شب برات : رحمت ،برکت، مغفرت اور فضل وکرم کی انوکھی رات
(عطاءالرحمن نوری, MALEGAON DIST.NASIK MAHARASHTRA INDIA)
ماہِ شعبان کی پندرہویں رات کو شبِ برات
کہا جاتا ہے شب کے معنی ہیں رات اور برات کے معنی بری ہونے اور قطع تعلق
کرنے کے ہیں۔ چونکہ اس رات مسلمان توبہ کرکے گناہوں سے قطع تعلق کرتے ہیں
اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بے شمار مسلمان جہنم سے نجات پاتے ہیں اس لیے
اس رات کو شبِ برات کہتے ہیں۔ اس رات کو لیلة المبارکہ یعنی برکتوں والی
رات، لیلة الصک یعنی تقسیم امور کی رات اور لیلةالرحمة یعنی رحمت نازل ہونے
کی رات بھی کہا جاتا ہے۔جلیل القدر تابعی حضرت عطاءبن یسار رضی اللہ تعالیٰ
عنہ فرماتے ہیں:”لیلة القدر کے بعد شعبان کی پندرھویں شب سے افضل کوئی رات
نہیں“۔ (لطائف المعارف ص ۵۴۱)جس طرح مسلمانوں کے لیے زمین میں دو عیدیں
ہیں۔اسی طرح فرشتوں کے آسمان میں دو عیدیں ہیں ،ایک شبِ برات اور دوسری شبِ
قدر ۔ فرشتوں کی عیدیں رات کو اس لیے ہیں کہ وہ رات کو سوتے نہیں جب کہ
آدمی رات کو سوتے ہیں اس لیے ان کی عیدیں دن کو ہیں۔ (غنیة الطالبین ص ۹۹۴)
تقسیمِ امور کی رات
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”قسم ہے اس روشن کتاب کی بے شک ہم نے اسے برکت والی
رات میں اتارا، بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں اس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر
حکمت والا کام“۔ (الدخان ۲تا ۴،کنزالایمان) اس رات سے مراد شبِ قدر ہے یا
شبِ برات (خزائن العرفان) ان آیات کی تفسیر میں حضرتِ عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ
عنہ اور بعض دیگر مفسرین نے بیان کیا ہے کہ ”لیلةمبارکة“سے پندرہ شعبان کی
رات مراد ہے۔ اس رات میں زندہ رہنے والے ، فوت ہونے والے اور حج کرنے والے
سب کے ناموں کی فہرست تیار کی جاتی ہے اور جس کی تعمیل میں ذرا بھی کمی
بیشی نہیں ہوتی۔ اس روایت کو ابن جریر، ابن منذر اور ابنِ ابی حاتم نے بھی
لکھا ہے۔ اکثر علماءکی رائے یہ ہے کہ مذکورہ فہرست کی تیاری کا کام
لیلةالقدر میں مکمل ہوتا ہے۔ اگرچہ اس کی ابتداءپندرہویں شعبان کی شب سے
ہوتی ہے۔ (ماثبت من السنہ ص۴۹۱)علامہ قرطبی مالکی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے
ہیں: ایک قول یہ ہے کہ ان امور کے لوحِ محفوظ سے نقل کرنے کا آغاز شبِ برات
سے ہوتا ہے اور اختتام لیلة القدر میں ہوتا ہے۔ (الجامع الاحکام القرآن ج
۶۱ ص۸۲۱)یہاں ایک شبہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ امور تو پہلے ہی سے لوح محفوظ
میں تحریر ہیں پھر اس شب میں ان کے لکھے جانے کا کیا مطلب ہے؟ جواب یہ ہے
کہ یہ امور بلاشبہ لوح محفوظ میں تحریر ہیں لیکن اس شب میں مذکورہ امور کی
فہرست لوح محفوظ سے نقل کرکے ان فرشتوں کے سپرد کی جاتی ہے جن کے ذمہ یہ
امور ہیں۔چونکہ یہ رات گذشتہ سال کے تمام اعمال بارگاہِ الہٰی میں پیش ہونے
اور آئندہ سال ملنے والی زندگی اور رزق وغیرہ کے حساب کتاب کی رات ہے اس
