زندگی کا بیشتر حصہ مناظروں ،
مجادلوں ، اور بحث مباحثوں میں گذارا ہے۔ ہر مذہب و مسلک کے لوگوں سے علمی
موضوعات پر گفت و شنید رہی ہے۔ ایک وقت وہ بھی تھا کہ دیگر مسالک و مذایب
کے علماء کے مدرسوں میں جاکر بحث مباحثہ کیا کرتا تھا لیکن اب طبیعت میں وہ
جنون نہیں رہا، مگر پھر بھی اگر کوئی آجائے اور میری دکھتی رگ مناظرہ کو
چھیڑ دے تو پھر میں اسے جانے نہیں دیتا، یہ سب اپنے منہ میاں مٹھو بننے کی
خاطر نہیں لکھ رہا اور نہ اس پر کسی سے کوئی تمغئہ حسن کارکردگی لینے کے
لئیے لکھ رہا ہوں بلکہ میں سب عبادت سمجھ کر کرتا ہوں منکروں اور گستاخوں
سے بحث، خود بحث شروح نہیں کرتا اور اگر کوئی کر دے تو اسے پھر جواب سنے
بغیر جانے نہیں دیتا۔ آجکل دفاعی پوزیشن میں ہی رہتا ہوں، ماضی میں تو خود
تابڑ توڑ حملے کیا کرتا تھا۔ خیر یہ سب لکھنے کا مقصد آپ کو مسئلہ سمجھانا
ہے جو آگے بیان ہو گا۔ آج سے دو دن پہلے دو عرب باشندے تشریف لائے، انکا
تعلق جرنلزم اور ہیومن رائیٹ سے تھا۔ اپنے آپ کو لبرل مسلمان کہتے تھے۔ بات
انھوں نے غلامی ( slavery ) پر شروع کی، باتوں باتوں میں ایک نے کہا کہ
قرآن میں غلامی کے خلاف ایک آیت بھی نہیں۔ میں نے عرض کیا کہ آیات تو ہیں
پر آپکو نظر نہیں آئیں، خیر اس وقت دو آیات میرے ذہن میں آئیں میں نے سنا
دیں اور کہا کہ احادیث کی کتب تو بھری پڑی ہیں اس موضوع سے۔ جواب میں وہ
کہنے لگے کہ معذرت جناب ہم احادیث کو نہیں مانتے۔ میں نے جب وجہ پوچھی تو
کہنے لگے کہ بنو امیہ اور بنو عباس کے دور میں بادشاہوں نے من گھڑت باتوں
کو احادیث بنا کر کتب میں شامل کروا دی تھیں۔ میں نے عرض کیا کہ اسمآء
الرجال ، جرح و تعدیل کی مدد سے محدثین نے زندگیاں کھپا کر صحیح احادیث کو
چھانٹی کر کے من گھڑت سے جدا کر کے امت کے سامنے پیش کردیا۔ وہ کہنے لگا کہ
ہم صرف قرآن کو مانتے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ قرآن میں حکم ہے اقیموالصلات
و اتوالزکوت، نماز قائم کرو اور زکوات دو، اب مہربانی فرماکر مجھے قرآن سے
بتلائیں کہ نماز کیسے پڑھنی ہے ؟ اور زکوات کتنی ؟ کیسے اور کسے دینی ہے ؟
ایک جلدی سے بولا کہ جو احادیث ان احکامات کی تشریع کرتی ہیں انھیں میں
مانتا ہوں۔ اگلا پینترا انھوں نے بدلا اور مجھ سے سوال کیا کہ حضرت عائشہ
صدیقہ رضی اللہ عنہا کی نکاح کے وقت عمر کیا تھی۔ میں نے جواب دیا کہ ١٧ سے
١٩ سال ۔ کہنے لگا کہ بخاری میں تو ٧ سے ٩ سال لکھی ہے۔ یہ ایک اہم سوال
تھا جو اکثر منکرین حدیث اٹھاتے ہیں۔ میں نے جو دلائل جواب میں پیش کیے آپ
کے علم میں اضافہ کے لئیے درج کر دیتا ہوں کیونکہ آجکل این جی اوز زدہ
خواتین اور انسانی حقوق کے ٹھیکدار اسلام پر نکتہ چینی کے لئیے اسی طرح کے
سوالات اٹھاتے ہیں۔ منکرین حدیث نے اس بات کو بہت اچھالا ہے کہ حدیث شریف
میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی شادی کے وقت 9 سال عمر بتائی گئی ہے
جو عقل و نقل کی رو سے غلط ہے۔ اس سے غیر مسلموں بلکہ پڑھے لکھے مسلمانوں
کو بھی انکار حدیث کا بہانہ مل گیا ہے۔ ہماری تحقیق یہ ہے کہ سیدہ عائشہ
صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک شادی کے وقت کم سے کم 17 سے 19 سال تھی۔
دلائل: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی بڑی بہن سیدہ اسماء بنت ابی بکر
رضی اللہ عنہا طویل العمر صحابیات میں سے ہیں۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ
عنہ کی والدہ محترمہ ہیں۔ بڑی خدا رسیدہ عبادت گذار اور بہادر خاتون ان کی
عمر تمام مورخین نے سو سال لکھی ہے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ان سے
دس سال چھوٹی ہیں۔ سیدہ اسماء حضرت عبداللہ بن زبیر کی شہادت کے پانچ یا دس
دن بعد فوت ہوئیں۔ سن وفات 73ھ ہے۔ اس حساب سے سیدہ اسماء کی عمر ہجرت کے
وقت 27 سال ہوئی اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ان سے دس سال چھوٹی
ہیں تو آپ کی عمر ہجرت کے وقت 17 سال ہوئی۔ اگر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ
عنہا کی رخصتی 2ھ کو مانی جائے تو رخصتی کے وقت آپ کی عمر مبارک 19 سال
ہوئی۔
اسلمت اسماء قديما وهم بمکة فی اول الاسلام... وهی آخر المهاجرين
والمهاجرات موتا. وکانت هی اکبر من اختها عائشة بعشر سنين.. بلغت من العمر
ماته سنة. اسماء مکہ میں اوائل اسلام میں مسلمان ہوئیں۔ مہاجرین مردوں
عورتوں میں سب سے آخر فوت ہونے والی ہیں۔ اپنی بہن سیدہ عائشہ رضی اللہ
عنہا سے دس سال بڑی تھیں‘‘۔ (ابن کثير، البدايه والنهايه 8 / 346 طبع
بيروت)
مکہ معظمہ میں سترہ آدمیوں کے بعد ابتدائی دور میں مسلمان ہوئیں۔۔۔ اور مکہ
مکرمہ میں اپنے بیٹے (عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ) کی شہادت کے دس یا
بیس دن بعد فوت ہوئیں اور یہ واقع ماہ جمادی الاولیٰ سن 73ھ کا ہے‘ (علامه
ابن حجر عسقلانی، تهذيب التهذيب 12 ص 426 طبع لاهور، الامام ابوجعفر محمد
بن حرير طبری، تاريخ الامم والملوک ج 5 ص 31 طبع بيروت، حافظ ابونعيم احمد
بن عبدالله الاصبهانی م 430ه، حلية الولياء وطبقات الاصفياء 2 ص 56 طبع
بيروت)۔۔ سیدہ اسماء بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مکہ معظمہ میں قدیم
الاسلام ہیں۔ آپ نے رسول اللہA کی بیعت کی۔ اپنے بیٹے عبداللہ بن زبیر کی
شہادت کے چند دن بعد فوت ہوئیں۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت
بروز منگل 12 جمادی الاولیٰ 73ھ کو ہوئی ہے (محمد ابن سود الکاتب الواقدی
168ه م 230ه الطبقات الکبریٰ ج 8 / 255 طبع بيروت)۔۔ ’سیدہ اسمائ، سیدہ
عائشہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ عمر کی تھیں۔ باپ کی طرف سے سگی بہن تھیں۔
ہجرت سے 27 سال قبل پیدا ہوئیں‘‘۔ (امام ابن الجوزی، اسدالغايه فی معرفة
الصحابة ج 5 ص 392 طبع رياض)۔۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا مکہ مکرمہ میں
ابتدائً مسلمان ہوئیں۔ ابن اسحاق نے کہا سترہ انسانوں کے بعد سو سال عمر
پائی ہجرت سے 27 سال پہلے پیدا ہوئیں‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں سن ہجری کا آغاز نہیں
ہوا اور سن عیسوی یا کسی اور سن کا عرب معاشرے میں تعارف یا چلن نہ تھا۔
اہل عرب کسی مشہور تاریخی واقعہ سے سالوں کا حساب کرتے تھے مثلاً واقعہ
اصحاب فیل، سے اتنا عرصہ پہلے یا بعد وغیرہ۔ باقاعدہ سن ہجری کا آغاز حضرت
عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں کیا اور اس کا آغاز سال ہجرت
سے کیا۔
پہلی سن ہجری، دوسری سن ہجری، تیسری سن ہجری میں کم سے کم امکانی مدت۔ پہلی
سن ہجری کا آخری دن یعنی 30 ذی الحجہ لیں اور دوسری سن ہجری کا پہلا دن
یعنی یکم محرم، دو سنوں میں وقفہ ایک دن۔ دوسرے رخ سے دیکھیں پہلی سن ہجری
کا پہلا دن یعنی یکم محرم، دوسری سن ہجری کا آخری دن یعنی 30 ذی الحجہ، کل
مدت دو سال مکمل۔ دونوں صورتوں میں سن بدل گئے مگر ایک طرف ایک دن ملا اور
دوسری طرف پورے دو سال۔ جب تک تاریخ اور مہینہ متعین نہ ہو یہ فرق باقی رہ
کر ابہام پیدا کرتا رہے گا۔ آج کل پرنٹ میڈ یا کتنی ترقی کرچکا ہے مگر
کتابوں میں، اخبارات میں، حد تو یہ کہ قرآن کریم کی طباعت و کتابت میں غلطی
ہوجاتی ہے، پہلا دور تو ہاتھوں سے کتابت کا دور تھا، ممکن ہے ’’تسع عشر‘‘
انیس سال عمر مبارک ہو، مگر کتابت کی غلطی سے تسع یا تسعاً رہ گیا اور عشر
کا لفظ کتابت میں ساقط ہوگیا ہو، تسع عشر انیس سال کی جگہ تسعاً یا تسع
یعنی نو سال باقی رہ گیا اور آنے والوں نے نقل درنقل میں اسی کو اختیار
کرلیا کہ نقل کرنے والے اعلیٰ درجہ کے ایماندار، پرہیزگار، علوم وفنون کے
ماہر، صحیح و سقیم میں امتیاز کرنے والے، نہایت محتاط لوگ تھے۔ وجہ سقوط
کچھ بھی ہونا ممکن نہیں۔ حقائق بہر حال حقائق ہوتے ہیں، ان کے چہرے پر گردو
غبار تو پڑسکتا ہے مگر ہمیشہ کے لئے اسے مسخ نہیں کیا جاسکتا۔ احادیث کی
تمام کتب میں ایسے تسامحات کا ازالہ کیا جانا چاہئے تاکہ بد اندیش کو زبان
طعن دراز کرنے کی ہمت نہ رہے۔ |