شیطان ابلیس کا خطاب

ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ اور ہم نے تم کو پیدا کیاپھر تمھاری صورتیں بنائیں پھر حکم کیا فرشتوں کو کہ سجدہ کرو آدم کو پس سجدہ کیا سب نے مگر اابلیس کہ نہ تھا سجدہ کرنے والوں میں، اللہ نے فرمایا کہ تجھ کو کیا امر مانع تھا کہ تو نے سجدہ نہ کیا جب میں نے حکم دیا اس نے کہا ک میں اس سے بہتر ہوں کہ مجھ کو بنایا تو نے آگ سے اور اس کو بنایا مٹی سے، فرمایا اللہ تعالیٰ نے تو اتر یہاں سے تو اس لائق نہیں کہ تکبّر کرے یہاں پس باہر نکل تو ذلیل ہے۔ شیطان نے کہا کہ مجھے مہلت دے اس دن تک کہ لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں، فرمایا تجھ کو مہلت دی گئی۔ ا س نے کہا کہ جیسا تونے مجھے گمراہ کیا ہے میں بھی انکی تاک میں بیٹھوں گا تیری سیدہی راہ پر پھر ان پر آؤں گا انکے آگے سے اور پیچھے سے اور دائیں سے اور بائیں سے اور نہ پائے گا تو اکژ لوگوں کو شکر گزار، اللہ تعالیٰ نے فرمایا نکل یہاں سے برے حال سے مردود ہوکر جو کوئی ان میں سے تیری راہ پر چلے گا تو میں ضرور بھر دوں گا دوزخ کو تم سب سے‘‘(الااعراف:۱۸)

اس بنا پر اب شیطان و انسان کی آپس میں دشمنی ہے اس کی ہرلمحہ یہ کو شش ہوتی ہے کہ انسان کو سیدہی راہ سے بھٹکادے۔ جو شخص دین اسلام کو قبول کرنے کی کوشش کرتاہے اوراسکی تعلیمات پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو شیطان اسکی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے اور اسے اس راہ سے باز رکھنے کی پوری پوری کوشش کرتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ شیطان انسان کے اندر خون کی طرح گردش کرتا ہے اور اسکے دل میں طرح طرح سے وسوسہ اندازی کرتاہے اور اسکے ان کاموں کو جو خلاف شریعت ہوتے ہیں انھیں وہ اسکی نظروں میں صحیح کرکے دکھا دیتا ہے اور اسے اسکا احساس بھی نہیں ہونے دیتا کہ انکا انجام غلط ہے۔

مثلاً جو لوگ بت پرستی کرتے ہیں وہ اسے غلط نہیں سمجھتے اور خود اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے بتوں کو اپنا خدا اور حاجت روا سمجھتے ہیں اور انکی عبادت کرتے ہیں۔ اسی طرح مجوسی لوگ آگ کی پوجا کرتے ہیں اور کائنات میں دو خداؤں کی حکمرانی تسلیم کرتے ہیں یعنی یزدان اور اہرمن اسی طرح دیگر مذاہب کے پیرو کاروں کا حال ہے اگر وہ اپنے عقائد و اعمال کو غلط سمجھتے تو انھیں چھوڑ دیتے مگر شیطان نے انکے دلوں میں یہ بات بٹھادی ہے کہ تم اور تمہارے آباء و اجداد کا مذہبب بالکل صحیح ہے۔

اور جو لوگ مسلمان ہیں ان میں جو لوگ خلاف شرع کام کرتے ہیں تو شیطان ان کاموں کو انکی نظروں میں صحیح کرکے دکھادیتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ تو زمانے کا دستورہے اور اس میں کوئی برائی نہیں۔ مثال کے طور پر جو لوگ رشوت لیتے ہیں وہ اسے رشوت نہیں سمجھتے بلکہ اسے ’’چائے پانی اور اللہ کا فضل‘‘ سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم رشوت مانگتے تھوڑا ہی ہیں بلکہ لوگ خود ہی اسے ہماری جیب میں ڈال دیتے ہیں تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے؟

اور جو سرکاری ملازم رشوت لینے کے عادی ہیں اگر ان سے پوچھا جائے کہ آپکی تنخواہ کتنی ہے ما شاء اللہ؟ تو وہ نہایت متانت سے یہ جواب دیتے ہیں کہ بھائی !تنخواہ تو تھوڑی ہے مگر ’’اوپر سے‘‘ اللہ میاں کا بڑا فضل ہے۔ اسی طرح اجناس میں ملاوٹ کرنے والے بھی اس کام کو صحیح سمجھتے ہیں اور بلا خوف و خطر کرتے ہیں انکے نزدیک چائے میں چنے کے چھلکے، سرخ مرچوں میں رنگا ہوا برادہ،مونگ کی دال میں موٹھ وغیرہ ملانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ انکی روزی کا مسئلہ ہے اور اسکے بغیر انکا کام نہیں چلتا۔

