بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ابو حاتم الرازی (المتوفی 277 ہجری) اور ابو زرعة الرازی (المتوفی 264 ہجری)
اہل السنة والجماعة کے محدثین میں سے اپنے عصر کے دو عظیم محدثین گزرے ہیں.
ان سے اہل السنة والجماعة کے عقیدہ کی بابت سوال کیا گیا جس پر انہوں نے
ایک طویل روایت بیان کی جو اپنی سند کے ساتھ مندرجہ ذیل ہے، اس روایت کے
بریکٹ کے الفاظ كو روایت کو تفصیلا سمجھنے کے لیے او ابہام دور کرنے لیے
ڈالے گۓ ہیں، آخر میں حوالہ بھی موجود ہے تاکہ تحقیق کرنے والے دین کے طالب
علم کے لیے تحقیق کرنا آسان ہو، روایت مندرجہ ذیل ہے:
ابو القاسم اللکائ نے کہا محمد ابن المظفر المرقی نے ہمیں خبر دی (الخطیب
البغدادی نے کہا وہ صالح ثقہ شیخ تھا. تاریخ مدینہ الاسلام جلد 4 صفحہ 430)
اور کہا الحسین بن محمد بن حبش المقری (ابو عمر الدانی نے کہا: ..وہ ثقہ ہے
تاریخ الاسلام الذہبی جلد 26 صفحہ 539) نے ہمیں بیان کیا: ابو محمد
عبدالرحمن ابن ابی حاتم نے کہا: میں نے اپنے والد (ابو حاتم الرازی) اور
ابو زرعة الرازی سے اصول الدین کی روشنی میں اھل السنۃ کے مذھب کے بارے میں
پوچھا، کے انھوں نے کیا دیکھا کہ علماء مختلف جگہوں پر کیا عقیدہ رکھتے تھے؟
تو انھوں (ابو حاتم اور ابو زرعة) نے کہا، اس طویل روایت کا اردو ميں
مفہوم:
ہم مختلف علماء تک پہنچے تمام جگہوں پر - حجاز، عراق، شام، اور یمن میں -
اور انکا مذھب تھا:
ایمان قول و عمل کا نام ہے، یہ بڑھتا ہے اور کم ہوتا ہے.
قرآن کلام اللہ ہے، یہ ہر لحاظ سے غیر مخلوق ہے.
اور قدر (تقدیر)، اچھی اور بری سب اللہ عزوجل کی جانب سے ہے.
اور نبی صل اللہ علیہ وسلم کے بعد بہتر امتی ابو بکر الصدیق، پھر عمر ابن
الخطاب، پھر عثمان بن عفان، پھر علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنھم ہیں، یہ
خلفاء راشدین ہیں. اور دس عشرہ مبشرہ کے صحابہ ہیں جن کے نام رسول اللہ
علیہ الصلوۃ والسلام نے لیے اور جنتی ہونے کی گواہی دی، اور انکا (نبی صلی
اللہ علیہ وسلم کا) قول سچا ہے. اور اللہ سے اسکی رحمت، انکے لیے مانگنا
(صحابہ کے لیے رضی اللہ عنھم کہنا) اور انکے درمیان اختلافات کے بارے میں
نہ بولنا.
اور اللہ عزوجل عرش پر مستوی ہے (اپنی شان کے مطابق) مخلوق سے جدا، جیسا کہ
اس نے اپنی کتاب میں بتایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر،
بغیر یہ پوچھے کہ کیسے؟ (بلا کیف؟)، ہر چیز اس کے علم میں ہے. لیس کمثله
شیء وھو السمیع البصیر (حوالہ: الشوری سورۃ نمبر: 42 آیت نمبر: 11)
اور یہ کے اللہ عزوجل کو آخرت میں دیکھا جاۓ گا، جنتی اللہ کو دیکھیں گے.
اپنی آنکھوں سے، اور اسکا کلام سنیں گے، جس طرح کے وہ چاہے
اور جنت حقیقت ہے.
اور جہنم حقیقت ہے.
اور یہ دو مخلوق ہیں جو کبھی ختم نہیں ہونگی، اور جنت اجر ہے اللہ کے
اولیاء کے لیے، اور جہنم سزا ہے جنہوں نے اللہ کی حکم عدولی کی إلا کہ وہ،
کہ جن پر اللہ عزوجل کا رحم نازل ہو.
صراط حق ہے. (وہ پل جس پر گزر کر جنتی جنت میں داخل ہوں گے).
میزان (ترازو) حق ہے، اس کے دو پلڑے ہیں جن میں اچھے اور برے اعمال کو وزن
کیا جاۓ گا، حقیقت ہے.
اور حوض جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا جاۓ گا، حق ہے.
اور الشفاعة حق ہے (نبی صل اللہ علیہ وسلم شفاعت کریں گے).
اور موت کے بعد زندہ ہونا حق ہے.
اور کبیرہ گناہ کرنے والے اللہ عزوجل پر ہیں. (یعنی اگر اللہ نے چاہا تو وہ
انکو سزا دے گا، اور اگر اسنے چاہا تو وہ انکو معاف کردے).
