شبِ برا ت میں ایصالِ ثواب کی شرعی حیثیت
(عطاءالرحمن نوری مبلغ سنی دعوت اسلامی،مالیگاﺅں, MALEGAON DIST.NASIK MAHARASHTRA INDIA)
شب برات میں زیارت قبوروایصال ثواب کااہتما م کریں
ماہِ شعبان کی پندرہویں رات کو شبِ برات کہا جاتا ہے شب کے معنی ہیں رات
اور برات کے معنی بری ہونے اور قطع تعلق کرنے کے ہیں۔ چونکہ اس رات مسلمان
توبہ کرکے گناہوں سے قطع تعلق کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بے شمار
مسلمان جہنم سے نجات پاتے ہیں اس لیے اس رات کو شبِ برات کہتے ہیں۔ اس رات
کو لیلة المبارکہ یعنی برکتوں والی رات، لیلة الصک یعنی تقسیم امور کی رات
اور لیلةالرحمة یعنی رحمت نازل ہونے کی رات بھی کہا جاتا ہے۔اس شب
میںمسلمانوں کی اکثریت اپنے مرحومین کے لئے ایصال ثواب اور نذرونیاز
کااہتمام کرتی ہیں،اپنی بگڑی کوسنوارنے کے لئے مزارات اولیاءکی زیارت
کوجاتے ہیں اور اپنی من کی مرادیں پاتے ہیں۔ایسے مبارک موقع پر چند ایسے
سوالات معاشرے میں گردش کرنے لگتے ہیں جس کی وجہ سے ایک عام مسلمان شش وپنج
میں مبتلاہوجاتاہے۔اس ذہنی خلجان کودور کرنے لے لئے چند روایتیں سپرد قلم
ہیں۔غیراللہ سے مددمانگنے کاثبوت قرآنی آیات اور احادیثِ صحیحہ اور اقوال
فقہاءومحدثین اور خودمخالفین کے اقوال سے ہے۔
قرآن کریم میں ہے:کہامسیح نے کون ہے جومددکرے میری طرف اللہ کے دین
میں،کہاحواریوں نے ہم مددکریں گے اللہ کے دین کی۔اس میں فرمایاگیاکہ حضرت
عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے حواریوں سے خطاب کرکے فرمایاکہ میرامددگارکون
ہے؟یعنی حضرت مسیح نے غیراللہ سے مددطلب کی۔ایک اور مقام پر ارشادِ ربانی
ہے:مددکروایک دوسرے کی اوپر نیک کاموں کے اور تقویٰ کے اور نہ مددکرو ایک
دوسرے کی اوپرگناہ اور زیادتی کے۔اس آیت میں ایک دوسرے کی مددکاحکم
دیاگیا۔مزیدفرمایا:اگرمدد کروگے تم اللہ کے دین کی مدد کرے گاوہ تمہاری۔اس
میں خود رب تعالیٰ نے جوکہ غنی ہے اپنے بندوں سے مدد طلب فرمائی۔اس طرح کی
بہت سی آیات ہیں جن میں غیراللہ سے مددکاذکر ہے۔”مشکوٰة باب السجود وفضلہ“
میںحضرت ربیعہ ابن کعب اسلمی سے بروایت مسلم حضور علیہ الصلوة والسلام نے
مجھ سے فرمایا:کچھ مانگ لومیں نے کہاکہ میں جنت میں آپ کی ہمراہی
مانگتاہوں۔فرمایاکچھ اور مانگنا ہے۔میں نے کہاصرف یہی، فرمایا اپنے نفس پر
زیادہ نوافل سے میری مددکر۔اس سے ثابت ہواکہ حضرت ربیعہ نے حضورﷺ سے جنت
مانگی تو یہ نہ فرمایاکہ تم نے خداکے سوامجھ سے جنت مانگی تم مشرک
ہوگئے،بلکہ فرمایاوہ تو منظورہے کچھ اور بھی مانگو۔یہ غیرِ خدا سے
مددمانگناہے۔پھرلطف یہ ہے کہ حضور ﷺبھی فرماتے ہیں:اے ربیعہ تم بھی اس کام
میری اتنی مددکروکہ زیادہ نوافل پڑھاکرو۔یہ بھی غیراللہ سے طلبِ مددہے۔
تفسیر کبیرمیںہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے
کہ جوکوئی جنگل میں پھنس جائے تو کہے اے اللہ کے بندو!میری مددکرورب تم
پررحم فرمائے۔تفسیر روح البیان سورہ مائدہ پارہ۶زیرآیت”ویسعون فی الارض
فسادا“کہ شیخ صلاح الدین فرماتے ہیںکہ مجھ کورب نے قدرت دی ہے کہ میں آسمان
کوزمین پرگرادوں،اگر میں چاہوں توتمام دنیاوالوں کوہلاک کردوں اللہ کی قدرت
سے لیکن ہم اصلاح کی دعاکرتے ہیں۔شاہ عبدالعزیز صاحب تفسیر فتح العزیز صفحہ
۰۲ پرفرماتے ہیں:سمجھناچاہئے کہ کسی غیر سے مددمانگنابھروسہ کے طریقہ پر کہ
اس کومددالٰہی نہ سمجھے حرام ہے اور اگرتوجہ حق تعالیٰ کی طرف ہے اور اس
کواللہ کی مددکاایک مظہرجان کراور اللہ کی حکمت اور کارخانہ اسباب جان کراس
سے ظاہری مددمانگی توعرفان سے دور نہیں ہے اور شریعت میں بھی جائز ہے اور
