہال میں گئے تو وہ خود ایسی تصویر کی طرح تھے جو پاکستان کو صحیح معنوں میں پاکستان بنانے کی آرزو اور ارادے سے سجی ہوئی تھی۔ ان کے چہرے تمتما رہے تھے۔ میں برادرم شاہد رشید کی دعوت پر ان سے ملنے آیا۔ یہ میرا اعزاز ہے کہ میں نے اپنے گھر سے آئے ہوئے خواتین و حضرات کو سلام کیا۔ وہ سب مجھ سے عمر میں چھوٹے ہونگے مگر میرے استادوں کی طرح ہیں۔ پرائمری تعلیم سے متعلق لوگوں کے درمیان میں اپنے بچپن میں پہنچ گیا۔ یہ مشکل سفر ہے جو آدمی اپنے ماضی کی طرف کرتا ہے۔ بچپن میں جانا ہر شخص کی خواہش ہے۔ میں جب سٹیج پر ان سے گفتگو کر رہا تھا تو مجھے لگا جیسے میں تیسری چوتھی کلاس میں ہوں اور مجھے اساتذہ کرام نے سزا کے طور پر کھڑا کر دیا ہے اور یہ بھی حکم دیا ہے اب بات کرو۔ کچھ سناؤ بھی۔ مجھے بات کرنا آتا ہے مگر کچھ محفلیں ایسی ہوتی ہیں کہ بولنے کی ہمت اور حیرت کہیں کھو جاتی ہے۔ مرشد اور محبوب کے سامنے اور استاد کے سامنے تو لفظوں کا جلال و جمال اور ترتیب تہذیب قابو میں نہیں رہتی۔ پرویز ہمایوں احسان اور ڈاکٹر سرفراز نے بہت اچھی باتیں کیں۔ مجید نظامی کو اپنا مخاطب پا کے میری بستی کے لوگ عقیدت کے باعث بہت جذباتی ہو گئے۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے پلیٹ فارم پر وہ کہہ رہے تھے کہ میں استادوں سے کیا کہوں۔ وہ جانتے ہیں کہ پاکستانی بچوں کے ذہن و دل میں وہ تڑپ کس طرح بیدار کرنا ہے جو خواب اور انقلاب کی سرحد پر انہیں بے قراری اور سرشاری کے درمیان آسودہ اور بے حال رکھے۔ انہوں نے کہا کہ میانوالی کے ذکر سے مجھے مولانا عبدالستار خان نیازی یاد آتے ہیں۔ وہ میرے بڑے بھائی حمید نظامی کے دوست تھے اور قائداعظم کے سپاہی تھے۔ انہوں نے عمر بھر جو جدوجہد اور جنگ کی اب اسے میانوالی کے لوگ کامیابی کی منزل سے ہمکنار کر سکتے ہیں۔ میانوالی کے دوسرے سپوت نواب کالا باغ ملک امیر محمد خان مغربی پاکستان کے گورنر تھے جو آجکل پاکستان ہے۔ وہ حمید نظامی کی وفات پر تعزیت کے لئے گھر آئے اور پھر ایک ملاقات میں مجھے کہا کہ اگر صدر ایوب مجھے کہے تو میں نوائے وقت کو بند کر دوں گا مگر تم ’’جنڑا‘‘ (جوانمرد) نہیں ہو گے اگر اپنے بڑے بھائی کی پالیسی کو جاری نہیں رکھو گے۔ پھر میں نے اللہ کے فضل سے ثابت کیا کہ میں جنڑا (جواں مرد) ہوں اور میں نے جنرل مشرف کے زمانے تک جوانمردی کو اپنی جولانگاہ بنا رکھا ہے۔ میانوالی کے لوگوں کو مولانا نیازی اور نواب کالاباغ کی شخصیتوں کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔

مولانا نیازی سے مجھے عشق ہے مگر آخری عمر میں ایک بے حقیقت وزارت قبول کر کے انہوں نے ہمارا دل توڑ دیا۔ نواب کالاباغ چاہتے تو کالا باغ ڈیم بنوا سکتے تھے۔ وہ مونچھوں کو تاؤ دے کے کہتے آئی ڈیم کیئر یور پالیٹکس۔ (میں تمہاری سیاست کی پروا نہیں کرتا) آئی ڈیم کیئر اور کالا باغ ڈیم بنے گا۔ وہ دونوں بڑے آدمی تھے مگر۔ع
میرے کام کچھ نہ آیا یہ کمال نے نوازی

میانوالی کے استاد خواتین و حضرات میں سے سب میرے رشتہ دار تھے۔ ان میں کئی ایک معلمات میری بڑی بہن عصمت احمد نواز کی شاگرد بھی تھیں۔ میرے گاؤں موسیٰ خیل کے لوگ بھی تھے۔ میں لاہور میں میانوالی بسا کے رہتا ہوں اور جب میں میانوالی میں تھا تو وہاں ایک چھوٹا سا لاہور بھی بنا لیا تھا۔ میں میانوالی کو خطہ حیرت اور قریہ غیرت کہتا ہوں۔ وہاں سب سے زیادہ اخبار نوائے وقت پڑھا جاتا ہے۔ ایک نوجوان کے سوال کے جواب میں مجید نظامی نے کہا کہ کسی خاص مسلم لیگ کی حمایت میرا اخبار نہیں کرتا۔ میں صرف قائد اعظم کی مسلم لیگ کے حق میں ہوں جو پاکستان کی خالق جماعت ہے۔

تقریب میں ایک خوبصورت شاعر میاں محمود ہاشمی بھی تھا۔ اس کی خوبصورت شاعری ’’عورت خوشبو اور نماز‘‘ کے نام سے چھپ چکی ہے۔ اس کا دیباچہ میں نے لکھا ہے۔ ’’عورت خوشبو اور نماز‘‘ میرے آقا و مولا ایمان٬ ارمان اور رومان سے بھرے پیغمبر عالم محسن انسانیت صلعم کی پسندیدہ چیزیں ہیں جو اصل میں ایک چیز ہے۔ اس حدیث مبارکہ کو اپنی کتاب کا عنوان بنانے والا شاعر پرائمری ٹیچنگ کیلئے ایجوکیٹر ہے۔ میانوالی کے اچھے دل و نگاہ والے تخلیقی ٹیچرز کو تدریس پسند ہے۔ اس حوالے سے پروفیسر سرور نیازی بے پناہ آدمی ہے۔ گلزار بخاری٬ محمد اشفاق چغتائی٬ محمد فیروز شاہ٬ منور علی ملک٬ مظہر نیازی٬ سلیم احسن٬ لیلیٰ نیازی٬ صباحت صبا نیازی٬ انجم جعفری اور محمود الحسن نیازی کے علاوہ بہت لوگ میانوالی میں ہیں۔
Dr. Muhammad Ajmal Niazi
About the Author: Dr. Muhammad Ajmal Niazi Read More Articles by Dr. Muhammad Ajmal Niazi: 19 Articles with 19038 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.