میں نے‘ اپنے ہاں کے‘ مسلمان
انسان کے‘ شخصی تجزیے کا‘ سروے کرنے کا‘ ارادہ کیا۔ اس کے لیے‘ کچھ سوالات‘
ترتیب دیے۔ میں چوں کہ خود بھی‘ دن میں ایک دو بار مسجد جاتا ہوں‘ اس لیے‘
مسجد میں آنے والے لوگوں کو ہی‘ پہلی ترجیع میں رکھا۔
دوسری کھیپ میں دیگر معززین کو رکھا۔ سوال کچھ یہ تھے
:
آپ پانچ وقت نماز ادا کرتے ہیں
رمضان میں‘ باقاعدگی سے‘ روزے رکھتے ہیں
زکوات کی ادائیگی میں‘ بخل سے کام تو نہیں لیتے
حج کرنے کی سعادت میسر آئی
مائی باپ کے ساتھ ہی‘ رہتے ہیں یا الگ سے‘ رہائش رکھتے۔
مائی باپ سے‘ مالی تعاون کرتے ہیں۔
اگر ایک حیات ہے‘ تو وہ آپ کے ساتھ ہی رہتے ہیں
تمام بہن بھائیوں سے‘ ملاقات اور لین دین چلتا رہتا ہے۔
ادھار لے کر‘ وقت پر‘ واپس کر دیتے ہیں‘ یا دیر سویر ہو جاتی ہے یا قرض
دہندہ کی‘ فوری موت کے‘ خواں رہتے ہیں۔
بیماروں کی تیمارداری کرتے ہیں۔
ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں۔ اس سے آپ کو سکون ملتا ہے۔
کی گئی مدد کا ذکر تو چلتا رہتا ہو گا۔ مطلب یہ کہ لوگوں کو ترغیب کی غرض
سے
جھوٹ بولتے ہیں
حرام کی کمائی‘ کھانے کا کبھی اتفاق ہوا۔
آپ دونوں میاں بیوی‘ ایک دوسرے سے‘ مخلص ہیں اور آپسی اعتماد‘ موجود ہے یا
بس گزرا چل رہا ہے۔
جواب بڑا حیران کن تھا۔ میرے سمیت‘ چار سو سے زائد لوگوں میں سے‘ ایک بھی‘
جواب دیانت دار کے دروازے سے‘ گزرتا ہوا نہ ملا۔ کچھ لوگ‘ ایسے بھی تھے‘ جو
دن میں‘ ایک آدھ بار سے زیادہ مسجد گیے ہوں۔ ایک صاحب‘ پیشاب کرنے کی غرض
سے‘ مسجد تشریف لے جاتے تھے۔ دیکھنے والا‘ یہ ہی سمجھتا‘ مسجد سے نماز پڑھ
کر‘ نکلے ہیں۔ یہ بھی‘ ان کی سماجی مجبوری تھی۔ ان کی دکان‘ مسجد کے سامنے
تھی۔ ایک صاحب‘ صبح سویرے‘ غسل شب فرمانے کے لیے‘ تشریف لے جاتے تھے۔ سب‘
خود کو پانچ وقتا بتا رہے تھے۔
میاں طارق صاحب کو‘ میں ذاتی طور پر‘ جانتا تھا۔ زکوت دینا‘ تو بڑی دور کی
بات‘ فقیر کو دو ٹیڈی پیسے دیتے‘ موت پڑتی تھی۔ میاں طارق صاحب بڑے مال دار
تھے۔ ان کے والد‘ خیر خیریت سے گزر گیے‘ ہاں البتہ‘ ماں بیمار بڑی‘ تو
خیراتی ہسپتال کے‘ برآمدے میں پانچ دن‘ سسکتی بلکتی رہی۔ اس کے نصیب میں‘
ان پر‘ دو دمڑی خرچ کرنا نصیب نہ ہوئی۔ ہمسائے تو دور کی بات‘ اپنے سگے بہن
