مکان نمبر 5

میری اور اس کی پہلی ملاقات ایک ریسٹورنٹ میں ہوئی۔ میں دوستوں کے ساتھ کھانا کھانے گیا ہوا تھا۔ وہ آرڈر لینے آیا اور مجھے دیکھ کر بڑی گرمجوشی سے ملا۔ میں اسے نہیں جانتا تھا عمر میں بہت چھوٹا تھا مگر لہجے سے کوئی پڑھا لکھا نہیں لگتا تھا اس لئے میرا سٹوڈنٹ بھی نہیں ہو سکتا تھا۔ سو میں نے کچھ عجیب انداز سے اسے دیکھا اسے فوراً اندازہ ہو گیا کہ میں جاننا چاہتا ہوں کہ بھائی اس بے تکلفی سے مل رہے ہوپہلے بتاؤ تو سہی کہ تم کون ہو۔ فوراً بولا

سر میں آپ کو جانتا ہوں۔ آپ کو کالج میں اپنے ایک دوست کے ساتھ ملا تھا۔ وہ آپ کا سٹوڈنٹ ہے۔ فلاں لڑکا آپ کو یاد ہو گا وہ میرے بڑے علاقہ کا تھا اور مجھے اس نے اپنے کالج میں مجھے سب سے ملایا تھا۔ بچپن کا دوست تھا نا۔

اس تعارف کے بعد وہ تمام وقت میرے دائیں بائیں تھا۔ میرے ایک ایک لقمے پر اس نے کھانے کا ذائقہ، کھانے کا معیار اور پتہ نہیں کیا کیا پوچھا۔ ہم کھانا کھا کر باہر نکلے تو بھی وہ ساتھ ساتھ تھا۔ میرے گھر کا پتہ، میرے مشاغل میرے گھر آنے کی اجازت اور بہت سی باتیں پوچھیں۔ اتنے میں ریسٹورنٹ کے اندر سے آواز آئی۔ ’’آ کر آرڈر لو۔‘‘

وہ مسکرا کر بولا ’’بہت مشکل ہے میرے بغیر کوئی کام چلتا ہی نہیں۔ ایک منٹ بھی کسی کا گزارہ نہیں ہوتا۔ اجازت چاہتا ہوں۔ جلد حاضر ہوں گا۔‘‘

یہ کہہ کر وہ واپسی کے لئے مڑا۔ میں طلبا کا عادی ہوں۔ وہ ایک ایک چیز کو دس دفعہ بھی پوچھیں تو بھی مجھے بوجھ نہیں لگتا۔ مگر میرے ساتھی دوست جو میرے ساتھ ریسٹورنٹ میں موجود تھے، اس کے رویے اور میرے اسے منع نہ کرنے کی وجہ سے کچھ نالاں تھے۔ مگر وہ جانے کو تیار ہی نہ تھا۔ یہ تو مجبوراً جانے والی بات تھی کہ اندر سے بلا لیا گیا مگر جاتے جاتے وہ کہتا ہوا گیا۔ جناب دوبارہ ضرور آئیں۔ مجھے خدمت کا موقع ملے گا۔ بس یہ ریسٹورنٹ میرا ہی سمجھیں۔ وہ پلٹا اور آہستہ سے بولا ’’سر ایماندار آدمی آج کل کہاں ملتا ہے۔ اس ریسٹورنٹ کا مالک میرا عزیز ہے۔ بڑی مشکل سے منتیں کر کے مجھے لایا ہے۔ میں بڑے معقول پیسے لیتا تھا اور بڑی اچھی پوزیشن پر تھا۔ مگر کہتا ہے کہ تنخواہ کی پرواہ نہ کرو بس سب کام سنبھال لو۔ بس اب ساری ذمہ داری مجھ پر ہے۔‘‘

