ہیلو! میں متھیرا ہوں
(Malik Abdul Rehman Jami, Abbotabad)
میں عمر کے اس حصے میں ہوں جہاں
نیند قسمت سے آتی ہے۔بندہ جاگ جاگ کے ماضی کی بھول بھلیوں میں کھویا رہتا
ہے۔ اس حالت میں اگر کہیں دن کو نیند آ جائے تو یوں جانئیے لاٹری نکل آئی۔
آج میری بھی لاٹری نکلی ہوئی تھی کہ بدبخت موبائل کی گھنٹی بجنے لگی۔موبائل
مہذب دنیا میں تو کہیں رحمت ہوگا پاکستانیوں پہ یہ عذاب کی صورت اترا ہے۔یہ
سہولت کم اور لوٹ مار کا ذریعہ زیادہ ہے۔موبائل سے دہشت گرد دھماکے کرتے
ہیں۔اسے اغواء برائے تاوان کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔نوجوان نسل کو عشق و
عاشقی میں پی ایچ ڈی کرانے کے لئے اب تھری جی اور فور جی بھی پاکستان میں
لانچ کر دیا گیا ہے۔سو روپیہ لوڈ کروائیں تو پچیس روپے اسحاق ڈار صاحب کے
کھاتے میں ڈال دئیے جاتے ہیں۔ آپ کو پتہ ہی نہیں ہوتا اور موبائل کمپنی آپ
کا بیلنس اڑائے جا رہی ہوتی ہے۔ حکومت کو اس کے استعمال سے غرض نہیں۔ انہیں
اس بات سے غرض ہے کہ تھری جی اور فور جی کے بکنے سے کتنے پیسے بیرونی دوروں
کے لئے حاصل ہوئے۔کروڑوں سموں سے اربوں حاصل ہوتے ہیں۔
بات ہو رہی تھی اپنی نیند اور اس کے دوران آ جانے والے فون کی۔فون کی گھنٹی
نے ہماری نیند تو اڑا دی تھی لیکن فون اٹھاتے سمے ہم نے سوچا کہ جو بھی ہوا
آج اس کی خیر نہیں۔ نمبر لیکن چار فگرز میں تھا۔حیرت ہوئی کہ شاید یہ
اوورسیز کال ہے۔ترنت سننے کے لئے بٹن دبایاتو ساتھ ہی مائیک بھی آن ہو گیا۔
بیگم پاس ہی اپنے کام میں مصروف تھیں۔فون سے ایک خاتون کی آواز آئی۔ہیلو
میں متھیرا ہوں۔اگر آپ میرے ساتھ بات کرنا۔۔۔۔اس کے ساتھ ہی میں نے دہشت
زدہ ہو کر فون بند کر دیا۔ جی ہاں بیگم کی دہشت تو تھی ہی ۔متھیراکے ساتھ
اس عمر میں بات کی اپنی ایک دہشت تھی۔دماغ پہ زور ڈالا تو یاد آیا کہ یہ
خاتون شاید کوئی سلیبرٹی ہیں۔جو انگریزی لہجے میں اردو کی ٹانگیں توڑتی ہیں۔
باتھ سے ان کا مطلب باتھ نہیں بات تھی لیکن یہ بات خاتونِ خانہ کو نہیں
سمجھائی جا سکتی۔وہ ابھی تک میری جوانی کو کوس رہی ہے اور میں خواہ مخواہ
چور بنا ہوا ہوں۔خدا جانے متھیرا اس کے بعد نہ جانے کیا کہنا چاہ رہی تھی
اور خدا جانے دوبارہ یہ فون آئے نہ آئے۔
اس سے پہلے ایک دن غلطی سے میں نے موبائل پہ اسی طرح کے ایک میسیج والے
مقابلے کے جواب میں لکھ دیا کہ " چل اؤے"اس کے بعد اگلے ایک ہفتے تک میں سو
نہیں سکا۔ موبائل والے مجھے متواتر میسیج بھیج بھیج کے یہ بتاتے رہے کہ میں
دنیا کا خوش قسمت ترین انسان ہوں کہ میں نے مفت میں ہی پچاس بونس پوائنٹ
جیت لئے ہیں۔بس مجھے چند سوالوں کے جواب دینا ہیں اور ایک بڑا انعام میرا
مقدر ہے۔آپ ایک میسج کر دیں تو ایک اور کمپنی آپ کو چار مزید میسیج کرنے کے