بھائیوں کے ساتھ‘ میٹھا بولنے پر ان کا خرچا اٹھتا تھا۔
رانا نصیر صاحب‘ رمضان کا بڑا احترام کرتے تھے۔ رمضان جب بھی‘ ان کے ہاں
تشریف لاتا‘ ان بیوی صالحہ کی مسکراہٹوں کا‘ عوضانہ ان کے بچوں کی تلی پر‘
بڑے کھلے دل سے‘ دھر کر جاتا۔ ویسے رانا صاحب بھی‘ باہر رمضان کی برکتوں
اور رحمتوں کا‘ لابھ اٹھاتے۔ سموسے بنا کر پرچون فرشوں کو فراہم کرتے تھے۔
تکوں کی‘ ان کی ذاتی دکان تھی۔ سہارے جہاں کا گند بلا‘ مہنگے داموں‘ لوگوں
کے پاپی پیٹ میں‘ بلاتکلف چلا جاتا تھا۔ گھر میں‘ سب کچھ ہوتے‘ وہ بھوکا
رہنے کے‘ قائل نہیں تھے۔ محنت اور حلال کمائی کماؤ‘ ان کا مقولہ معروف تھا۔
حاجی سکندر صاحب‘ کسی مالیات کے دفتر میں‘ ہیڈ کلرک تھے۔ جسم وجان سے‘ تو
بارعب نہ تھے‘ ہاں ان کا دفتری ٹہکا‘ صدر کنیڈی کو بھی‘ مات کرتا تھا۔ کسی
کا مفت میں کام کرنا‘ ان کے اصول کے‘ زمرے میں نہیں آتا تھا۔ اسی وجہ سے‘
وہ بڑے اصول پرست‘ سمجھے جاتے تھے۔ ان کے ٹہکے کے زیر اثر‘ لوگ انہیں‘ حاجی
صاحب کہتے تھے۔ وہ لکھتے بھی حاجی تھے۔ حاجی کہلوانا‘ انہیں خوش آتا تھا۔
جائز جائز بالائی لیتے تھے کیوں کہ رزق حرام سے‘ انہیں سخت چڑ تھی۔
سردار جہاں گیر صاحب‘ ہمارے ہمسائے میں‘ رہ کر گیے تھے۔ بھلے آدمی تھے۔ بس
تھوڑا بہت‘ تقریبا روزانہ ہی‘ ادھر ٹھرک بھور لیتے تھے۔ انہیں ناکام ٹھرکی
کہنا‘ بڑی زیادتی اور ان کی شخصیت کے خلاف‘ سازش ہو گی۔ ان کے کچھ تیر‘
نشانے پر بھی بیٹھتے تھے۔ ان کی زوجہ ماجدہ بھی‘ بنتی پھبتی خاتون تھیں۔
جوان اورضرورت مند‘ ان کی استفادہ‘ حاصل کرتے رہتے۔ نانہہ تو خیر‘ میرے لیے
بھی‘ نہ تھی‘ لیکن میری مردانہ بزدلی نے‘ ہمیشہ مجھے‘ میری اوقات میں رکھا۔
ان کے گھر‘ تقریبا روزانہ ہی‘ چان ماری ہوتی رہتی تھی۔ سردار جہاں گیر صاحب
نے‘ بڑے اعتماد سے‘ اپنے ازدواجی تعلق کو‘ اے ون قرار دیا تھا۔
محلے میں سب سے بلند عمارت‘ چودھری محمود صاحب کی ہے۔ پنج وقتے نمازی ہیں۔
دودھ کا کاروبار کرتے ہیں۔ گاڑی پر‘ گاؤں گاؤں سے‘ دودھ اکٹھا کرکے‘ سرف
اور بال صفا پورڈر وغیرہ سے‘ خوب مدھانی پھیری جاتی ہے۔ اس کے بعد‘ دودھ کو
اچھی طرح‘ پانی سے نہلایا دھلایا اور پاک صاف کیا جاتا۔ گویا لوگوں اور