اس کی جانے کی مرضی تو نہ تھی مگر ریسٹورنٹ سے بلانے والوں کی آوازیں کچھ زور دار ہونے کی وجہ سے تیزی سے بھاگتا ہوا واپس چلا گیا۔ اگلے دن وہ سہ پہر کے وقت میرے گھر پر موجود تھا۔ سب سے پہلے اس نے مجھے دوستوں کے ہمراہ اپنے ریسٹورنٹ میں کھانے کی دعوت دی۔ انداز کچھ ایسا تھا جیسے مفت کھانا کھلانے کی دعوت ہو۔ پہلے دن والی باتیں پھر دہرائیں کہ ریسٹورنٹ بس اسی کی وجہ سے چلتا ہو۔ سارا دن ہوٹل میں گزارتا ہے۔ دونوں وقت کھانا بھی وہیں کھاتا ہے۔ بڑی موج ہے۔ پھر اپنا تفصیلی تعارف کرایا۔ کسی گاؤں کا رہنے والا ہے۔ مگر اب لاہور میں اپنا شاندار مکان ہے۔ بیوی اور دو بچے ہیں۔ بڑی خوشگوار زندگی ہے۔ بے نقط کافی دیر بولنے کے بعد اس نے میرا انٹرویو شروع کیا۔
یہ گھر آپ کا ذاتی ہے؟
گھر میں کون کون رہتا ہے؟
وہ سبھی کیا کرتے ہیں اور کیوں کرتے ہیں؟
کرتے کا جواب تو میں نے دیا مگر کیوں کا جواب میرے پاس نہ تھا۔ مگر مجھے اچھا لگا کیونکہ وہ ایک نئی سوچ دے رہا تھا اور میں عام طور پر یہ کہتا ہوں کہ جب آپ کسی چیز کو دیکھ کر سوچنے لگیں کہ یہ کیا ہے، کیوں ہے اور کیسے ہے تو آپ صاحبِ علم ہیں اور ایک صاحبِ علم کو سامنے پا کر میں محظوظ ہو رہا تھا۔

دو گھنٹے کی بے معنی باتوں کے بعد اس نے رخصت ہونے کا سوچا۔ کھڑا ہوا۔ جیب سے ایک کاغذ نکالا اور مجھے دیتے ہوئے کہا سر کوئی اچھی سی سرکاری نوکری تو ڈھونڈ دیں۔ مجھے آپ سے بہت امید ہے اسی لئے آیا ہوں۔ امید ہے آپ مایوس نہیں کریں گے۔ تنخواہ کم بھی ہو تو بھی کوئی بات نہیں۔ نوکری سرکاری ہونی چاہیے۔ میں بوڑھا آدمی ہوں۔ گھر سے نکلتا صرف پڑھانے کے لئے ہوں۔ لوگوں سے بہت کم ملتا ہوں۔ نوکری ڈھونڈنا میرے بس میں نہیں۔ پھر تم اچھی بھلی نوکری کر رہے ہو۔ تمہیں کیا ضرورت ہے؟

میرا یہ جواب سننے کے باوجود وہ بضد تھا کہ وہ جانتا ہے نوکری لے کر دینا میرے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ سرکاری محکموں میں تنخواہ بہت کم ہوتی ہے مگر اس کے خیال میں وہاں کام بھی کوئی نہیں ہوتا اور سرکاری ملازمت کے باوجود وہ موجودہ ملازمت برقرار رکھ سکتا ہے۔ جاتے جاتے اس نے اپنے گھر کا پتہ بتایا اور گھر آنے کی دعوت بھی دے دی۔

وہ چلا گیا تو میں سوچنے لگا کہ سرکاری ملازمتوں کے بارے لوگوں کے خیالات سرکاری اداروں کی بربادی کا باعث ہیں۔ سرکار کے ملازم کہیں اور ملازمت کرنا کوئی عیب نہیں سمجھتے اس لئے کہ سرکار بھی برا نہیں مناتی۔ میں نے اسی کا دیا ہوا کاغذ نکالا۔ عام سی درخواست۔ نہ تو تعلیم اور نہ ہی تجربے کا کوئی حوالہ۔ بس یہی لکھا تھا کہ محنتی نوجوان ہوں ملازمت دی جائے۔ کہاں اور کیسی اس کے بارے میں کچھ درج نہیں تھا۔

