الفاظ کی طاقت

زبان حرکت کرے یا قلم الفاظ تو جنم لیتے ہیں۔ بے معنی الفاظ بامعنی جملوں میں بدلتے جاتے ہیں۔ ان میں جان پڑتی جاتی ہے ۔ اور پھریہ الفاظ اپنا مدعا خود بیان کرنے لگتے ہیں۔ پھر یہ کسی کی تقریر کا حصہ بنتا ہے تو کسی کی تحریر کی زینت۔ الفاظ اور جملوں کی بناوٹ اور موقع محل کی مناسبت سے استعمال الفاظ میں ایسی قوت کا جنم دیتی ہے جو افراد وا قوام کی ترقی یا تنزلی کا باعث بنتی ہے۔ کبھی کسی کی تحریر ادب کا شہ پارہ بن جاتا ہے تو کسی کے لئے مشعل راہ۔ کسی کے کہے ہوئے الفاظ کسی کے لئے جینے کی اُمنگ پیدا کرتے ہیں تو کسی کی لفاظی اور زور بیان انقلاب کو جنم دیتا ہے۔پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب بعض اشخاص کی تقریروں اور تحریروں پہ پابندی لگادی جاتی ہے کیوں؟ کیوں کہ وہ الفاظ سے کھیلنا جانتے ہیں اور اپنی تقریر و تحریر میں ایسا جوش وجذبہ پیدا کرتے ہیں کہ ان کو سننے اور پڑھنے والے کچھ بھی کر گزرتے ہیں ۔ صاحب عقل الفاظ کا ایسا استعمال کرتے ہیں کہ ماحول کی سنگینیاں دورہو جاتی ہیں۔ وہاں عاقبت نا اندیش اس سے جلتی پہ تیل کا کام بھی لیتے ہیں۔ اسی لئے تو مارک ٹوئین نے کہا تھا ’’ـ تبدیلی کا ایک اہم اور طاقتور ذریعہ صحیح الفاظ ہیں‘‘ ۔ اور ایک یونانی ڈرامہ نگار(Aeschylus) نے کہا تھا ’’الفاظ بیمار ذہن کے طبیب ہوتے ہیں‘‘۔ اسی مناسبت سے ایک بھارتی نژاد برطانوی شاعر اور مصنف (Rudyard Kipling) نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھاکہ انسانوں میں استعمال کی جانے والی سب سے زیاد طاقتو ر ’ دوا ‘ یقینا الفاظ ہی ہیں۔ یہ الفاظ ہی ہیں جو پیار کے زبان بولتے ہیں ۔ یہ الفاظ ہی ہیں جو نفرت کے اظہار کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ یہ الفاظ ہی کامجموعہ ہوتا ہیں جو جادوگرجادو کے لئے استعمال کرتے ہیں۔الغرض مختلف طریقوں سے استعمال ہونے والے الفاظ انسانی طبیعت پہ مختلف طریقوں سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ الفاظ میں بے تحاشا جادؤئی قسم کی طاقت پائی جاتی ہے۔ الفاظ کسی کی زندگی بنانے اور بگاڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کسی شخص کے لئے استعمال کئے جانے والے الفاظ اس شخص کویا تو آسمان کی بلندیوں پہ پہنچا دیتے ہیں یا پھر اسے زمین کی گہرائیوں میں غرق کر دیتے ہیں۔حوصلہ افزائی اور اُمید بھرے چند الفاظ کسی نااُمید شخص کو اُمید کی روشنی دکھاتے ہیں تو دوسری طرف حوصلہ شکنی اور نااُمیدی کے الفاظ کسی پر امید شخص کو بھی نااُمید کر دیتے ہیں۔ یہ الفاظ ہی ہیں جوایک طرف لوگوں کے درمیا ن پیارو محبت کے جذبات ابھارتے ہیں تو دوسری طرف لوگوں میں بغض و حسد نفرت و کینہ پروری اور لڑائیوں کا سبب بنتے ہیں۔ یہ سب الفاظ کی طاقت اور الفاظ کے چناؤ کا ہیر پھیر اور ان کا مثبت و منفی استعمال ہی توہے جوہر قسم کے جذبات کو ابھارتا ہے۔ الفاظ کی طاقت سے واقفیت کے باوجود بھی ہم الفاظ کے استعمال سے پوری طرح واقف نہیں ہیں۔ ہمارے الفاظ سے ہی ہماری شخصیت کا اظہار ہوتا ہے۔ ہمارے الفاظ سے ہماری باطنی خوبیاں اور خامیاں کھل کر سامنے آتی ہیں۔ بات چیت ، بولنے کا انداز اور الفاظ کا چناؤ اور ان کا استعمال شخصی رویوں کی تصویر کشی کرتا ہے،لفاظی کی بنا پہ ہی کسی کو انا پرست، کسی کو ضدی، کسی کو جھوٹاتوکسی کو باتونی کہا جاتا ہے۔ اسی لئے تو کہتے ہیں کہ ہمارے لئے کوئی بھی شخص اس وقت تک اجنبی ہوتا جب تک وہ خاموش ہے۔ ہم اپنے احساسات ، جذبات اور سوچ کے اظہار کے لئے الفاظ کے محتاج ہوتے ہیں۔ اگر ہم سے الفاظ چھین لئے جائیں تو ہم پتھرکے بت بن کے رہ جائیں ۔

مختلف الفاظ سے منسلک تجربات ہی ہمارے ذہن کے پردوں میں مختلف نقش کندہ کرتے ہیں۔ منفی تجربات کے نتیجے میں حاصل ہونے والے الفاظ زندگی بھر کے لئے اس واقعہ کی یا د دلاتے ہیں۔ اسی لئے تو آلڈس ہاسلے نے کہا تھا کہ ’’ہمارے تجربات کی ڈوری الفاظ کے دھاگوں سے بندھی ہے‘‘۔ الفاط کا مناسب استعمال نہ صرف جسمانی بلکہ روحانی سکون کا بھی باعث بنتا ہے۔آپ اپنی روزمرہ کی زندگی میں غور کریں اور دیکھیں کہ مختلف الفاظ آپ کی زندگی پہ کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں آپ دیکھیں کہ کن الفاظ کا آپ کی شخصیت پہ بہت زیادہ اثر ہوتا ہے۔ آیا کہ وہ پیار ومحبت کے الفاظ ہیں یاتوہین و نفرت کے، وہ نام و القابات کے الفاظ ہیں ، یا حیرت و مبالغہ کے الفاظ ۔ ا ن سب الفاظ کا اپنی زندگی پہ اثرات کا بغور مطالعہ کریں تو آپ پہ الفاظ کی طاقت اور قدر و قیمت کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے ۔ کوئی بھی اپنی روزمرہ زندگی میں الفاظ کے اثرات باآسانی اندازہ لگا سکتا ہے۔ مثلاً آپ کی کوئی توہین کرتا ہے، آپ کو کوئی گالی دیتا، یا کوئی بھڑکانے والی بات کرتا ہے تو آپ بھی مشتعل ہوجاتے ہیں، اور باقی مانندہ دن انہیں الفاظ کی تلخیاں بھلانے میں گزر جاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی آپ سے پیار و محبت سے پیش آتا ہے تو آپ کا دل خوش ہو جاتا ہے، آپ کے دل میں بھی اس شخص کے لئے اچھے جذبات ابھرتے ہیں۔ اور جب کبھی آپ کسی کی دکھ درد بھری دستان سنتے ہیں ایسے محسوس کرتے ہیں جیسے وہ دکھ درد آپ پہ بیت گئے ہوں۔ ان سب واقعات میں ا یسا کیوں ہوا، کیوں کہ الفاظ احساسات کا مجموعہ ہیں اور ایک خاص تاثیر رکھتے ہیں۔ الفاظ کی طاقت کا موازنہ کامیاب اور ناکام لوگوں کی زندگیوں میں جھانک کربھی کیا جا سکتا ہے ۔ جتنے بھی عظیم اور کامیاب لوگ اس دنیا میں ہو گزرے ہیں انہوں نے الفاظ کا بہتر ،مثبت اور مؤثر انداز میں استعمال کیا تو وہ لوگو ں میں نہ صرف اپنے دور حیات میں مقبول و معروف ہوئے بلکہ آج بھی بہت سے لوگ ان کے گرویدہ نظر آتے ہیں۔

