خداراہوش کے ناخن لیں
(اسلم قائم خانی, karachi)
حکومت ،میڈیا اور اداروں کے
درمیان رسہ کشی نے ایک عجیب سا ہیجان برپاکردیا ہے ہر طرف مارو ،پکڑو ،گرادو
،کھینچ لو ،گندا کردو کی ہا ہا کار مچی ہوئی ہے ۔حکومت اپنے ترپ کے پتے
کھیل رہی ہے ،میڈیاکے کرتا دھرتا اپنے جوہر دکھارہے ہیں لیکن اس ساری
صورتحال میں سب سے زیادہ پریشان بلکہ ذہنی کرب میں مبتلا ۔۔۔ ورکنگ جرنلسٹ
۔۔۔ ہیں جن کے گھر کا چولہا اپنے آپ کو صحافت سے وابستہ رکھنے سے چلتا
ہے،جن کی روزی روٹی صحافتی خدمات سے وابستہ ہے لیکن موجودہ صورتحال نے ان
کی زندگی اجیرن کردی ہے کیونکہ انہیں بخوبی علم ہے کہ ،،، ہاتھیوں کی لڑائی
میں پستی چیونٹیاں ہی ہیں ،،،،میڈیا گروپ اپنی سرزد ہونے والی غلطیوں کا
اعتراف کرنے کی بجائے مسلسل ،،، میں ناں مانوں ،،،، کی گردان کررہے ہیں ،قومی
سلامتی کے وہ ادارے جن کی تضحیک ہوئی ہے وہ سرکار کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ
کب ان کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا ازالہ ہوتا ہے ،وفاقی حکومت نے بظاہر
مکمل خاموشی اختیار کی ہوئی ہے لیکن اندرون خانہ وہ سب کی الگ الگ پیٹھ
تھپکا رہی ہے کہ لگے رہو ہم تو تمہارے ساتھ ہیں،حکومت شاید اس سارے کھیل کے
بھیانک نتائج سے غافل ہے کہ جب آگ لگے گی تو گھر سب کے جلیں گے لیکن پھر
بھی حکومت ،،،، لگدی ویکھنے ،،،، میں لگی ہوئی ہے ،فوج کی سیاست میں مخالفت
کرنے والے بھی سوچیں کہ فوج نے ایک چینل پر مسلسل آئی ایس آئی کی کردار کشی
پر پہلی بار باقاعدہ قانونی طریقہ اختیار کیا اور قانونی طریقے سے اپنی
شکایت کے ازالے کے لئے متعلقہ ادارے سے رجوع کیا لیکن ان کی وہ قانونی
درخواست ہنوز ہوا میں لٹکی ہوئی ہے اور انصاف دینے یا اس درخواست پر کوئی
کارروائی کرنے کے بجائے ،،،، پیمرا کے سرکاری اور غیر سرکاری ارکان کا
جھگڑا کھڑا کرکے ،،،،، مسئلے کو مزید الجھا دیا گیا ۔حکومت کیا چاہتی ہے
اور کیوں بلاوجہ ،،،، پنگے ،،،لے رہی ہے یہ سب سے اہم سوال ہے یا تو حکومت
کی خواہش ہے کے میڈیا مالکان آپس میں ہی لڑتے رہیں جو طاقتور ثابت ہوگا اس
کے ساتھ جا کھڑے ہونگے ،دوسرا یہ کہ شاید حکومت فوج کو یہ باور کرانا چاہتی
ہے کہ دیکھ لو ہم جب تک نا چاہیں کچھ نہیں ہوگا ۔میرا ملک کے سنجیدہ حلقوں
سے یہ عاجزانہ سا سوال ہے کہ کیا یہ ساری صورتحال ٹھیک ہے ۔ایسا تو نہیں
ہونا چاہئے کیونکہ ہر کوئی اپنے آپ کو درست اور حق پر سمجھ کر خم ٹھونک کر
میدان میں اترا ہوا ہے،ملکی اہم مسائل عوام کا منہ چڑا رہے ہیں عوام بیزار
ہوچکے ہیں ،حکومتی کارکردگی عوامی مسائل کے حل میں ناکام نظر آتی ہے ،پورے