نوجوان چونکہ دو گھنٹے میرے پاس بیٹھ کر گیا تھا اس لئے عمر کو ملحوظ رکھے بغیر وہ میرا بے تکلف دوست تھا۔ ہر دوسرے دن اس کا فون آتا۔ کبھی کبھار اپنی درخواست کے بارے میں بھی پوچھتا مگر زیادہ تر ادھر اُدھر کی باتوں کے بعد اپنے گھر آنے کی دعوت دیتا۔ ’’جناب غریب خانے پر کب آ رہے ہیں؟ میں اور میرے بچے آپ کے منتظر ہیں۔‘‘ میں ہر دفعہ اچھا کہتا مگر کچھ وقت نہ ہونے کے سبب اور کچھ گھر سے نہ نکلنے کی عادت کے سبب اس کی دعوت پر فقط ہنس دیتا اور اچھا کہہ کر ٹرخا دیتا۔

ایک دن میں اپنے کسی عزیز کے ہاں بیٹھا تھا کہ اس نوجوان کا فون آیا ’’سر میں آپ کی گاڑی کے پاس کھڑا ہوں۔ میری خوش قسمتی آپ میرے گھر کے قریب ہی آئے ہوئے ہیں۔ میں نے آپ کے لئے آم ٹھنڈے کئے ہیں آپ میرے گھر آ کر آم کھائے بغیر نہیں جا سکتے۔ آپ جب بھی باہر آئیں گے میں گاڑی کے پاس آپ کو انتظار کرتا ملوں گا۔‘‘

مجھے ابھی دیر لگے گی۔ مجھے تمہارا ایڈریس پتہ ہے میں آ جاؤں گا۔ سر تین چار مکان چھوڑ کر ایک چوڑی سی گلی ہے۔ گلی نمبر ۷۔ باہر موڑ پر موٹا سا لکھا ہوا ے۔ اسی گلی میں سامنے جہاں گلی بند ہوتی ہے ایک دو منزلہ مکان ہے، مکان نمبر 5۔ یہی میرا ایڈریس ہے۔

میں نے وعدہ کیا کہ کچھ دیر بعد اس کے پاس پہنچ جاؤں گا۔ چونکہ وعدہ کر لیا تھا اس لئے جب فارغ ہوا تو سوچا چلوں آم پارٹی سے لطف اندوز ہو لوں۔ واقعی تین چار مکانوں کے بعد گلی نمبر ۷ کا بورڈ تھا۔ میں نے گاڑی گلی میں موڑی۔ 35 یا 40 فٹ چوڑی گلی کافی آگے تک جاتی تھی۔ سامنے گلی بند ہو رہی تھی اور وہیں ایک خوبصورت دو منزل مکان تھا مکان نمبر 5۔ تو نوجوان یہاں رہتا ہے۔ میں گاڑی سے اترا اور گھر کی گھنٹی کا بٹن دبایا۔ دو منٹ بعد ایک خاتون نے دروازہ کھولا۔ میں نے نوجوان کا پوچھا۔ یکایک اس کے چہرے پر خفگی کے آثار نمایاں ہوئے۔ اس نے گھور کر مجھے دیکھا۔ پھر میری گاڑی کو دیکھا۔ کچھ کہتے کہتے رک گئی۔ دروازہ بند کیا اور واپس چلی گئی۔ کچھ دیر بعد دروازہ دوبارہ کھلا خاتون گویا ہوئی۔ معاف کیجیے گا یہ ہمارا گھر ہے۔ اس (موٹی سی گالی دیتے ہوئے) نے سب کو ہمارے گھر کا پتہ دیا ہوا ہے۔ پیچھے ایک گندی سی آبادی ہے اس میں ہمارے گھر کے بالکل پیچھے والا کمرہ اس نے کرائے پر لیا ہوا ہے اور پتہ ہمارا دیتا ہے۔ بہت دفعہ بے عزتی کی ہے مگر اسے شرم محسوس نہیں ہوتی۔ آپ بزرگ ہیں انکار نہیں کر سکی۔ اسے بتا دیا ہے۔ آتا ہی ہو گا۔ دروازہ پھر بند ہو گیا اور میں نے مسکراتے ہوئے گلی میں ٹہلنا شروع کر دیا۔

