بنیان

تیر ہ سال پہلے میں نے اسے تیس روپے میں خریدا تھا۔ آج کل ایسی بنیان ایک سو تیس روپے میں بھی ملنا مشکل ہے۔ دودھ جیسی سفید رنگت اور چاندی جیسی چمک دمک رکھنے والی یہ بنیان ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ گذر جانے کے باوجود بھی اپنا وقار قائم رکھے ہوئے ہے۔ اتنا وقت گذرجانے کے باوجود مجال ہے اس کا ایک دھاگہ بھی نکلا ہو۔ البتہ اس کا رنگ ضرور سانولا پڑ گیا ہے۔ یہ بنیان میرے بدن کا حصہ بن چکی ہے۔ مجھے اس سے اتنی ہی محبت ہے جتنی سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کو اپنی "کھال" سے تھی ۔ اُس نے تو دباؤ میں آکر اپنی "کھال " اُتار دی تھی، لیکن میں اس معاملے میں کسی بھی قسم کا دباؤ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔حالانکہ مجھے پرویز مشرف سے کہیں زیادہ اندرونی اور بیرونی دباؤ کا سامنا ہے۔

میں اپنی بنیان کے معاملے میں بہت محتاط رہتا ہوں۔کسی کی موجودگی میں اسے اُتار کر کہیں رکھ دینا ایسے ہی ہے جیسے دولت سے بھرا ہوا خزانہ بیچ چوراہے میں رکھ دیا جائے۔مجھے ڈر ہے کہ میں نے جیسے ہی اسے اُتارا، حاسدین اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے۔حاسدین سے مراد میرے اپنے ہیں۔ جو عرصہ دراز سے مجھے میری پسندیدہ بنیان سے محروم کرنے کے درپے ہیں۔ان میں سب سے سرگرم کارکن میری شریک حیات ہے جو میرے اور میری بنیان کے رشتے سے حد سے زیادہ چڑتی ہے۔وہ اُسے میری "بنیان " نہیں بلکہ اپنی "سوتن" سمجھتی ہے۔اور اُسے مجھ سے جدا کرنے کے لیے ہر وقت سازشوں میں لگی رہتی۔وہ اکثر دھونے کا بہانہ کرکے اسے میرے گلے سے اُتروانے کی کوشش کرتی ہے۔لیکن میں اُس کی اس کوشش اور خواہش کو نا کام بنانے میں ہمیشہ کامیاب رہا ہوں۔میری مسلسل کامیابی کا یہ چوتھا سال ہے۔

میں اس بنیان کو اپنے لیے بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں۔کیونکہ اس کی وجہ سے میری شہرت میں بہت اضافہ ہوا ہے۔میں جہاں بھی جاتا ہوں لوگ اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ میرا اس قدر رعب اور دبدبہ ہے کہ ہر کوئی مجھ سے ہاتھ ملاتے ہوئے ڈرتا ہے۔ ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ مجھ سے فاصلہ رکھے۔میں اگر کسی کے زیادہ قریب ہو جاؤں تو اُس کی سانس ہی رک جاتی ہے۔ بل جمع کروانے کے لیے مجھے لائین میں لگنے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔ کیونکہ میرے وہاں جانے سے لائین ہی غائب ہو جاتی ہے۔لوگ میرے خوف سے ادھر اُدھر کھسک جاتے ہیں۔کیشئر کی بھی یہی کوشش ہوتی ہے کہ مجھے جلد از جلد فارغ کر دیا جائے۔ کسی دفتر میں چلا جاؤں تو میرے داخل ہوتے ہی ایئرفریشنر سپرے کے منہ کھول دیے جاتے ہیں۔ جو کام ایک گھنٹے میں ہونا ہوتا ہے، محض پانچ منٹ میں ہو جاتا ہے۔میں تو اسے طلسمی بنیان سمجھتا ہوں ۔ کیونکہ اس نے بہت سے لوگوں کے بند ناک کھولنے کا بھی کام کیا ہے۔

