اسلام کا قانون نکاح
(Dr Sajid Khakwani, Islamabad)
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
خاندان ایک ایسا ادارہ ہے جس کی تاسیس کا سہرہ انبیاء علیھم السلام کے سر
جاتا ہے۔خاندان انسان کی پہلی آماجگاہ ہوتا ہے،اسکی پہچان اور اور اسکی
شناخت اسکے خاندان سے ہی وابسطہ ہوتی ہے اور انسانی تہذیب و تمدن کی
بڑھوتری اور ثقافت کی اضافت خاندان سے ہی ممکن ہے۔خاندان کاآغاز’’نکاح‘‘سے
ہوتا ہے ۔نکاح ایک معاہدہ ہے جو زوجین کے درمیان طے پاتا ہے ،اسکے باعث دو
خاندان ایک دوسرے کے اتنے قریب آجاتے ہیں کہ آنے والی نسلوں کی رشتہ داریاں
ان میں قائم ہوجاتی ہیں اور پھر صدیوں تک لوگ ایک دوسرے کو ان تعلقات سے
یاد کرتے ہیں ،ایک دوسرے کے پیار کا دم بھرتے ہیں اور محبتیں اور چاہتیں اس
طرح پروان چڑھتی ہیں کہ ایک دوسرے کے بغیر غمی خوشی بھی ادھوری لگتی ہے ۔نکاح
سب انبیاء علیھم السلام کی سنت ہے اور یہ ایسا تعلق ہے کہ جو جنت میں ہی
قائم ہوگیاتھاجب کہ اولاد جیسی نعمت بھی زمین پر انسان کو ملی لیکن زوجیت
کا تعلق اس زمین سے بھی قدیم اور آسمانوں کی یاد دلاتا ہے۔
نکاح عربی زبان کا لفظ ہے اس کا لفظی مطلب ملانا اور جوڑنا ہے ،جیسے دو
چیزوں کو جوڑ کر ملا دیا جائے ،اسی سے اس کا اصطلاحی مطلب بھی اخذہوتا کہ
ایک مرد اور عورت جو باہم زوجین بن کر زندگی گزارنے کے لیے تیار ہیں انہیں
اس طرح جوڑ دیا جائے کہ وہ ایک مضبوط بندھن میں بندھ جائیں،اﷲ تعالی نے یہ
ایک ایسا تعلق بنایا ہے کہ دو علیحدہ علیحدہ رہنے والے اور بعض اوقات ایک
دوسرے سے بالکل ناواقف مرد و عورت جنہوں شاید ایک دوسرے کو دیکھا بھی نہیں
ہوتا وہ نکاح کے بعد پوری زندگی کے لیے ایک دوسرے کے شریک بن جاتے ہیں،غمی
خوشی اور نفع نقصان میں ایک دوسرے کے سانجھی ہو جاتے ہیں ،شریعت انہیں ایک
دوسرے کا وارث بھی بنا دیتی ہے اور پھر اولاد کا اشتراک تو ایسا تعلق ہے جو
باباآدم اور اماں حواعلیہما السلام سے لے کر آج تک قائم ہے اور آخرت کے دن
بھی خدائی عدالت اسی نسبت سے ہی انسان کو پکارے گی۔
نکاح کے بعد مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے حلال ہو جاتے ہیں ،شریعت انہیں
اجازت دے دیتی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے جائز جنسی لذت کا حصول کر سکیں ،لیکن
یہ ایک ضمنی فائدہ ہے فرد کی حد تک سب سے بڑا فائدہ یہ ہے ایک خوبصورت ساتھ
کے باعث مردوعورت کے قلب و نظر محفوظ ہو جاتے ہیں اور انہیں ایک محفوظ پناہ
گاہ میسر آجاتی ہے ،زمانے کی آلائشیں ان پر اپنے اثرات ڈال کرانہیں آلودہ
نہیں کرتیں اور پاکدامنی اورعصمت و عفت انکے ہم رکاب رہتی ہے۔حدیث نبوی ﷺ
کا مفہوم ہے کہ جب کسی خوبصورت عورت کو دیکھو تو اپنی بیوی سے جماع کر
لوگویا باہر کا لگا ہوا زنگ گھر آ کر نکاح کے ہاتھوں مانجھ دیاگیااور اس
طرح ایک انسان کے ناطے پورا معاشرہ طہارت و پاکیزگی کا مرقع بن گیا۔
نکاح کا دوسرا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اولاد صحیح النسب قرار پاتی ہے
۔حرامی اور حلالی کے درمیان حد تفاوت توعمل نکاح ہی ہے بصورت دیگر تو زنا
اور نکاح میں کوئی فرق نہیں۔ایک مرد اورعورت جب محض لذت نفسانی کے لیے چھپ