میری گاڑی گھر کے گیٹ سے ہٹ کر ایک دیوار کے ساتھ کھڑی تھی۔ میں غور کر رہا تھا۔ گلی ے آخر میں اس گھر سے پہلے دونوں طرف خالی پلاٹ تھے۔ جن پر لوگوں نے چار دیواری کی ہوئی تھی اور گیٹ لگائے ہوئے تھے۔ اچانک ایک دیوار پر نوجوان نمودار ہوا۔ دیوار پر چڑھا اور پھر دھم سے گلی میں چھلانگ لگائی اور بڑے تپاک سے مجھے ملا۔ اس کا پہلا سوال تھا۔ مکان ڈھونڈنے میں کوئی مشکل تو پیش نہیں آئی؟ پھر اس نے خود ہی جواب دیا ’’آ ہی نہیں سکتی۔ بڑا آسان پتہ ہے۔ چلیں گھر چلتے ہیں۔ معذرت خواہ ہوں تھوڑا پیدل چلنا پڑے گا۔‘‘ وہ تیز تیز گلی میں واپس چلنے لگا۔ میں بھی اس کے پیچھے تھا۔ اس مکان کے دو حصے ہیں۔ میرے پاس پیسے کچھ کم تھے اس لئے مجبوراً پیچھے والا حصہ خریدا۔ آگے والا گو میرا عزیز ہے مگر ناراض ہے اس کی بیوی بھی کچھ بدتمیز ہے اس لئے ادھر سے گزرنے نہیں دیتا۔ ذرا چکر کاٹ کر جانا پڑتا ہے۔

