عالمی اردو کانفرنس۲۰۱۰ء جامعہ سرگودھا ۔میری زندگی کے یاد گار لمحات
(Dr Rais Samdani, Karachi)
(جامعہ سرگودھا کے شعبہ اردو کے
زیر اہتمام منعقد ہونے والی عالمی اردو کانفرنس بہ عنوان ’اردو زبان اور
عصر ی آگہی‘ میں شرکت میری زندگی کے یادگار لمحات تھے۔ اس وقت میں جامعہ کے
شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنسز میں استادکی حیثیت سے منسلک تھا رہائش
جامعہ کے ٹیچرز ہاسٹل میں تھی چنانچہ کانفرنس کے تقریباً تمام ہی اجلاسوں
میں شرکت کا موقع ملا۔ کانفرنس کی روداد اسی وقت لکھ لی تھی اور اردو کے
ایک ادبی مجلے ’نگارِ پاکستان ‘ میں شائع ہوچکی ہے)
یونیورسٹی آف سرگودھا کے زیر اہتمام دوروزہ انٹر نیشنل اردو کانفرنس ۳۔۴
نومبر ۲۰۱۰ء کو جامعہ کے ایم بی اے ہال میں منعقد ہوئی، کانفرنس کا موضوع
تھا ’اردو زبان اور عصری آگہی‘۔کانفرنس کو بلاشبہ ایک تاریخ ساز کانفرنس
اورایک موثر اقدام قرار دیا سکتا ہے۔شاہینوں کے شہر سرگودھا میں اردو زبان
کے حوالے سے اس نوع کا بین الا اقوامی اجتماع اور بڑی تعداد میں بیرون ملک
اور اندرون ملک کے اہل علم ودانش کا یکجا ہونا اور ادبی و تحقیقی مقالات
پیش کرنا ،خیالات وا فکارکا تبادلہ کرنا، اردو زبان کی ترقی اور فروغ کے
لیے اجتمائی آواز بلند کرنا اور مکالمہ کی صورت ترتیب دینا قابل تعریف بات
ہی نہیں بلکہ ایک تاریخی واقعہ ہے۔
کسی بھی جامعہ میں علمی ، ادبی، تحقیقی اور تعلیمی سرگرمیوں کا فروغ اس
جامعہ کے سربراہ کا مرہون منت ہوا کرتا ہے۔ جامعہ سرگودھا اس اعتبار سے خوش
قسمت ہے کہ اُسے ایک علم دوست، علم پرور، ادیب و محقق اور عربی زبان کے
عالم کی سربراہی نصیب ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چودھری نام ہے ایک ایسی
شخصیت کا کہ جس نے جامعہ سرگودھا کی سربراہی سنبھالتے ہی اسے پاکستان کی
دیگر بڑی اور نامور جامعات کی صف میں لا کھڑا کیا، ایچ ای سی کی رپورٹ
برائے سال ۲۰۱۰ء کے مطابق علم و تحقیق میں جامعہ سرگودھاپاکستان بھر کی
تمام جامعات میں آٹھویں نمبر پر ہے۔وہ ایک نفیس انسان اور محنت پر یقین
رکھنے والے انسان ہیں۔ بقول عطاء الحق قاسمی ’وہ صرف اسکالر ہی نہیں بلکہ
نہایت خلیق اور منکسر المزاج انسان بھی ہیں‘۔ انٹر نیشنل اردو کانفرنس
دراصل محترم شیخ الجامعہ کی فکراور اردو زبان سے ان کی محبت و عقیدت کا
عملی مظہر ہے۔
سرگودھا جیسے شہر میں جہاں عوام الناس کے لیے ائر پورٹ کی سہولت بھی میسر
نہیں‘ انٹر نیشنل اردو کانفرنس کا خواب شرمندہ تعمیر نہیں ہوسکتا تھا اگر
شعبہ اردو اور کانفرنس کے انعقاد میں اردوکی ایک نامور شخصیت کی عملی
جدوجہد شامل نہ ہوتیں ، وہ شخصیت ہے پروفیسر ڈاکٹر طاہر تونسوی صاحب کی۔ جن
کے بارے میں پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے کہا کہ ’ وہ طبعناً فعال