دکانوں پر‘ صاف ستھرا دودھ‘ سپلائی کرتے تھے۔
ٹھیکے دار بابر صاحب‘ پچھلے برس حج کرکے واپس آئے ہیں۔ دو نمبری سے تائب ہو
گیے ہیں۔۔ اک گھٹ اک مٹھ داڑھی بھی‘ رکھ لی ہے۔ سر پر ٹوپی رکھنا‘ اور ہاتھ
میں‘ ایک سو ایک دانوں کی تسبیح رکھنا‘ نہیں بھولتا۔ عموم میں بیٹھ کر‘ فحش
باتیں کرنا‘ یا سننا‘ پسند نہیں کرتا۔ پرانے معاشقوں سے‘ منہ پھیر گیا ہے۔
نیا کوئی معاشقہ‘ سننے میں نہیں آیا۔ اب‘ حاجت سے فراغت کے بعد‘ دام چکا
کر‘ کیلے کے چھلکے کی طرح‘ وہ پھینکتا ہے۔ شراب سے منہ موڑ گیا۔ اسے شیطان
ٹوٹی کا نام دیتا ہے۔ اب پہلے کی طرح‘ پیٹو یھی نہیں رہا۔ معدے کے السر نے
آ لیا ہے۔ اب دن میں چار مرتبہ‘ کسی صاف ستھرے ہوٹل سے‘ پیٹ بھر کھاتا ہے۔
جہاں یہ اچھی تبدیلیاں آئی ہیں‘ وہاں دو تین پرانی عادتوں کو‘ تقویت ملی
ہے۔ پہلے رو دھو کر سہی‘ معاوضہ ادا تو کر دیتا تھا‘ لکن اب‘ معاوضہ اگلے
کام پر اٹھا رکھتا ہے۔ مجال اے‘ جو مزدور اگلے کام پر آنے سے‘ چوں چرا کرے۔
ہاں زبان میں‘ سرزنش آمیز میٹھاس سی آ گئی ہے۔ کام ختم کرنے کے وقت‘ اسے
کوئی ایمرجنسی یاد آ جاتی ہے۔ اس طرح‘ مزدور سے‘ ڈیڑھ دو گھنٹے‘ زیادہ کام
لے لیتا ہے۔ مال دو نمبر سہی‘ استعمال پورا کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے‘ پتا
نہیں کب جان نکل جائے‘ اس لیے حرام کمائی کو حرام ہی سمجھتا ہوں۔
الجاج صلاح الدین‘ علاقے کا بڑا معزز اور معتبر شخص ہے۔ اسی لیے‘ بھاری
اکثریت کے ساتھ‘ علاقے کا ممبر چنا گیا ۔ کبھی کسی کو‘ مایوس نہیں کرتا۔ جو
بھی اس کے ڈیرے پر آتا ہے‘ آس امید کی پنڈ باند کر‘ لے جاتا ہے۔ یہ بات‘
بالکل الگ سے ہے‘ کہ صرف اپنوں کے کرواتا ہے۔ ان کو مایوس کیوں کرئے‘ وہ ہی
تو‘ اس کا ڈیرہ‘ رواں دواں رکھے ہوئے ہیں۔ پہلے ڈھائی مرلہ کے خستہ حال
مکان میں‘ اقامت رکھتے تھے‘ اب خیر سے‘ ڈیڑھ کنال کی کوٹھی میں‘ گزرا کرتے
ہیں۔
آج کل‘ دلال کو دلال نہیں‘ ایجنٹ کہتے ہیں۔ ملک طارق‘ آج کل‘ دلال نہیں‘
خود کو‘ پراپرٹی ایجنٹ کہتے ہیں۔ جھوٹ سے سخت نفرت کرتے ہیں۔ ہر بات پر‘
بلاکہے‘ قسم کھانا‘ نہیں بھولتے۔علاقے کے کھاتے پیتے اور خوش حال لوگوں