تھوڑا سا چکر کاٹ کر ہم ایک گہرے گڑھے کے کنارے چل رہے تھے۔ لگتا تھا کہ کسی وقت وہاں کمہار کام کرتے رہے ہوں گے کیونکہ بہت سے ٹوٹے ہوئے برتن اور گملے نیچے مٹی میں دفن نظر آ رہے تھے۔ گڑھے کے کنارے بمشکل دو ڈھائی فٹ کا فاصلہ تھا۔ وہ تیز تیز اور میں ڈر ڈر کر چل رہے تھے۔ میری وجہ سے اسے بار بار رکنا پڑتا۔ ہر بار کہتا چلتے آئیں جی ڈرنے والی کوئی بات نہیں۔ میں کیا جواب دیتا۔ میرے حساب میں تو ساری بات ہی ڈر والی تھی۔ تھوڑی ہی دیر میں اس موت کے کنوئیں کے کنارے اس کا گھر آ گیا۔ دروازے پر پھٹے پرانے کپڑوں سے بنا پردہ تھا۔ پردہ ہٹا کر ہم اندر داخل ہوئے۔ کوئی 10x10 فٹ کا کمرہ اور اس سے آگے 8x10 جگہ جس میں ایک چھوٹا سا غسلخانہ، ایک چھوٹا سا اوپن کچن اور بقیہ جو کچھ تھا اسے بہرحال صحن کہہ لیں۔ کمرے میں دو چار پائیوں کے درمیان پڑی اکلوتی کرسی پر میں بیٹھ گیا۔ میرے آگے میز رکھ دی گئی۔ پہلے میرا تعارف بچوں سے کرایا گیا۔ ایک شاید دوسری میں اور دوسری چوتھی میں پڑھتے تھے۔ پھر اس نے اپنی بیگم سے ملایا۔ یہ ایک سکول میں ہیڈ مسٹرس ہیں۔ اچانک اسے یاد آیا اس نے مجھے آم کھلانے تھے۔ کہنے لگا: ٹھنڈا آم کھانے کا مزا بھی خوب ہے۔ میں ابھی لے کر آتا ہوں۔ بیگم کو اشارہ کیا۔ پلیٹ اور چھری تیار رکھو اور وہ باہر نکل گیا۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ آم کی قربانی کا خصوصی اہتمام ہونے لگا ہے۔ وہ باہر نکلا تو میں نے اس کی بیگم سے پوچھا کون سے سکول کی ہیڈ مسٹرس ہیں؟ کچھ شرما کر کہنے لگی یہیں قریب ہی ہے۔ اصل میں سکول کی مالکن خود ہی ہیڈ مسٹرس ہیں۔ مگر آتی بہت کم ہیں اس لئے ہیڈ مسٹرس کے فرائض بھی میں ہی انجام دیتی ہوں۔ پانچ کلاسیں میرے ذمے ہیں۔ وہ آ جائیں تو پھر میں تین کو پڑھاتی ہوں اور وہ دو کو اور اگر نہ آئیں تو پھر ساری کلاسیں ہی میری ذمہ داری ہوتی ہے۔ میں نے پوچھا بچے کتنے ہیں؟ بولی تقریباً 140۔ اتنے بچوں کو اکیلی کنٹرول کیسے کرتی ہیں؟ جواب ملا یہ کون سا مشکل کام ہے؟ ہر کلاس کا ایک مونیٹر ہے جو کلاس کو دیکھتی ہے۔ ہیڈ مسٹرس کا کمرہ درمیان والی جگہ ہے، کسی کلاس سے شور سنائی دے تو جانا پڑتا ہے وگرنہ مانیٹر سارا کام کروا لیتی ہے اور کوئی مشکل ہو تو آ کر مجھ سے پوچھ لیتی ہے۔ ویسے چاروں کمرے اردگرد ہونے کی وجہ سے کلاسوں میں پوری نظر رہتی ہے اور کبھی مشکل پیش نہیں آئی۔

میں ابھی اس شاندار نظامِ تعیلم پر گفتگو کر ہی رہا تھا کہ نوجوان واپس آ گیا۔ بیوی کو آواز دے کر بلایا اور کہا کہ آم کاٹو۔ لڑکی باہر چلی گئی تو نوجوان نے بزرگ عورت کا تعارف کرایا۔ یہ میری ساس ہیں۔ یہ بھی ٹیچر ہیں۔
آپ کس سکول میں پڑھاتی ہیں؟ میں نے سوال کیا۔
اسی سکول میں جہاں میری بیٹی ہے۔ جواب ملا۔
مگر پرائمری سکول ہے اور پانچ کلاسیں تو آپ کی بیٹی پڑھاتی ہے۔ آپ کیا پڑھاتی ہیں؟
بزرگ عورت نے شرماتے ہوئے جواب دیا میں نرسری کلاس کو پڑھاتی ہوں۔

آپ کتنا پڑھی ہیں؟ میرے اس سوال کے جواب میں فرمانے لگیں: میں تو پڑھی لکھی نہیں مگر نرسری میں تو کھیل کود کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ ہمارے سکول میں بہت سے کھلونے ہیں۔ صبح کو بکس سے نکال کر بچوں کو دے دیتی ہوں جب وہ کھیل کر تھک جاتے ہیں واپس رکھ لیتی ہوں۔ نوجوان نے باہر سے آواز لگائی۔ سر یہ وہاں کینٹین بھی چلاتی ہیں۔ کلاس اور کینٹین ایک ساتھ۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا۔ بزرگ عورت نے جواب دیا: تھوڑی سی چیزیں ہوتی ہیں۔ کلاس ہی میں ایک طرف رکھ لیتی ہوں مجھے تنخواہ نہیں ملتی۔ کینٹین کی ساری آمدن میری اور اس کے عوض نرسری کو پڑھانا میری ذمہ داری۔ واہ واہ۔ ایک پنتھ کئی کاج۔ ساری قوم اگر ایسے ہی کام کرنے لگے تو بیڑہ بہت جلد پار ہو سکتا ہے۔