بعد لامتناہی پیغامات بھیجنے کی سہولت آفر کرتی ہے۔رات بھر آفر،سارا دن
آفر،ہفتے بھر کی آفر،پورا مہینہ آفراور اب یہ باتھ کرنے کی آفر۔لوگوں کے
گھر ٹوٹ رہے ہیں۔معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ان آفروں نے ایسے دیدہ اور
نادیدہ ،گفتنی اور ناگفتنی عذاب ہمارے معاشرے پہ مسلط کر دئیے ہیں کہ اﷲ کی
پناہ۔
اس پر ستم یہ کہ اب ان موبائلز کے توسط سے مارکیٹنگ بھی شروع ہو گئی
ہے۔ٹیوشن پڑھانے والے،اے سی بیچنے والے اور پرانے اے سی خریدنے والے،ہار
سنگھار کرنے والے،پانی کی ٹینکیاں صاف کرنے والے،دیمک کا خاتمہ کرنے
والے،کون سا ایسا کاروبار ہے جس کے لئے موبائل اب استعمال نہیں ہوتا۔آپ فون
آف بھی نہیں کر سکتے کہ کہیں کوئی ضروری کال اس چکر میں مس نہ ہو جائے۔
کہیں کوئی بوڑھا باپ اپنی بیٹی کی کال کی آس لگائے ہمہ تن گوش ہوتا ہے تو
کہیں کسی پردیسی کی ماں ہر آنے والے میسیج اور ہر بجنے والی گھنٹی کو اپنے
بیٹے کا سندیس سمجھ کے موبائل کی طرف لپکتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ سر کی
جوئیں مارنے کی دوائی بیچنے والوں کا پیغام تھا۔جس طرح ہمارے ہاں دوسرے
شعبوں میں مادر پدر آزادی ہے اسی طرح موبائلز بھی اس آزادی کا شہکار
ہیں۔دوسری طرف حکومت نے ان کمپنیوں کو صرف کمائی کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔
قوانین اور ادارے موجود ہیں۔ اربوں روپے کی تنخواہیں ان ریگولیٹری اداروں
کو ادا کی جا رہی ہیں لیکن مجال ہے کہ کبھی ان اداروں نے کوئی سروے کیا ہو۔
کبھی صارفین کے مسائل جاننے کی کوشش کی ہو۔ کبھی کوئی کوشش اس ضمن میں کی
ہو کہ ان آفروں کے معاشرے پہ کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں؟ کیسے لوگوں کی
زندگی عذاب بن رہی ہے؟
ہم نے قوانین کو نظر انداز کرنے کی بہت سزا بھگتی ہے اور مسلسل بھگت رہے
ہیں لیکن اس کے باوجود قانون کی عملداری یقینی بنانے کی طرف کوئی دھیان
نہیں دیتا۔ اگر یہی حال رہا تو معاشرہ تو برباد ہو گا ہی کل کلاں کو اس
روئیے سے ملک کا وجود بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ حکومت کو چاہئیے کہ ملک میں
قانون کی عملداری کو یقینی بناتے ہوئے ان موبائل کمپنیوں کو لگام دے ۔انہیں
کسی قاعدے قانون کا پابند بنایا جائے۔ مجھے پتہ ہے کہ یہ ہذیان بھی صدا
بصحرا ثابت ہو گا اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔ حکومت اتنا سننے والی
ہوتی تو طاہر القادری کے انتخابی اصلا حات کے واویلے اور عمران خان کے چار
حلقے کھولنے کے مطالبے کو نہ سن لیتی۔لگتا ہے اس معاملے میں حکومت کے ساتھ
وہی کچھ ہو گا جو ججوں کے معاملے میں زرداری حکومت کے ساتھ ہوا تھا یعنی سو
جوتے بھی اور پھر اس کے بعد پیاز بھی۔ |
|