ہم اہل قبلہ (مسلمان) کو کافر نہیں کہتے ان کے گناہوں کی وجہ سے، اور انکے
چھپے اعمال کو ہم اللہ کی طرف پھیرتے ہیں.
ہم مانتے ہیں کے جہاد فرض ہے مسلمانوں کے حکام کے ساتھ، ہر عہد اور ہر
زمانے میں.
ہم مسلمانوں کے امام (حاکم وقت) کے خلاف خروج پر یقین نہیں رکھتے. نہ ہی
فتنے میں لڑنے پر، اور ہم سنتے ہیں اور مانتے ہیں جسکو اللہ عزوجل حاکم
بناۓ، اور ھم سنت پر عمل کرتے ہیں اور جماعت پر، اور ہم اپنے آپ کو گمراہی
سے دور رکھتے ہیں اور اس سے کہ فرقہ میں تقسیم ہوں.
بے شک جہاد اللہ عزوجل کی جانب سے ہے جب نبی صل اللہ علیہ وسلم آۓ، اور
ہوتا رہے گا، قیامت کے آنے تک مسلمانوں کے حاکم کے ساتھ (جب جب اسکے اصول و
شرائط برابر ہوتی رہینگی) اور کچھ اسکو منسوخ نہیں کرسکتا.
اسی طرح حج بھی، اور مال مویشی کی صدقات (زکوۃ) مسلمانوں کے حاکم کو دی جاۓ
گی.
اور لوگوں (مسلمانوں) کو مسلمان (مؤمن) کی حیثیت سے دیکھا جاۓ، شریعی اور
وراثت کے اعتبار سے، مگر ہم یہ نہیں جانتے کے اللہ عزوجل کے سامنے اسکی کیا
حیثیت ہے.
تو جو کوئ کہتا ہے کہ وہ سچا مؤمن ہے تو وہ بدعتی ہے، تو جو کوئ کہے کہ وہ
مؤمن ہے اللہ کی نظر میں، تو وہ جھوٹا ہے.
تو جو کوئ کہے کہ وہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے، سچھائ سے، تو وہ صحیح ہے.
اور مرجیہ، بدعتی گمراہ ہیں.
اور قادریہ بدعتی گمراہ ھیں.
اور کوئ اس کا انکار کرے کے اللہ عزوجل چیزوں کے ہونے سے قبل جانتا ہے تو
وہ کافر ہے.
اور بے شک جہمی کفار ہیں.
اور رافضہ (امامیہ، 12 اماموں کو ماننے والے شدت پسند شیعہ فرقہ) نے اسلام
کا انکار کر دیا.
اور خوارج مرتد ہیں.
اور جو کوئ کہتا ہے کہ قرآن مخلوق ہے تو وہ اللہ عزوجل کا کافر ہے جو اسکو
دین سے نکال دیتا ہے، اور جو کوئ (اسکے) کفر پر شک کرے، اگر وہ یہ سب جانتا
ہے، تو وہ بھی کافر ہے.
اور جو اللہ کے کلام (قرآن) میں شک کرتا ہے اور وہ کہے: مجھے معلوم نہیں کہ
یہ مخلوق ہے یا غیر مخلوق، تو وہ جہمی ہے.
اور جو قرآن پر وقف کرتا ہے (یعنی نہ کہتا ہے کہ مخلوق ہے اور نہ غیر
مخلوق) اسکی جہالت کی وجہ سے، تو اسکو بتایا جاۓ گا، اور اسکو بدعتی کہا
جاۓ گا مگر کافر نہیں.
اور جو کوئ کہتا ہے جو الفاظ میں قرآن کے بولتا ہوں وہ مخلوق ہیں، تو وہ
جہمی ہیں. اور اگر وہ کہے: میرے الفاظ سے قرآن مخلوق ہے تو وہ جہمی ہے.
ابو محمد ابن ابی حاتم نے کہا، میں نے اپنے والد (ابو حاتم الرازی) کو کہتے
سنا:
اور بدعتی کی نشانی یہ ہے کہ وہ اھل الاثر پر الزام لگاتا ہے.
اور زندیق کی نشانی یہ کہ وہ اھل السنة کو حشویة (کم علم اور کم تر) کہتے
ہیں وہ آثار کو رد کرتے ہیں.
اور جہمیة کی نشانی یہ ہے کہ وہ اھل السنة کو مشابھة کہتے ھیں. (یعنی وہ
لوگ جو اللہ کو یا اللہ کی صفات کو اللہ کی مخلوق سے کسی بھی طرح تشبیہ
دیتے ہیں، مثلا یہ کہنا کہ اللہ کی صفات کو ظاہر پر لینا مخلوق سے تشبیہ
ہے)
اور قدریه کی نشانی یہ ہے کہ وہ اہل السنة کو مجبرۃ کہتے ہیں. (قدریه کا
کہنا ہے کہ اہل السنة کا یہ کہنا کہ تقدیر اللہ کی جانب سے ہے، اسکو مان
لینے سے وہ مجبور ہے اور اپنے اعمال خود نہیں کرسکتا ہے)
مرجیة کی نشانی یہ ہے کے وہ اھل السنة کو مخالفة یا نقصانیة کہتے ہیں.