چھپا کر احساس جرم کے ساتھ ملتے ہیں اور حیوانیت،جنسیت،خودغرضی اور نفس
پرستی کی خاطر ایک دوسرے کوجھنجھوڑتے ہیں ،بھنبھوڑتے ہیں اور پھر ہمیشہ کے
لیے جدا ہوجاتے ہیں اور پھر ایک بچہ جنم لیتا ہے جبکہ دوسراجوڑا ہمیشہ ساتھ
رہنے کے لیے ایک دوسرے عمر بھر کی غمیاں اور خوشیاں سانجھنے کے لیے اور ایک
خاندان اور نسل کی پرورش کے لیے باہم ملتاہے اور ساری دنیاکو معلوم ہوتا کہ
وہ کیا کررہے ہیں لیکن انکے درمیان احساس جرم کی بجائے پیار اور محبت کی
فراوانی بہ رہی ہوتی ہے اور اسکے نتیجے میں ایک بچہ پیدا ہوتا ہے توکیا یہ
دونوں بچے نفسیاتی طور ہر ایک ہی فطرت کے مالک ہو سکتے ہیں؟؟ قطعاََ نہیں
اور بالکل بھی نہیں،مذہب نے انکے درمیان حرامی اور خاندانی کی جو حد فاصل
کی لکیر کھینچ دی ہے وہ ایک ابدی حقیقت ہے ۔پس نکاح ہی نسل انسانی کے لیے
شرافت،خاندانیت اور محفوظ حسب و نسب کا منبہ ہے ۔
نکاح کا بہرین وقت بلوغت ہے کیونکہ یہی فطرت کاقانون ہے کہ پرندے جانور
جیسے ہی بالغ ہوتے ہیں قدرت انہیں جوڑا جوڑا کر دیتی ہے۔آپ ﷺ کے ارشاد کا
مفہوم ہے کہ تین کاموں میں جلدی کرو نماز کاوقت ہوجائے تواسکے اداکرنے میں
،جنازہ تیارہوجائے تواسکے دفنانے میں اور لڑکی جوان ہوجائے تو اسکے نکاح
میں جلدی کرو۔بیوہ اور مطلقہ عورتوں اور رنڈوے مردوں کابھی نکاح
کردیناچاہیے۔نکاح سے ایک خاندان کی بنیاد پڑتی ہے پہلے وہ میاں اور بیوی
ہوتے ہیں جب انکے ہاں اولاد جنم لیتی ہے تو وہ ماں اور باپ بن جاتے ہیں وقت
گزرتے دیر نہیں لگتی کہ اولاد کے نکاح کے بعد وہ ساس سسر بن جاتے ہیں اور
انکے بچے بہو اور داماد بن جاتے ہیں اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ انہیں میاں
بیوی کی محبتوں کی نشانیاں انہیں نانا نانی اور دادا دادی بنادیتے ہیں،تب
اصل زر سے سود زیادہ عزیزہونے کے مصداق ان میاں بیوی کو اپنی اولاد کی نسبت
اپنی اولاد کی اولاد زیادہ عزیز ہو جاتی ہے۔پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں
اگر نظر نہ آئیں تو دادا دادی اور نانا نانی بیمار پڑنے لگتے ہیں ،اداس
رہنے لگتے ہیں اور وقت پیری تو رشتے اور بھی زیادہ عزیز ہوجاتے ہیں اور پھر
اسی نکاح کے ادارے کے باعث ہی چچا،ماموں،خالہ،پھوپھی،سسرالی اور رضاعی رشتے
میسر آتے ہیں یہ سب نکاح کی برکتیں اور رحمتیں ہیں جن کے باعث
کاروبارانسانیت رواں دواں ہیں۔
حضرت آدم علیہ السلام کی شریعت میں سگے بہن بھائیوں کا نکاح ہواکرتا
تھا،لیکن ہماری شریعت میں یہ ممنوع ہوگیاہے ،جس طرح اپنے بہن بھائیوں سے
نکاح ممنوع ہے اسی طرح باپ ،ماں،دادا ،دادی اور نانا نانی کے بہن بھائیوں
سے بھی نکاح ممنوع ہے۔دودھ شریک بہن بھائیوں سے نکاح بھی ممنوع ہے ۔ایک
حدیث نبویﷺ میں وارد ہے کہ جو رشتے نسب سے حرام ہوتے ہیں وہ رضاعت یعنی
دودھ پینے سے بھی حرام ہوجاتے ہیں۔ساس اور سسراور انکے والدین سے بھی نکاح
ممنوع ہے ۔یہ دائمی حرام رشتے ہیں جن سے کبھی نکاح نہیں ہوسکتا۔کچھ رشتے
وقتی طور پر ممنوع ہیں مثلاَبیوی کی موجودگی میں اسکی بہن،پھوپھی،خالہ کو
اپنے نکاح میں نہیں لایا جاسکتا۔اس سلسلے میں فقہائے ایک آسان کلیہ
بتادیاہے کہ جن دوعورتوں میں سے ایک کو مرد فرض کرکیاجائے اور انکا نکاح نہ