اس قسم کی استعانت بالغیرانبیاءواولیاءنے بھی کی ہے لیکن حقیقت میںیہ حق
تعالیٰ کے غیر سے مانگنانہیں ہے بلکہ اس کی مدد ہے۔
اللہ پاک نے اپنے مقبول بندوں کے سپرد بھی عالم کاانتظام کیا اور ان
کوخصوصی اختیارات عطافرمائے۔کتب تصوف دیکھنے سے پتہ چلتاہے کہ اولیاءاللہ
کے کتنے طبقے ہیںاور کس کے ذمے کون کون سے کام ہیں۔اس کی وجہ یہ نہیں کہ رب
تعالیٰ ان کا محتاج ہے،نہیں بلکہ آئینِ سلطنت کایہی تقاضاہے۔پھر ان حضرات
کوخصوصی اختیارات دیئے جاتے ہیں۔جس کی وجہ سے وہ فرماتے ہیں کہ ہم یہ
کرسکتے ہیں۔یہ محض ہمارا قیاس نہیں ہے بلکہ قرآن وحدیث اس پرشاہدہیں۔حضرت
جبریل علیہ السلام نے حضرت مریم سے کہا:اے مریم! تمہارے رب کاقاصد
ہوں،آیاہوںتاکہ تم کوپاک فرزند دوں۔معلوم ہواکہ حضرت جبریل بیٹادیتے
ہیں۔حضرت مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں:میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے کی شکل
بناکراس میں پھونکتاہوںتووہ خداکے حکم سے پرندہ بن جاتاہے۔معلوم ہواکہ حضرت
مسیح باذن الٰہی بے جان کوجان بخشتے ہیں۔ایک مقام پرفرمایاگیا:فرمادوکہ تم
کوملک الموت وفات دیں گے جوتم پرمقرر کئے گئے ہیں۔معلوم ہواکہ حضرت عزرائیل
جاندار کوبے جان کرتے ہیں۔اور بھی اس قسم کی بہت سی آیات ملیں گی جس
میںخدائی کاموں کوبندوںکی طرف نسبت کیاگیاہے۔قرآن وحدیث کے مطالعے سے معلوم
ہوتاہے کہ انبیاءواولیاءسے مددمانگنایاان کوحاجت رواجاننانہ شرک ہے اورنہ
خداکی بغاوت ۔ بلکہ عین قانون اسلامی اور منشاءالٰہی کے بالکل مطابق ہے۔شب
معراج میںقت کی نماز فرض ہوئی مگرحضرت موسیٰ علیہ السلام کی عرض پرکم کرتے
کرتے پانچ رکھیں،آخریہ کیوں؟؟اسی لئے کہ مخلوق جانے کہ نمازپچاس کی پانچ
رہیں اس میںموسیٰ علیہ السلام کی مددشامل ہے یعنی اللہ کے مقبول بعدوفات
بھی مددفرماتے ہیں۔
بزرگانِ دین کی ارواح کو ایصال ثواب کرناجائز ہے،خواہ تاریخ و دن کی تعیین
کے ساتھ ہو یابغیر تعیین کے،دونوںصورتیں جائز ہیں،اسی طرح شب برات کی فاتحہ
جائز ہے، چاہے اسی رات کو یا اس کے بعد ،دن اور تاریخ کو اس لیے متعین
کیاجاتاہے تاکہ لوگوں کویادرہے،مگر کچھ منکرین تعیین تاریخ کے ساتھ فاتحہ
اورایصال ثواب کو منع کرتے ہیں،اور کہتے ہیں کہ یہ بدعت ہے،حالانکہ اس پر
شریعت مطہرہ میںکوئی ممانعت نہیں آئی ہے ،کسی چیز کا شریعت میں منع نہ ہونا
ہی اس کے جائز ہونے کی دلیل ہے،لہٰذا شب برات میں حلوا یا دوسری شیرینی پر
فاتحہ دینابلاشبہ جائز ہے ،اصل مقصود اس سے ایصال ثواب ہے۔(فیضانِ اعلیٰ
حضرت ص۴۷۴)شبِ براءت کی فاتحہ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں اعلیٰ حضرت
امام احمدرضابریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:شریعت اسلامیہ میں،ایصال ثواب
کی اصل ہے اورصدقات مالیہ کاثواب بہ اجماع اہل سنت پہنچتاہے اورعرفی
طورپردن اورتاریخ کی تخصیص کوحدیث نے جائز فرمایاہے۔منع کرنے والے اسے بے
دلیل شرعی منع کرتے ہیں ، ان سے پوچھئے تم جومنع کرتے ہوآیااللہ ورسول نے
منع کیاہے یااپنی طرف سے کہتے ہواوراللہ ورسول نے منع فرمایاہے تو دکھاو ¿
کونسی آیت وحدیث میں ہے کہ حلو اممنوع ہے، یا شب برات میں ممنوع ہے، یا
حضرت سیدالشہداءحمزہ ،یاحضرت خیرالتابعین اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہما
کو ایصال ثواب پہنچانا ممنوع ہے ،یااعزہ واحبا میں اس کاتقسیم کرنا ممنوع
ہے۔ اور جب نہیں دکھا سکتے ،تو جو بات اللہ ورسول نے نہیں فرمائی تم اس کے
منع کرنے والے کون؟(فتاویٰ رضویہ ج۹ص۱۹۳)اللہ پاک عقل سلیم عطافرمائے۔آمین |
|