اور رافضة کی نشانی یہ ہے کہ وه اہل السنة کو ناصبة کہتے ہیں. (ناصبة یعنی
وہ جو اہل بیت سے بغض رکھتے ہیں)
اور اھل السنۃ کا صرف ایک نام ہے اور یہ ناممکن ہے کہ ان تمام ناموں سے اہل
السنة کو منسوب کیا جاسکے.
ابو محمد (ابن ابی حاتم) نے کہا، اور میں نے سنا اپنے والد (ابو حاتم) اور
ابو زرعة سے: لوگوں کو حکم دیتے گمراہوں اور بدعتیوں کو چھوڑ دو، اور وہ اس
میں بہت سخت تھے، اور انہوں نے روایات کے بغیر راۓ سے کتابیں لکھنے سے منع
کیا، اور وہ لوگوں کو اہل الکلام کی مجالس میں بیٹھنے سے منع کرتے، اور اھل
الکلام کی کتب دیکھنے سے، اور وہ کہتے: صاحب کلام میں کوئ فلاح نہیں.
ابو محمد ابن ابی حاتم نے کہا: اور یہی میں کہتا ہوں (یعنی یہ سب میرا
عقیدہ بھی ہے)
ابو علی بن حبش مقری نے کہا: اور یہی میں کہتا ہوں.
اور ہمارے شیخ ابن المظفر نے کہا: اور یہی میں کہتا ہوں.
اور ہمارے شیخ (یعنی اس روایت کو بیان کرنے والے) ابو القاسم اللاکائ نے
کہا: اور یہی میں کہتا ہوں.
ابوبکر احمد بن علی بن الحسین الطریثیثی (المتوفی 576 ھجری) نے کہا: یہی
میں کہتا ہوں.
اور ہمارے شیخ ابو طاھر احمد ابن محمد السلفی (ولد 475 ہجری) نے کہا: اور
یہی ہم کہتے ہیں.
(حوالہ: شرح أصول اعتقاد أھل السنة والجماعة از أبو القاسم ھبة اللہ
اللاکائ جلد 1 صفحہ 176 تا 180 وسندہ صحیح، إبن قدامة المقدسی نے اسکا کچھ
حصہ دو إسناد سے اپنی کتاب "إثبات صفة العلو" صفحہ 182 تا 184 میں ذکر کیا،
امام الذہبی رحمہ اللہ نے اپنی سند سے اسکا کچھ حصہ سیر أعلام النبلاء جلد
13 صفحہ 84 میں ذکر کیا، ابو محمد إبن أبی حاتم نے اپنی کتاب "اصل السنة
والاعتقاد الدین" میں ذکر کیا اور اسمیں وہ سوالات وجوابات موجود ہیں جو
ابو محمد إبن أبی حاتم نے اپنے والد ابو حاتم الرازی اور ابو زرعة الرازی
سے پوچھے، اور یہ مخطوطه المکتبة الظاھریة، دمشق، رقم: 11 (166-169) میں
موجود ہے)
إبن المقری، ابو بکر محمد بن إبراھیم نے کہا: اور میرا مذھب أصول (إعتقاد)
میں وہی ہے جو أحمد بن حنبل اور أبو زرعة الرازی کا ہے.
(حوالہ: امام الذھبی رحمہ اللہ کی سیر اعلام النبلاء جلد 16 صفحہ 401)
الحمد لله ،اس طويل روايت كي اہمیت کی وجہ سے میں نے اسکی سند اسکا متن اور
اسكا صحيح حوالہ تینوں درج کیے تاکہ جس کے دل میں شک ہو وہ اسکی تحقیق کر
سکے اور اس كے بعد اتنا عرض هے كه ميري ذاتی راۓ کے مطابق یہ صحیح روایت
سونے سے لکھنے کے قابل ہے، کیونکہ اس روایت میں ایک مسلمان کا مجمل مگر
تفصیلی عقیدہ درج ہے. کاش ہمارے حکام فضول پیسہ پرستی اور سیاست چھوڑ کر
علم کی سرپرستی کریں، اور علوم عصر کے ساتھ ساتھ خصوصا علوم دین پھیلانے
میں اپنا صریح کردار ادا کریں. میں یہ بھی جانتا ہوں کہ کئ احباب اس روایت
سے ناخوش ہوۓ ہوں گے مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے اپنے فرقہ کی اندھی
تقلید چھوڑ کر حق کو تسلیم کرنا چاہیے خاص طور پر جب وہ حق دلیل سے ہمارے
سامنے پیش کیا جاۓ اور ہمیں دین کا علم حاصل کرنے کی روش بھی اپنانی چاہیے
اسی طرح جس طرح دنیا کے علوم میں ہم تگ دو کرتے ہیں، اور اس کو صرف ملا تک
نہیں چھوڑنا چاہیے کیونکہ علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے. اللہ سے
دعا ہے کہ وہ تمام مسلمانوں کو اس عقیدہ پر ثابت قدم رکھے جو ہمارے اسلاف
سے ثابت ہے،آمین اللھم آمین |