شخصیت ہیں اور جس کام کو ہاتھ لگاتے ہیں اس کو ہر زاویے سے قابل توجہ بنا
دیتے ہیں‘۔ عطاء الحق قاسمی نے روزنامہ جنگ میں اپنے کالم ’روزنِ ددیوار سے‘
میں تونسوی صاحب کے بارے میں لکھا کہ ’یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی خو ش
قسمتی ہے کہ اسے ڈاکٹر طاہر تونسوی جیسا ایک فعال سربراہ میسر ہوا۔ شوگر کا
مرض انسان کو بے بس بنا کر رکھ دیتا ہے لیکن طاہر تونسوی نے شوگر کو بے بس
بنا کر رکھا ہوا ہے۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ انہوں نے متذکرہ کانفرنس
کی کامیابی کے لیے دن رات ایک کر دیئے تھے۔سو اﷲ تعالیٰ کسی کی محنت کو
رائیگاں نہیں جانے دیتا اور اس بار بھی ایسے ہی ہواـ۔قاسمی صاحب کا کانفرنس
کو کامیاب قراردیناسو فیصد درست ہے۔ میں کانفرنس کی تیاریوں سے لے کر
کانفرنس کے اختتامی اجلاس تک ڈاکٹر طاہر تونسوی کی شب و روز کی تگ و دو کا
چشم دید گواہ ہوں، کیونکہ ڈاکٹر طاہر تونسوی اور میں جامعہ سرگودھا کے
ٹیچرز ہاسٹل کے مکین ہیں، وہ کمرہ نمبر ۲اور میں کمرہ نمبر ۵ کا رہائشی
ہوں،ہماری شامیں ایک ساتھ گزرتی ہیں۔اس کی ایک وجہ غالباً عمر میں یکسانیت
اور ہم مزاج ہونا ہے،ڈاکٹرتو نسوی نے جس دن سے کانفرنس کا ڈول ڈالا تھا وہ
مسلسل اس کی کامیابی کے لیے متحرک نظر آئے،آخری دنوں میں انتظامی امور کا
اتنا دباؤ تھا کہ وہ اکثر پریشان بھی نظر آتے لیکن وہ معاملات کو مہارت کے
ساتھ حل کرنے کا سلیقہ رکھتے ہیں۔ وہ بڑی خوبیوں اور صلاحیتوں کے مالک
ہیں۔کانفرنس کی کامیابی ان کی اور ان کی ٹیم کی محنت کا ثمرہے۔
شاہینوں کا شہرسرگودھا اردو کے حوالہ سے ایک نئی تاریخ رقم کرنے جارہا
تھاجہاں بھارت، بنگلہ دیش، مصر، امریکہ کے علاوہ پاکستان کے تمام بڑے شہروں
سے تعلق رکھنے والے اہل علم و دانش کی بڑی تعداد اردو زبان کی قدر میں
اضافہ کرنے جارہی تھی ،جامعہ سرگو دھا کو یہ اعزاز مل نے جارہا تھا کہ وہ
پنجاب کے دو دریاؤں کے بیچ واقع اس شہر کو عالمی سطح پر متعارف
کراسکے۔مندوبین ۳نومبر کی صبح سے ہی آڈیٹوریم میں جمع ہو ناشروع ہوگئے تھے،
یونیورسٹی کے علمی ،ادبی اور سر سبز و شاداب فضا ء کو ادبی ستاروں نے
چارچاند لگا دئے تھے۔ کانفرنس گاہ خوبصورت منظر پیش کررہی تھی، کانفرنس کے
آغاز کا وقت قریب آیا، شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چودھری معزز
مہمانوں کے ہمراہ اسٹیج پر تشریف لائے اور کرسی ٔ صدارت پر جلوا افروز
ہوئے، ان کے ہمراہ مہمان محترم بھی اسٹیج پر تشریف فرما ہوئے، کانفرنس کے
روح رواں معروف استاد، محقق و دانش وصدر شعبہ اردو ،جا معہ سرگودھا پروفیسر
ڈاکٹر طاہر تونسوی صاحب نے افتتاحی اجلاس کی نظامت کے فرائض انجام دیئے ۔آپ
نے کہا کہ ہم اہل علم اور اہل قلم اور صاحب دل ونظر کی اس کہکشاں میں شامل