اگرآپ بھی مثبت اور مؤثر الفاظ کا استعمال کریں تو آپ بھی کامیاب ہو سکتے ہیں ۔اب یہ آپ پہ منحصر ہے کہ آپ کس قسم کے الفاظ استعمال کرتے ہیں ۔ کامیاب لوگوں کے الفاظ استعمال کر کے کامیاب ہونا چاہتے ہیں یا ناکام لوگوں کے الفاظ استعمال کر کے ناکام ۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم الفاظ کا مثبت اور مناسب استعمال کریں ۔۔ منفی اور غلط الفاظ کے استعمال کی وجہ لوگوں کی لغت میں الفاظ کی کمی کا ہونا ہے۔ ان کے پاس خوشی اور غم، دکھ تکلیف، رنج و الم، غم وغصہ کے اظہار کے لئے مناسب یا مثبت الفاظ نہیں ہوتے۔ اور نتیجتاً وہ اپنے جذبات و احساسات کو مناسب انداز میں بیان نہیں کر پاتے ۔دوسروں کے جذبات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے جذبات کا غلط انداز میں اظہار کردیتے ہیں تو بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں۔ ایسا کرنے والے خود تو متاثر ہوتے ہی ہیں ساتھ ہی ساتھ دوسروں کے لئے بھی مسائل پیدا کرتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف کامیاب لوگوں کا انداز بیاں، الفاظ کا چناؤ نہائت ہی موثر اور نپا تلا ہوتا ہے۔ اپنے تما م قسم کے منفی اور مثبت جذبات کا بہتراور خوبصورت الفاظ میں اظہار کرتے ہیں۔اوریہ لوگ خود بھی خوش و خرم رہتے ہیں اور ان سے وابستہ لوگ بھی۔ توآج ہی آپ بھی اپنی روزمرہ کے عادتاً منفی الفاظ کے استعمال کو کم کریں کامیاب لوگوں کی دوڑ میں شامل ہو جائیں۔ کامیاب لوگوں کے الفاظ پہ غور کریں اور ان الفاظ کواپنا شعار بنائیں۔ آج ہی اپنی لغت میں سے منفی الفاظ کو نکال دیں اور مثبت اور بہترین الفاظ سے اپنے لغت کو مزین کر کے کامیاب مستقبل کی طرف قدم بڑھائیں۔ اور اپنی زندگی میں مثبت الفاظ کے ثمرات سے مستفید ہو ں۔ آخر میں میرا ذاتی تجربہ الفاظ کی طاقت کے تناظر میں۔ الفاظ کی طاقت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ میں نے کالم نگاری کی کوشش کر ڈالی ہے ۔ اس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ کچھ دن پہلے میں نے کالم کے لئے ایک پوسٹر ڈیزائن کیا اور فیس بک پہ اپ لوڈ کر دیا اور ساتھ لکھ دیا’’ میں عنقریب :بلا عنوان: کے نام سے کالم شروع کر رہا ہوں، سب دوست اپنے مشوروں سے نوازیں‘‘ اس پہ میرے دوستوں نے ک کچھ اس طرح سے کومنٹس کئے’’ کب لکھ رہے ہیں؟ کسی نے کہا کونسے اخبار میں لکھنا ہے ؟ کچھ احباب نے اپنی قیمتی دعاؤں سے اپنا حق ادا کیاتو بہت سے دوستوں نے تو کال کر کے لکھنے سے پہلے ہی مبارک بادبھی دے دی۔ اور اپنی خوشی کاایسے اظہار کیا جیسے میں نے کالم لکھ بھی دیا ہو۔ اس سب کے بعد مجھے اپنے کہے الفاظ کو پورا کرنا ضروری ہو گیا۔ وہ سب الفاظ وہ سب کمنٹس نے مجھے لکھنے پہ مجبور کیا۔ یہ غلطیوں سے پر حقیر سی کوشش آپ دوستوں کے سامنے تنقید اور اصلاح کے لئے پیش خدمت ہے۔میری اس حقیر سی کوشش کے پیچھے ان دوست احباب کی حوصلہ افزا لفاظی کا بہت بڑا کردار ہے میں ان سب دوستوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے مجھے پہلا قدم اُٹھانے کے لئے ہمت بندھائی ۔
ﻏﻼﻡ ﺷﺒﯿﺮ
About the Author: ﻏﻼﻡ ﺷﺒﯿﺮ Read More Articles by ﻏﻼﻡ ﺷﺒﯿﺮ: 3 Articles with 7428 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.