میں‘ شمار ہوتے ہیں۔ ان کے جھوٹ کو‘ جھوٹ کہا نہیں جا سکتا۔ یہ بات اپنی
جگہ سچ ہے‘ اس سے پرہیز میں رہتا ہے۔ جو بھی سہی‘ پانچ وقت کے نمازی ہیں۔
مزے کی بات یہ‘ کہ ہر نماز باجماعت پڑھتے ہیں۔ ان کی اس خوبی کا‘ پورا
علاقہ معترف ہے۔
خان قاسم خان‘ کچہری میں کام کرتے ہیں۔ علاقے کے لوگ‘ خصوصا جرائم پیشہ کے
تو گرو ہیں۔ مجرم کو بھی ان پوشیدہ امور کا‘ پتا نہیں ہوتا‘ جن کا وہ نالج
رکھتے ہیں۔ گواہی حلف اٹھا کر دیتے ہیں۔ وہ وہ بیان کرتے ہیں‘ کہ مخالف
وکیل کی بھی‘ بس بس کرا دیتے ہیں۔ مجرم کو بھی‘ اپنی بےگناہی کا‘ یقین آ
جاتا ہے۔ ان کے کسی کہے کو‘ جھٹلانے سے‘ سرکاری پاپ لگتا ہے۔
ایک بات ہے کہ وہ ہیں پانچ وقتے نمازی اور حق سچ کی تلقین کرنے اور اچھا
اور پکا مسلمان بننے
کی ہدایت‘ کرتے رہتے ہیں۔ اس ذیل میں تساہل اور کوتاہ کوسی‘ گناہ کبیرہ
سمجھتے ہیں۔ اگرچہ ان کی باتوں پر ‘عمل ایک آدھ بھی‘ نہیں کرتا۔ اس پر وہ
مایوس نہیں ہوئے۔ ان کا قول ہے:
نماز میرا فرض گواہی میرا پیشہ۔
رزق حرام کو‘ میں نے ساری عمر‘ پاخانہ کھانے کے مترادف سمجھا‘ مانا اور کہا
ہے۔ سچی بات تو یہ ہے‘ کہ میں نے بھی‘ بارہا یہ پاخانہ کبھی کھایا‘ اور
کبھی محض ٹیسٹ کیا ہے۔ اپنی جیب اور غیر کی جیب سے‘ کھانے میں‘ بڑا فرق ہے۔
اس علاقہ میں بسے‘ مجھے ایک عرصہ ہو گیا ہے۔ سب سے‘ میری اچھی سلام دعا ہے۔
ان معززین میں سے‘ کوئی میرے ہاں آ جاتا ہے‘ چائے پانی پلانا پڑتا ہے۔ ان
لوگوں کی غمی خوشی میں‘ جانا اور کھانا پڑتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے‘ کہ وہ کس
قسم کی کمائی سے بنا ہے‘ مروتا کھانا ہوں‘ اور پھر کیا کروں۔ یہ سماجی
معذوری ہے‘ کیا کریں۔ سروے کے مطابق‘ یہاں کے شرفا بڑے نیک اور حاجی
ثناءالله ہیں لیکن عملی اعتبار سے‘ حرام خور ہیں۔ مانیں نہ مانیں‘ آپ کی
مرضی۔ حقیقت یہ ہی ہے‘ کہ ہم کسی ناکسی سطح پر‘ حرام خور ہیں۔۔۔۔۔ حرام
خور۔۔۔۔۔۔۔اسی وجہ سے ہم پوری دنیا میں ذلیل وخوار ہیں۔
سروے کے بعد‘ مجھے بڑا دکھ ہوا‘ کہ اس انسانوں کی بستی میں‘ مجھ سمیت‘
جھوٹے‘ انسان سے‘ پاخانہ خور مخلوق‘ بھی آباد ہے‘ جس کے سبب‘ خرابیوں نے‘
جنم لے کر‘ اس چاند سے خطہ کی‘ خوب صورتی کو‘ گہنا دیا ہے۔ |