روشن اور چمکتے ہوئے ستاروں کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔اس موقع پر آپ نے جی
آیاں نوں، آوے وے سئیں ، اَکھیں ٹھرن، دل خوش تھیوے، پخیر راغلے، میں قربان
کہہ کر معزز مہمانان کو خوش آمدید کہا۔آپ نے کہا کہ یہ جو میلہ سرگودھا میں
سج گیا ہے ایک ایسی تاریخ رقم کررہا ہے جو تازیست اردو ادب کی تاریخ کے
ماتھے کا جھومر ثابت ہوگی ا ور اس کے دور رس نتائج نکلیں گے۔
شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چودھری نے اپنے صدارتی خطاب میں
مندوبین کی آمد کا شکریہ ادا کیا، آپ نے فرمایا کہ اردو دنیا کی چند بڑی
زبانوں میں سے ایک ہے اور بہت سے ممالک میں اس کے بولنے اور سمجھنے والے
موجود ہیں۔جو قومیں اپنی زبان سے پیارنہیں کر تیں انجام کار وہ عالمی سطح
پر گونگی ہوجاتی ہیں اور ان کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔آپ نے کہا کہ
سرگودھا یونیورسٹی نے جہاں سائنسی و تحقیقی حوالوں ست ملک بھر میں اپنی
شناخت کو مستحکم کیا ہے وہاں سماجی اور لسانی علوم کی ترقی اور فروغ کے لیے
ہمہ وقت مصروف عمل ہے اور اردو کانفرنس کا انعقاد بھی اسی سلسلے کی اہم کڑی
ہے۔
کانفرنس کی پہلی نشست کا موضوع ’اردو زبان اور عصری آگہی‘ تھا۔ اس نشست کی
صدارت شیخ الجامعہ نے کی ، مہمان اعزازاردو کے عالمی شہرت یافتہ ادیب و
دانشور ڈاکٹر خلیق انجم تھے جو بھارت سے تشریف لائے تھے ، آپ کے مقالے کا
عنوان تھا ’آزادی کے بعد برِصغیر میں اردو کے مسائل‘، معروف شاعر افتخار
عارف نے ’اردو زبان اور عصری شعور ‘ کے حوالہ سے گفتگو کی،آپ نے کہا زبانیں
قوموں کی پہچان ہوا کرتی ہیں اور کوئی بھی قوم اپنی شناخت کے بغیر زندہ
نہیں رہ سکتی ۔معروف ادیب ڈاکٹر سلیم اختر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کوئی
بھی زبان عصری آگہی کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی کیوں کہ یہ زبان کی سماجی
ضرورت ہے، آپ کے مقالہ کا عنوان تھا’اردو زبان اور عصری آگہی کا تنا
ظر‘۔ڈاکٹر ابراہیم محمد ابرہیم جن کا تعلق مصر سے تھا کے مقالہ کا موٖضوع
تھا ’مصر میں اردو‘آپ نے کہا کہ اردو کا غیر ملکی سفر ایک کامیاب سفر ہے
کیونکہ مصر میں اردو کی تاریخ ۷۵ سال پر محیط ہے۔ کراچی سے آئے ہوئے معروف
استاد، شاعر و ادیب پروفیسر سحر انصاری کے مقالہ کا موضوع تھا ’اردو غزل
اور اور عصر آگہی‘۔آپ نے کہا کہ اردو غزل مسلسل ترقی کی جانب گامزن ہے،
تاہم اس کی بعض مجبوریا ں بھی ہیں، جیسے ہم یہ شعر کہ ’تم میرے پاس ہوتے ہو
گویا جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا‘، اسی طرح کہا جاسکتا تھا اسے اس طرح ہر گز
نہیں کہا جاسکتا کہ ’تم میرے پاس ہوتی ہو گویا جب کوئی دوسری نہیں ہوتی‘
۔سحر صاحب کی اس دلیل پر حاضرین بہت محظوظ ہوئے۔ جامعہ کراچی کے پروفیسر
ڈاکٹر ظفر اقبال کے مقالہ کا موضوع تھا ’کتب کا تنقیدی جائزہ‘۔ملتان سے