ہوسکے تو ان دونوں کو ایک مرد کے نکاح میں بیک وقت جمع کرنا ممنوع
ہے۔غیرمسلموں میں سے صرف اسلامی ریاست کی عیسائی اور یہودی عورتوں سے نکاح
کی اجازت ہے لیکن حضرت عمر نے اس سے بھی منع کردیاتھااور عدت کے دوران بھی
عورت سے نکاح نہیں ہوسکتاالبتہ اس دوران نکاح کی بات کی جاسکتی ہے۔چار
بیویوں کی موجودگی میں پانچویں عورت کو نکاح میں نہیں لایا جاسکتا۔
نکاح کا طریقہ یہ ہے کہ جن مردوعورت کا نکاح ہوسکتاہوان میں سے مرد عورت کو
پیغام نکاح بھیجے گااسکو اصطلاح میں ’’ایجاب‘‘کہاجاتا ہے عورت اس پیغام کو
’’قبول‘‘کر لے گی۔اگرچہ فریقین خودایجاب و قبول کرسکتے ہیں لیکن بہتر ہے کہ
انکے خاندان اس عمل میں شریک ہوں اور عورت کنواری ہے تو اسکا والد یا جو
بھی نسبی سرپرست ہے وہ خود اس عمل میں رضامندی سے شریک ہو۔یہ ایجاب و قبول
ایک مجلس میں ہو اور اسکے گواہ بھی موجود ہوں۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’نکاح
کااعلان کرو اگرچہ دف بجاکر ہی‘‘۔چنانچہ چوری چھپے نکاح کی کوئی حیثیت نہیں
،یہ ایک معاشرتی عمل ہے اور اس میں معاشرے کو شریک ہونا چاہیے تاکہ کل کو
جب وہ میاں بیوی اکٹھے جارہے ہوں لوگوں کو پتہ ہو کہ چند دن پہلے ان کا
نکاح ہوچکاہے۔اگرعورت اس مجلس نکاح میں موجود نہ ہو تو ایک فرد دو گواہوں
کی موجودگی میں اسکی رضامندی لے آئے ،اب یہ فرد عورت کا وکیل ہوگا، تب نکاح
کرانے والا عورت کی غیر موجودگی میں اسکے وکیل سے ’’قبول‘‘ کا عمل کراکے تو
ان کے درمیان نکاح کرادے گا۔
نکاح کے لیے کفو بھی ضروری ہے ،’’کفو‘‘کا مطلب ہے کہ فریقین اور انکے
خاندان ،تعلیم،معاش،خاندانی وجاہت اور حسب نسب وغیرہ میں برابر ہوں یابہت
کم فرق ہو۔بہتر ہے کہ لڑکا لڑکی نکاح سے پہلے ایک دوسرے کو دیکھ لیں لیکن
اس سے زیادہ کی اجازت نہیں ہے،جس طرح امتحان دینے والے اسکی رائے پر اعتبار
کرتے ہیں جو امتحان دے چکا ہو اسی طرح زندگی گزارنے کے معاملے میں بھی ان
(والدین)پر اعتماد کیاجائے جو زندگی کے اس مرحلے سے گزر چکے ہیں اپنی
مرضیاں رچانا اور خود سے بر تلاش کرنا کسی طور بھی صحیح نہیں۔نکاح کا سنت
طریقہ یہ ہے کہ مجلس نکاح میں خطبہ دیا جائے جس میں نکاح کی فضیلت کے ساتھ
ساتھ اسکے فضائل اور لوگوں کو تقوی اور پاکدامنی کی نصیحت کی جائے۔خطبہ کے
بعد دعااور پھر چھوارے اچھال کر تقسیم کرنا بھی سنت ہے۔ولیمہ لڑکے کی طرف
سے ہوگا اور وہ اپنے نکاح کی خوشی میں حسب استطاعت لوگوں کو کھانا کھلائے
گا۔عورت کامہر اسکا حق شریعت ہے،اگر نکاح کے وقت مہر طے نہیں ہوا توعورت کی
ددھیالی رشتہ دار خواتین کے اوسط مہر کے برابر اسے مہر اداکیاجائے گا۔عورت
چاہے تو مہر کی ادائگی سے پہلے مرد کو اپنے قریب آنے سے روک سکتی ہے۔جو
نکاح کسی خاص مدت کے تعین کے ساتھ منعقد ہو اسے ’’نکاح متعہ‘‘کہتے ہیں۔اس
مدت کے اندر فریقین کی موت کی صورت میں وہ باہم وارث ہوتے ہیں اور انکی
اولاد صحیح النسب قرار پاتی ہے۔بچپن میں کیاگیانکاح،کسی شرعی عذرکے باعث
بلوغت کے بعد ختم کیاجاسکتا ہے اسے ’’خیاربلوغ‘‘کہتے ہیں۔نکاح کے کاغذات کی
کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے لیکن قانونی پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے کاغذات کی
تیاری ایک مستحسن اقدام ہے ۔ |
|