میں نے محسوس کیا کہ بنیان کافی میلی ہو چکی ہے اور اسے دھونے کی اشد ضرورت ہے۔ ایک دن میں گھر میں اکیلا تھا ۔ میں نے اس موقع کو غنیمت جانا ۔ اپنی بنیان کو دھونے کامصمم ارادہ کیا۔ اور اپنے اس عزم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پورا ایک گھنٹہ صرف کیا ۔ اس عمل میں سرف کا ایک پورا پیکٹ صرف ہوا تھا۔ بنیان کا رنگ تو نہ بدلا البتہ پہلے سے ہلکی محسوس ہونے لگی تھی۔ دوپہر کا وقت تھا اور دھوپ بھی کافی تیز تھی ۔ اس لیے میں نے اسے سوکھنے کے لیے چھت کے منڈیر پر لٹکا دیا۔ نصف گھنٹہ گذرجانے کے بعد میں چھت پر گیا تو میرے پاؤں تلے چھت۔۔۔ یعنی زمین نکل گئی۔کیونکہ جہاں پر میں نے اپنی پیاری بنیان لٹکائی تھی وہاں ایک کوا براجمان تھا۔ جبکہ بنیان مبینہ طور پر غائب تھی۔ وہ ہمسائیوں کے صحن میں گری پڑی تھی۔ اُسے سلامت دیکھ کر میری جان میں جان آئی۔ میں فوراً ہمسایؤں کے دروازے پر پہنچا۔ تین چار دفعہ دستک دینے کے بعد ایک بچہ باہر نکلا۔ میں نے آنے کا مقصد بتایا ۔ وہ کچھ دیر کھڑا مجھے گھور کر دیکھتا رہا۔ پھر اندر گیا اور کافی دیر کے بعدباہر آیا۔ اُس کے ایک ہاتھ میں چھڑی تھی جس کے ایک طرف میری بنیان لٹک رہی تھی ۔ اور اُس کا دوسرا ہاتھ اُس کی ناک پر تھا۔ اپنی بنیان کی بے حرمتی دیکھ کر میرے تن بدن میں آگ لگ چکی تھی۔ میرا جی چاہ رہا تھا کہ میں اُس کی اس بد تمیزی اور اپنی قیمتی بنیان کی بے قدری پر چیخ چیخ کر احتجاج کروں ۔ لیکن یہ سوچ کر خاموش رہ گیا کہ اس جمہوری ملک میں فرد واحد کا احتجاج بے سود ہی ثابت ہو گا۔

کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ ان میں میری بنیان بھی شامل ہے۔ لیکن ایسی نایاب چیزوں کی قدر ہر کوئی نہیں جانتا۔ہیرے کی قدرو قیمت جوہری سے بڑھ کر کون جان سکتا ہے ۔ اگر کمہار کے ہاتھ لگ جائے تو وہ اُسے گدھے کے گلے میں ہی ڈالے گا۔کبھی کبھی میں سوچتا ہو ں کہ اسے OLX پر بیچ دوں۔لیکن پھر خیال آتا ہے کہ وہاں تو اس کے قدردانوں کا تانتا بندھ جائے گا۔ ہر کوئی بڑھ چڑھ کر بولی دے گا۔لیکن میں کسی کی دل آزاری نہیں چاہتا۔ میں نہیں چاہتا کہ کوئی ایک شخص اسے حاصل کر لے اور باقی سب منہ دیکھتے رہ جائیں۔میری کوشش ہے کہ ملک و ملت کی بقا کے لیے اسے کسی ایسے ادارے کو پیش کر دیا جائے جس کے توسط سے پوری قوم استفادہ حاصل کر سکے۔اس معاملے میں میری بہت سے قومی اداروں سے بات چیت چل رہی ہے۔ بہت جلد یہ بات سامنے آ جائے گی کہ کون خوش نصیب اس کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ ویسے۔۔۔! عجائب گھر والوں نے بھی پورے سات سو روپے کی پیشکش کی ہے۔آپ کا کیا مشورہ ہے۔۔۔؟؟؟
Ahmad Raza
About the Author: Ahmad Raza Read More Articles by Ahmad Raza: 96 Articles with 100808 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.