تعلق رکھنے والے معروف استاد، شاعر و ادیب پروفیسر ڈاکٹر محمد اسلیم انصاری
نے ’اردو زبان میں عصری آگہی اور شعور‘ کے موضوع پر اظہار خیال کیا۔ڈاکٹر
فخر الحق نوری کا موضوع تھا’اردو زبان پر تحریکوں کے اثرات(ترقی پسند تحریک
کے حوالے سے)،ڈاکٹر سید جاوید اقبال نے ’اردو تنقید اور عصری آگہی‘پر مقالہ
پیش کیا،ڈاکٹر رشید امجد کے مقالہ کا موضوع تھا’اردو افسانہ اور عصری
آگہی‘۔ کانفرنس کی اولین نشست میں نو مقالات پیش کئے گئے۔
کانفرنس کی دوسری نشست کے مہمان خصوصی سینئر مشیر وزیر اعلیٰ پنجاب جناب
سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ تھے، صدارت شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر محمد
اکرم چودھری نے کی۔اس نشست کا موضوع تھا ’اردو اور دیگر زبانوں کے لسانی
روابط‘، جس میں کل سات مقالات پیش کئے گئے ۔ ڈاکٹرانعام الحق جاویدنے ’اردو
اورپاکستانی زبانوں کے لسانی روابط‘ پر ، ڈاکٹر آفتاب اصغر نے’اردو
اورفارسی زبانوں کے لسانی روابط‘ پر، ڈاکٹر روبینہ ترین نے ’اردو
اوردیگرزبانوں کے لسانی روابط‘ پر، ڈاکٹر محمد یوسف خشک نے ’اردو اورسندھی
کی مشترکہ تخلیقی تشکیل‘کے موضو ع پر مقالہ پیش کیا، ڈاکٹر امجد علی بھٹی
نے ’اردو اورپنجابی زبانوں کے لسانی روابط‘پر، حمید الفت ملغانی نے’اردو
اورسرائیکی زبانوں کے لسانی روابط‘ ، پروفیسر شوکت مغل نے ’اردو اورسرائیکی
کی مشترکہ لسانیات ‘پر مقالہ پیش کیا ۔نشست کے اختتام پر مہمان خصوصی سینئر
مشیر وزیر اعلیٰ پنجاب جناب سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ نے اپنے خطاب میں
فرمایا کہ اس قومی اردو کانفرنس کے انعقادسے اردو زبان کی قدر اور اہمیت
میں بے پناہ اضافہ ہوگا۔آپ نے کہا کہ ملک کی دیگر جامعات بھی جامعہ سرگودھا
کی تقلید کرتے ہوئے ایسی مجالس کا اہتمام کریں جس سے ہماری قومی زبان کو اس
کا جائز مقام دلانے میں مدد مل سکے گی۔ اس موقع پر سینئر مشیر وزیر اعلیٰ
پنجاب جناب سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ نے سرگودھا یونیورسٹی کے زیر
اہتمام قائم ہونے والے’’تشخیصی مرکز کا بھی افتتاح کیا۔
عالمی کانفرنس کی تیسری نشست محفل مشاعرہ تھی جو رات گئے شروع ہوئی۔ صدارت
معروف شاعر ،ادیب و دانش ور پروفیسرڈاکٹر محمد اسلم انصاری نے کی جب کہ
مہمان خصوصی بھارت کے شاہد ماہلی اور کراچی کے پروفیسر سحر انصاری تھے۔
محفل مشاعرہ کی نظامت کے فرائض طارق حبیب نے خوبصورتی کے ساتھ انجام دئے۔جن
شعرا نے اپنا کلام سنا یا ان میں عطاء الحق قاسمی،پروفیسرڈاکٹر محمد اسلم
انصاری،سحر انصاری، شاہد ماہلی، یونس اعجاز، ڈاکٹر انعام الحق جاوید،ڈاکٹر
طاہر تونسوی، خالد اقبال یاسر، ڈاکٹر تحسین فراقی، ڈکٹرراشد متین، حسن
عباسی، حرارانا، ڈاکٹر صغریٰ صدف، ڈاکٹر فخرالحق نوری، ارشد ملک، شفیق آصف،