ملک میں بے چینی عروج پر ہے،سرحدوں پر حالات کشیدہ نظر آتے ہیں،پڑوس میں
،،،، مودی ،،،، حکومت قائم ہوچکی ہے جس کو پاکستان ایک آنکھ نہیں بھاتا
لیکن حکومت جان بوجھ کر شاید صرف نظر کررہی ہے حالانکہ حالات کا تقاجا ہے
کہ حکومت ساری صورتحال کے تدارک کے لئے جنگی بنیادوں پر کام کرے اور تمام
جھگڑوں کو حل کرنے کے لئے کوئی باعزت راستہ نکالے کیونکہ اسی میں ناصرف ملک
،عوام بلکہ خود حکومت کا بھی فائدہ ہے کیونکہ اگر حکومت اپنے مفاد کے لئے
،،،،، تماشا ،،،،، لگا سکتی ہے تو سامنے تو اس سے کہیں زیادہ طاقتور موجود
ہیں اور اگر ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو پھر جو تماشا لگے گا تو
حکومت کو شاید منہ چھپانے کا بھی موقع نہ ملے ۔ اس لئے خدارا ہوش کے ناخن
لیں اور ملک وعوام کو بے بسی اور اذیت کی موجودہ صورتحال سے نکالنے کی
منصوبہ بندی کرے کیونکہ ابھی بھی وقت ہے ،غیر ضروری صف بندی اچھی نہیں
کیونکہ ان صف بندیوں نے پہلے ہی ملک کی حالت پتلی کی ہوئی ہے اب مذید
گنجائش نہیں ،حکمراں صورتحال کو بار بار اس نہج پر لے جارہے ہیں جیسے کہہ
رہے ہوں کہ ،،،، آبیل مجھے مار ،،،، جبکہ حکومت کے تمام کرتوتوں کے باوجود
ان کے خواب پورے نہیں ہورہے ،میڈیا مالکان کو بھی مل بیٹھ کر صورتحال کو
سنبھالنا چاہئے خاص طور پر ملک کے عامل صحافی مل کربیٹھیں لاکھوں صحافیوں
کو بے روزگار ہونے سے بچائیں کیونکہ میڈیا ہاﺅس مالکان کی اداروں سے لڑائی
اپنی جگہ مگر غریب صحافیوں کا اس میں کوئی قصور نہیں کیونکہ چینلز پر
مالکان کی پالیسیاں چلتی ہیں،صحافیوں کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا ،چینلز
پر ایڈیٹر کا تو کوئی تصور ہی نہیں ہے پھر صحافیوں کا کیا قصور جبکہ بڑے
اخبارات میں تو لیڈ ،سپرلیڈ اور بعض اہم خبریں ایڈیٹر لاکھ سر پیٹ لے
مالکان کی مرضی کے بغیر شائع نہیں ہوتیں،چینلز میں تو صرف اور صرف سیٹھوں
کے مفادات کا تحفظ ہوتا ہے اس میں کسی صحافی کا کوئی کردارنہیں لیکن اس کے
باوجود بے چارے صحافی عرصے سے ویج ایوارڈ نہ دینے والے مالکان کے حق میں
نعرے لگانے پر مجبور ہیں ان سے وفاداری کا اظہار کررہے ہیں باوجود اس کے کہ
انہیں احساس ہے کہ چینل مالکان کا ملکی سلامتی کے لئے انتہائی اہم اداروں
کے ساتھ ٹھیک نہیں کررہے پھر بھی وہ آزادی صحافت کے نام پر میدان میں کھڑے
ہیں ،میڈیا بھی پہلوانی کے شوق اور اپنے تئیں طرم خانی کے زعم میں دن بدن
دلدل میں دھنستا چلا جارہا ہے ،پلیز ان سیکڑوں ،ہزاروں غریب صحافیوں کا بھی
سوچئے جو کڑی دھوپ میں کھڑے اپنے غیریقینی مستقبل کے بارے میں سوچ سوچ کر
ہلکان ہورہے ہیں ،،،، پلیز ان کی مایوسی دور کرنے کے اقدامات کریں۔ |
|