ہم بھی عجب کنفیوز قوم ہیں
(Syed Musarrat Ali, Karachi)
یا تو ہمیں اپنی اپنی سیاست کی دوکان چلا
نی ہے یا پھر ہم واقعی ایک کنفیوز قوم ہیں۔ میرا نواز شریف کیا کسی سیاست
دان سے کوئی واسطہ نہیں کیونکہ جس لمحے جناب ذوالفقار علی بھٹّو صاحب
کوپھانسی ہوئی اُسی لمحےمیری سیاسی سوچ کا جنازہ نکل گیا تھااور دنیا کے
اسلامی اُفق سے اُبھرتا ہؤا سورج غروب ہونے کے ساتھ میری تمام اُمیدیں اُن
اندھیروں میں دفن ہو گئی تھیں جن کے منحوس سائے آج تمام عالمِ اسلام پر
چھائے ہوئے ہیں اور جن کی وجہ سے دنیا کی تیسری بڑی قوّت بننے کی بجائے
دنیا کی سب سے بڑی دہشت گرد ی کی علامت بن چکے ہیں جبکہ ہم کہنے کو محؐمد
کے پیرو کار ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ سنّتِ الٰہی پر عمل کرنا یا نہ کرنا
ہمارا اور اللہ کا معاملہ کہہ کر فرار اختیار کرتے ہیں اور سنّتِ رسول پر
عمل کرنے میں شرم محسوس کرتے ہیں یعنی کوئ ہم سے لڑنے کے لئے ہمہ وقت تیار
ہو تو ہم اپنے کردار اور اپنی گفتگو سے اُس کو ٹھنڈا کرنے کی بجائے اپنی
انا کا مسئلہ بنا کر قتل و غارت کی نوبت تک معاملہ پہنچا دیتے ہیں اور یوں
ہمارا یہ انفرادی رویّہ پور ی قوم اور بین القوامی سطح پر امّتِ مسلمہ کی
عکاسی کرتا ہے۔ ہم یہ قطعی طور پر بھول جاتے ہیں کہ ہر چھوٹی سی چھوٹی لڑائ
سے لیکر بڑی سے بڑی جنگ تک ما را ہر حال میں غریب ہی جاتا ہے۔ حکمراں اور
امراء تو اپنی کئی نسلوں کا بیمہ پہلے ہی کرا چکے ہوتے ہیں۔
نریندر مودی کی حلف برد ا ری کی تقریب میں ہمارے وزیرِ اعظم چلے گئے، غلط
کیا اور نہ جاتے تو اور بھی غلط ہوتا ۔ ون آن ون ملاقات میں نریندر مودی کا
پانچ نکاتی ایجنڈا وصول کرلیا ، غلط کیا اور منہ پر دے مارتے تو اور بھی
غلط ہوتا۔ ہمیں کسی طرح چَین نہیں اور یہ ہی وجہ ہے کہ ہم نے ایٹم بم تو
کنفیوژن میں بنا لیا لیکن اب اس کو سنبھالنا مشکل ہو گیا ہے۔ کوئ قائد اعظم
کے اُصولوں پر چلنے کے مشورے دیتا ہے تو کوئ مہاتما گاندھی کی پالیسی پر،
ارے بھائ یا تو مذہب سے لا تعلقی کا اعلان کرو اور سب انسان ہو جاؤ یا پھر
اپنے اپنے مذہبی رہنما کے صحیح پیروکار بنو۔ہمارے وزیر اعظم نے اپنی انا
ایک طرف رکھ کر تقریبِ حلف برداری میں شرکت کا فیصلہ کیا ، لڑائ جھگڑے اور
جنگ پر آمادہ مودی صاحب کو ٹھنڈا کرنے کی پالیسی اپنائ تو کیا ساری دنیا یہ
نہ کہے گی کہ پاکستان نےایک امن پسند ملک ہونے کا ثبوت دیا اور دنیا نہ بھی
کہے دنیا کے سب سے پہلے نمبر کی با اثر شخصیت محمؐد کی تعلیمات تو یہی ہیں
ان کے پیروکار نہیں عمل کریں گے تو کون کریگا؟ کبھی نتیجہ اللہ پہ بھی چھوڑ
کر دیکھنا چاہئے لیکن عمل ِ صالح کے بعد۔
قارئین یقیناً یہ سمجھ رہے ہوں گے کہ یا تو لکھنے والا "ن" لیگی ہے یا اس
نے پیسہ پکڑ لیا کیونکہ ریٹائرڈ بھی ہے۔ ان کو معلوم نہیں کہ میں خود سوچ
رہا ہوں کہ ہمارے وزیر اعظم کو اتنا مثبت و اچھا مشورہ کس نے دے دیا اور
میں نے ان کے اس عمل کی حمایت کیسے کر دی جبکہ بھٹّو صاحب کے بعد کوئی
سیاستدان تو کجا مجھے تو کوئی شخص بھایا ہی نہیں آج تک، ان کی پالیسیاں تو
تبصرے کے لائق بھی نہیں۔ |
|