عابد خورشید، عاشر وکیل راؤ، شاکر کنڈان، شیخ محمد اقبال، مقبول نثار ملک،
احمد عبد اﷲ، افتخار عاکف، طارق کلیم، نوشین صفدر، طارق حبیب اور سید
مرتضیٰ حسن نے اپنا کلام سنایا۔ منتخب شعرا کا منتخب کلام:
پروفیسرڈاکٹر محمد اسلمؔ انصاری:
میں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹھہر ا بھی نہیں
حادثہ کیا تھا جسے دل نے بھُلا یا بھی نہیں
وہ تو صدیوں کا سفر کر کے یہاں پہنچا تھا
تونے منہ پھیر کے جس شخص کو دیکھا بھی نہیں
پروفیسرسحرؔ انصاری :
دعائے موسمِ گُل اُن کو ر اس آہی نہیں سکتی
جو شاخِ گُل کے بدلے تازیانہ یاد رکھتے ہیں
عطا ء ؔالحق قاسمی:
میں وہ دعا ہوں عطاجو ہر ایک لب پر ہے
بس اتنا ہے کہ ابھی عرصہء قبول میں ہوں
پروفیسر ڈاکٹر طاہرؔ تو نسوی:
یہ دور اہل قلم پہ بھاری کہ مصلحت کی سبیل جاری
گناہ کو بھی ثواب کہنا ، ببول کو بھی گلاب لکھنا
شاہدؔ ماہُلی :
زخم بھر جائے گا رہ جائیگی تا عمرچھبن
یہ جو کانٹا ہے کسی طور نکل جائے گا
ڈاکٹر تحسین فراقیؔ:
صدائیں سلب ہوئیں کس مقامِ حیِرت پر
کہ میں پکارتا ہوں اور نہ تو پکارتا ہے
خالد اقبال یاسرؔ:
کسی کا کھوٹا نصیب یاسرؔ کسے خبرکس گھڑی کھرا ہو
جلوسِ شاہی کے ساتھ اک بے زباں پیادہ بھی کم نہیں
ڈاکٹر راشد متینؔ:
کیا بستی تھی کون گلی گھر بھول گیا
دستک دینا چاہی تو در بھول گیا
ڈاکٹر صغریٰ صدفؔ:
کرنے ہیں گلے اس سے رنجشِ بھی رکھنی ہیں
پیار بھی ستم گر کو بے شمار کرنا ہے
ڈاکٹر محمد فخرالحق نوریؔ:
دھڑکنوں کا کچھ اعتبار نہیں
اور وہ دھڑکنوں میں رہتا ہے
ڈاکٹرانعام الحق جاویدؔ:
علم کا رعب ٹھیک ہے لیکن
ڈگریوں کا بھی کچھ اثر ڈالو
کر لیا ہے جو تم نے بی اے تو
ساتھ ہی میٹرک بھی کر ڈالو
یونس اعجازؔ:
لپٹ کر میرے بدن سے ہر اجنبی خوشبو
یہ پوچھتی ہے کہ ہم پہلے کہا ملے ہوئے ہیں
طارق حبیب:
کسی بھی رستے میں ایک پل کو رُکی نہیں ہے
ہوا نے اپنی کہی ، ہماری سُنی نہیں ہے
حسن ؔعباسی:
ہجرِ مسلسل اور مسلسل ہجرت بھی
روز مجھے سامان اُٹھا نا پڑتا ہے
ارشد ؔملک:
سارے سورج کے گرد گھومتے ہیں
بس یہی نقص تھا کہا نی میں
شاکرؔ کنڈان:
سوائے جسم کے اب جسم میں رہا کیا ہے
نکل گئی ہے کہیں جاں ، جان میں آکر
عابد خورشیدؔ
کسی کی آنکھ کے بھیگے ہوئے منظرمیں رہتے ہیں
ہمارا گھر نہیں ہے ہم کسی کے گھر میں رہتے ہیں
شفیق آصف:
جس نے سیکھا تھا تکلُّم کا قرینہ مجھ سے
مرے لہجے سے وہ اک شخص بھی انکاری ہے
نوشین توقیر:
میں تیری نوشین ہجر کی گرد سے اٹی ہوں
تو اپنے لہجے کی بارشوں سے اجال مجھ کو
طارق کلیمؔ:
یہ اور بات کہ تجھ سے نہ کہہ سکے کچھ بھی
وگر نہ شہر میں ہم کو کلیم کہتے ہیں
کانفرنس کی چوتھی نشست ۴ نومبر کی صبح منعقد ہوئی اپنے اندر دلچسپی لیے
ہوئے تھی اس کا موضوع تھا ’’اردو زبان کے سماجی عمل میں میڈیا کا
