مصر تاریخ کے اس انقلاب سے گزرکر
آگے بڑھ چکا ہے جس سے روکنے کیلئے پاکستان میں جمہوریت کی دعویدار سیاسی
جماعتیں یکجا و متحد ہوکر عدلیہ کے مستقبل کو جانبداری سے ماخوذ اور فوج کے
مستقبل کو عدم استحکام سے عبارت کرنا چاہتی ہیں ۔ جی ہاں مصر کے عوام نے
انقلاب کی نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے آئینی صدر محمد مرسی کی حکومت کا تختہ
الٹنے والے فوجی سربراہ جنرل عبدالفتح السیسی کو صدارتی انتخابات میں اپنا
نیا صدر منتخب کرلیا ہے ۔ انتخابات کا ٹرن آوٹ 44فیصد رہا جبکہ جنرل
عبدالفتح السیسی نے ڈالے ووٹوں میں سے 90فیصد ووٹ حاصل کئے جس کا مطلب یہ
ہے کہ جنرل السیسی کو مصر کے 38فیصد رائے دہندگان کی حمایت حاصل ہوئی ۔مصر
کی نئی صورتحال کے پیش نظر حکمرانوں کو دنیا کی عوام کے بدلتے ہوئے مزاج کو
مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ بدحالی ‘ دہشتگردی ‘غربت ‘ مسائل ‘ مصائب
اور بحرانوں سے نبردآزما عوام کیلئے اب جمہوریت میں کوئی شیرینی اور آمریت
میں کوئی تلخی دکھائی نہیں دیتی ‘ انہیں تو صرف روٹی ‘ روزی ‘ تعلیم ‘ سکون
‘ امن انصاف اور بنیادی سہولیات سے غرض ہے اگر یہ سہولتیں فوجی سربراہ کی
حکمرانی میں میسر ہیں تو آمریت ان کیلئے خوشگوار اور اگر جمہوری دور ان
ثمرات سے نا آشنا ہے تو جمہوریت بھی ان کیلئے عذاب ہے اسلئے حکمرانوں کو
عوام کرپشن ‘ کمیشن ‘ اجارہ داری ‘ اقربا پروری ‘ طبقاتی تضاد اور سرمایہ
دارانہ و جاگیردارانہ نظام سے بالاتر ہوکر قومی سطح پر عوام کے ہر فرد
کیلئے خوش کن اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ جمہوریت پر عوام کا اعتماد بحال رہے
جبکہ فوج سے بھی تعلقات میں اس بہتری کو قائم رکھنا ہوگا جس میں حکمران و
فوج یکجا دکھائی دےں تب ہی ملک و قوم کا مستقبل بھی محفوظ رہ سکتا ہے ‘
جمہوریت کو بھی ہر قسم کی سانچ اور آنچ سے بچایا جاسکتا ہے اور اپنی
حکمرانی کی آئینی مدت کی تکمیل بھی کی جاسکتی ہے بصورت دیگر غدار غدار کا
کھیل ‘ انتقامی کاروائی ‘ محافظان وطن کیخلاف سازش ‘ عوامی مفادات کی بجائے
ذاتی و گروہی مفادات کا تحفظ اور صوبائیت و لسانیت جیسے عوارض اس بیمار
سیاسی نظام کی صحت کیلئے مزید خطرات کا باعث بن سکتے ہیں یا پھر اسے تشنج
کی کیفیت سے نجات دلاکر ابدی نیند سلانے کا باعث بن سکتے ہیں ۔ |