اتنے میں نوجوان پلیٹ میں کٹا ہوا آم سجائے میرے پاس تھا۔ لگتا تھا پورا ایک آم میرے اعزاز میں ذبح کیا گیا ہے۔ پتلے پتلے ٹکڑوں سے بھری ہوئی پلیٹ اور درمیان میں گٹھلی بڑی خوبصورتی سے رکھی ہوئی تھی۔ پہلے ٹکڑے کے بعد میں نے دوسرے ٹکڑے کو ہاتھ لگایا ہی تھا کہ نوجوان نے تمام گھر والوں کو حکم دیا ’’آپ بھی لے لو‘‘۔ ساس، بیوی اور دونوں بچے جو شاید اسی انتظار میں تھے تیزی سے جھپٹے۔ اب پلیٹ میں سوائے گٹھلی کے کچھ نہیں تھا۔ نوجوان نے مسکراتے ہوئے گٹھلی اٹھائی اور بولا ’’گٹھلی کھانے کا اپنا ہی مزا ہے۔‘‘ میں نے سر ہلایا۔
ہاتھ دھوئیں گے؟ سوال ہوا۔
ضرور۔ ضرور۔ میں نے جواب دیا۔

برتن میں پانی ڈال کر پہلے سے تولیہ ساتھ سجا کر باہر رکھا تھا۔ میں نے ہاتھ دھوئے اور اجازت چاہی۔ نوجوان گاڑی تک چھوڑنے آیا اور کسی اور دن گھر پر کھانے کی دعوت دی۔ میں نے ہنس کر اچھا کہا، مکان نمبر 5 پر نظر ڈالی۔ جو نوجوان کا ایڈریس تھا واقعی فقط ایڈریس تھا اور واپس آ گیا۔ بہت عرصے تک نوجوان کا نہ تو فون آیا اور نہ ہی اس سے ملاقات ہوئی۔ کچھ عرصہ پہلے اپنے ایک دوست کے دفتر گیا تو وہ بحیثیت چپڑاسی وہاں کام کر رہا تھا۔ مجھے خوشی خوشی اس کے کمرے میں لے گیا اور بتایا کہ صاحب آنے والے ہیں۔ا س دفعہ وہ چپ چپ تھا۔ بس اتنا پوچھا کہ صاحب آپ کے دوست ہیں؟ میں نے ہاں کہا۔ مگر وہ کچھ گم سم تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ اس سے کچھ احوال پوچھوں مگر میرا دوست اندر آ گیا اور آتے ہی اس سے بولا ’’تم یہاں کھڑے ہو کئی بار تم سے کہا ہے کہ مہمان کو بٹھا کر فوراً کمرے سے دفع ہو جایا کرو۔‘‘ نوجوان سر جھکائے چپ چاپ باہر نکل گیا اورمیرے دوست کہنے لگے ’’بہت احمق ہے میں نہ ہوں تو میری کرسی پر بیٹھ جاتا ہے اور لوگوں کو کہتا ہے بس میں ہی مالک ہوں میرا نام لے کر کہتا ہے کہ دوست ہے بس سرمایہ کاری تھوڑی سی زیادہ ہے اس لئے رعب جماتا ہے۔ اب بتاؤ اس سے کیا سلوک کروں؟ میں سوچ رہا تھا شاید سبھی کو کہتا ہو گا کہ میں نہ رہا تو سارا کاروبار ڈوب جائے گا اور اب یہ اس کی ایک پختہ عادت ہے جس پر اسے خود بھی قابو نہیں اب وہ جہاں بھی جائے گا یہی کہتا رہے گا۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 444807 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More