اسی طرح فحاشی، عریانی اور ناچ رنگ کو تہذیب و ثقافت کا نام دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ روح کی غذا اور زندہ قوموں کی پہچان ہے اور موسیقی سننے سے روح کے بند دریچے کھل جاتے ہیں۔ یہ سب باتیں اس لئے عرض کی گئی ہیں کہ شیطان نے انسان کے دل میں یہ بات بٹھا دی ہے کہ تم جو کچھ بھی کرتے ہو وہ با لکل جائز اور صحیح ہے۔ اسی طرح انسان کی زندگی بیت جاتی ہے اور اسے اپنے غلط کاموں کا احساس نہیں ہوتا۔

مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ جس شیطان ابلیس کی اطاعت کرتے وہ ساری زندگی گذار دیتا ہے وہ روز قیامت انسان سے اپنی بر۱ئت کا اظہار کر دے گا کہ تم نے دنیا میں جو غلط کام کئے ہیں وہ اپنی مرضی و اختیار سے کئے ہیں اور اس میں میرا کوئی قصور نہیں۔قرآن پاک میں یہ بات بیان کی گئی ہے’’اور شیطان کہے گا جب فیصلہ ہو جائے گا سب کاموں کا کہ اللہ نے تم کو سچا وعدہ دیا تھا اور میں نے بھی تم سے ایک وعدہ کیا تھا پھر جھوٹا کیا اسکو اور میری تم پر کوئی حکومت نہ تھی مگر یہ کہ میں نے بلایا تم کو پھر تم نے مان لیا میری بات کو پس الزام نہ دو مجھ کو اور الزام دو اپنے آپ کو نہ میں تمھاری فریاد کو پہنچوں اور نہ تم میری فریاد کو پہنچو میں منکر ہوں اس سے جو تم نے مجھ کو شریک بنایا تھا اس سے پہلے اور جو ظالم ہیں انکے لئے دردناک عذاب ہے‘‘(ابراہیم:۲۲) ۔

ہم دنیا میں جو غلط کام کرتے ہیں تو اسکا الزام شیطان کو دیتے ہیں کہ اس نے ہمیں بہکایا تو ہم نے یہ غلط کام کئے یا ہم شیطان کے بہکاوے میںآگئے تھے تو ہم سے ایسا ہو گیا اور اپنی کسی غلطی کو تسلیم نہیں کرتے گویا ہم فرشتے ہیں اور کوئی غلطی نہیں کرتے اور ہر قسم کے غلط کام ہم سے شیطان ہی کرواتا ہے۔
مثلاً کوئی شخص اگر نماز نہیں پڑھتا، روزہ نہیں رکھتا، غلط بیانی یا کسی غلط کاری میں مبتلا ہے تو سب کا ذمہ دار وہ شیطان ہی کو ٹھراتا ہے مگر یہ بات تو تب صحیح ہو کہ اللہ تبارک و تعالیٰ روز قیامت تمام انسانوں کا حساب لینے کی بجائے صرف شیطان ہی کو پکڑلیں اور کہیں کہ تو نے میرے بندوں کو بہکایا ااور انھیں برائی میں مبتلا کیا وہ تو سب میرے فرمانبردار بندے تھے مگر تو نے انھیں گمراہ کر کے چھوڑا لہٰذا اب تو ہی ان سب کی طرف سے سزا بھگت! اور پھر اسے دوزخ میں ڈال دیا جائے! مگر ایسا نہیں ہو گا کیونکہ اللہ تبارک و تعالی ٰنے انسان کو ایک ایسی روشنی عطا کی ہے کہ جس سے وہ اپنے برے بھلے کی پہچان کر سکتا ہے چنانچہ فرمایا ’’ ہم نے انسان کو دو ابھرے ہوئے ٹیلوں (نیکی اور بدی) کی راہ دکھائی‘‘(القرآن) اور پھرانسان کو اسکا اختیار بھی دیا گیا ہے کہ وہ دونوں راستوں میں سے اپنے لئے ایک راستہ کا انتخاب کر لے۔

لہٰذا روز قیامت حساب و کتاب انسان کے اچھے اور برے اعمال کی بنیاد پر ہوگا نہ کہ شیطان کے بہکاوے پر!! لہٰذا آج وقت ہے کہ ہم اپنے اعمال کا جائزہ لیں کہ ہم کس طرف جارہے ہیں آیا ہمارے اعمال شریعت کے مطابق ہیں یا شیطان کی اطاعت گذاری میں؟
Muhammad Rafique Etesame
About the Author: Muhammad Rafique Etesame Read More Articles by Muhammad Rafique Etesame: 196 Articles with 320865 views
بندہ دینی اور اصلاحی موضوعات پر لکھتا ہے مقصد یہ ہے کہ امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے فریضہ کی ادایئگی کیلئے ایسے اسلامی مضامین کو عام کیا جائے جو
.. View More