کردار‘‘۔اس نشست کے مہمان خصوصی معروف صحافی ،کالم نگار،دانش ور، سیاسی
تجزیہ نگار اور روزنامہ ’پاکستان لاہور کے مدیر اعلیٰ جناب مجیب الرحمٰن
شامی تھے جب کہ صدارت شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چودھری نے کی،
نظامت کے فرائض پروفیسر ڈاکٹر طاہر تونسوی نے انجام دئے۔قاضی جاوید، ڈاکٹر
حسین احمد پراچہ، ڈاکٹر شبیہ الحسن اور سما ٹیلی ویژن کے حبیب اکرم نے
خوبصورت تقریر کی۔
کانفرنس کی اختتامی نشست جس کی صدارت شیخ الجامعہ نے کی ۔ اس نشست کا موضوع
تھا ’’اردو زبان مسائل اور مکانات‘‘۔ عالمی شہرت یافتہ دانش ور ڈاکٹر خلیق
انجم نے صدارت کی اور پر مغز مقالہ بھی پیش کیا۔ڈاکٹر معین الدین جینا بڑے
’اردو میں تخلیق و تدوین کی رفتار ، ایک تجزیہ‘کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش
کیا، بھارت ہی کے جناب شاہد ماہلی جو غالب اکیڈمی کے روح رواں بھی ہیں کے
مقالہ کا عنوان تھا ’اردو میں غالب شناسی کی روایت‘۔بنگلہ دیش سے آئی ہوئی
دانش ورہ ڈاکٹر کلثوم ابو لبشر نے ’بنگلہ دیش میں اردو زبان کے مسائل اور
امکانات ‘ کے موضوع پر اظہار خیال کیا۔ان کے علاوہ ڈاکٹرمظفر عباس نے
’تدریس اردو کے مسائل‘، ڈاکٹر عطش درانی نے ’اردو کے عمومی مسائل و
امکانات‘، ڈاکٹر نجیب جمال نے ’اردو زبان مسائل اور امکانات عمومی کا
جائزہ‘، ڈاکٹر تحسین فراقی نے اردو میں اقبال شناسی کی روایت: مسائل و
امکانات‘، خالد اقبال یاسر نے ’اردو زبان مسائل اور امکانات‘، ڈاکٹر عبد
الکریم خالد نے ’ اردو زبان مسائل اور امکانات ـ : ایک جائزہ‘، ڈاکٹر صوفیہ
یوسف نے ’ اردو زبان مسائل اور امکانات‘، ڈاکٹر سہیل عباسی نے ’اردو
داستانوں میں کہاوتوں کا منظر نامہ‘ اور ڈاکٹر وحیدالرحمٰن خان نے اردو طنز
و مزاح: مسائل اور امکانات‘ کے موضوعات پر مقالات پیش کئے۔عالمی کانفرنس کے
اختتام پرمختلف قراردادیں
پیش کی گئیں ، ایوان نے ان تمام قراردادوں کو متفقہ طو ر پر منطور کر لیا۔
کانفرنس کے اختتام پر مہمانوں کو اعزازی شیلڈ سے بھی نوازا گیا۔ شیخ
الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چودھری نے معزز مہمانان کی آمد پر اپنی
دلی خوشی کا اظہار کیا اور ان تمام مہمانان کا جو پاکستان سے باہر اور دیگر
شہروں سے تشریف لائے بطور خاص شکریہ ادا کیا۔ کانفرنس کے منتظم اور روح
رواں پروفیسر ڈاکٹر طاہر تونسوی نے بھی مہمانا ن کا شکریہ ادا کیا۔ اس طرح
یہ عالمی اردو کانفرنس دودن جاری رہنے کے بعد اپنے اختتام کو پہنچی۔اس
کانفرنس کے یقینا دیر پا اثرات مرتب ہوں گے۔ سرگودھا میں جامعہ سر گودھا کے
زیر اہتمام منعقد ہونے والی یہ عالمی کانفرنس اردو ادب کی تاریخ کے ایک
سنہرے باب کے طو ر پر یاد رکھی جائے گی۔کانفرنس کی روشن یادیں تا دیر دل و
دماغ کو تازہ رکھیں گے، بقول سحر انصاری ایسے ہی لمحات تو زندگی کا حاصل
ہوتے ہیں۔ |
|