لیے اس رات میں عبادت الہٰی میں مشغول رہنا رب کریم کی رحمتوں کے مستحق
ہونے کا باعث ہے اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہی تعلیم
ہے۔
مغفرت کی رات
شبِ برات کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس شب میں اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم
سے بے شمار لوگوں کی بخشش فرما دیتا ہے ۔آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب آسمانِ دنیا پر
(اپنی شان کے مطابق) جلوہ گرہوتاہے اور قبیلہ بنو کلب کی بکریوںکے بالوں سے
زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتاہے۔ (ترمذی جلد ۱ص۶۵۱، ابن ماجہ ص۰۰۱، مشکوٰة
جلد ۱ص ۷۷۲)۔اس مقدس شب میںرب قدیر ہرکسی کی مغفرت فرمادیتا ہے سوائے
کافر،مرتد،والدین کانافرمان،کاہن،نجومی،جادوگر،فال نکالنے
والے،قاتل،جلّاد،رشتہ کاٹنے والے ، کینہ ور،عادی سود خور،زناکے عادی،ناجائز
محصول وصول کرنے والے،عادی شرابی،باجہ بجانے والے،گویّااور متکبر شخص کی۔یہ
وہ لوگ ہیں کہ اپنے اپنے گناہوں سے توبہ کیے بغیر ان کی مغفرت نہیں ہوتی۔
پس ایسے لوگوں کو چاہیے کہ اپنے اپنے گناہوں سے جلد از جلد سچی توبہ کرلیں
تاکہ یہ بھی شب برات کی رحمتوں اور بخشش و مغفرت کے حقدار ہوجائیں۔
رحمت کی رات
شبِ برات فرشتوں کو بعض امور دئیے جانے اور مسلمانوں کی مغفرت کی رات ہے اس
کی ایک او ر خصوصیت یہ ہے کہ یہ رب کریم کی رحمتوں کے نزول کی اور دعاؤں کے
قبول ہونے کی رات ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ غیب
بتانے والے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:جب شعبان کی
پندرھویں شب ہو تورات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو کیونکہ غروب آفتاب
کے وقت سے ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت آسمان دنیا پر نازل ہوجاتی ہے اور اللہ
تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے، ہے کوئی مغفرت کا طلب کرنے والا کہ میں اسے بخش
دوں، ہے کوئی رزق مانگنے والا کہ میں اس کو رزق دوں ،ہے کوئی مصیبت زدہ کہ
میں اسے مصیبت سے نجات دوں ، یہ اعلان طلوع فجر تک ہوتا رہتا ہے۔ (ابنِ
ماجہ ص۰۰۱، مشکوٰة ج ۱ ص ۸۷۲)اس حدیث پاک میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مغفرت
و رحمت کی ندا کا ذکر ہے اگرچہ یہ ندا ہر رات میں ہوتی ہے لیکن شبِ برات
میں خاص بات یہ ہے کہ اس میں یہ ندا غروب آفتاب ہی سے شروع ہوجاتی ہے ،گویا
صالحین اور شب بیدار مومنوں کے لیے تو ہر رات شبِ برات ہے مگر یہ رات
خطاکاروں کے لیے رحمت و عطا اور بخشش و مغفرت کی رات ہے اس لیے ہمیں چاہئے
کہ اس رات میں اپنے گناہوں پر ندامت کے آنسو بہائیں اور ربِ کریم سے دنیا و
آخرت کی بھلائی مانگیں۔ اس شب رحمتِ خداوندی ہر پیاسے کو سیراب کردینا
چاہتی ہے اور ہر منگتے کی جھولی گوہرِ مراد سے بھر دینے پر مائل ہوتی ہے۔
بقول اقبال، رحمت الہٰی یہ ندا کرتی ہے
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے راہرو منزل ہی نہیں |
|