رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کے تشریف لے جانے کے بعد
قرآن کریم اور آپ صلی علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اور ہدایات امت کی صلاح
وفلاح کی ضامن ہیں۔ اعتقادات‘ اعمال‘ اخلاق‘ معاملات اور معاشرت میں
انسانوں کو جس ہدایت کی ضرورت ہے‘ وہ یقینا سب کتاب وسنت میں موجود ہیں۔
بدعت کے لغوی معنی
امام لغت علامہ ابو الفتح ناصر فرماتے ہیں:
”البدعة اسم من ابتدع الامر اذا ابتدأ واحدثہ“ ۔ (المغرب فی ترتیب المعرب:
۱/۲۶۔)
ترجمہ:․․․”بدعت کے معنی ہیں:” کوئی نئی چیز ایجاد کرنا“۔
اس سے معلوم ہوا کہ عربی میں ہر نئی چیز کو بدعت کہتے ہیں۔
بدعت کی شرعی تعریف:
”وہی الامر المحدث الذی لم یکن علیہ الصحابة والتابعون ولم یکن مما اقتضاہ
الدلیل الشرعی“۔ (کتاب التعریفات: ۱/۳۳۔ط: دار المنار)
ترجمہ:․․․․”بدعت ایسا نیا طریقہ ہے جس پر نہ صحابہ کرام اور نہ ہی تابعین
نے عمل کیا ہو اور نہ ہی اس پر کوئی شرعی دلیل ہو“۔
علامہ شامی بدعت کی تشریح ان الفاظ میں نقل کرتے ہیں:
”ما احدث علی خلف الحق المتلقی عن رسول اللہ ا من علم او عمل او حال بنوع
شبہة واستحسان وجعل دیناً قویماً وصراطاً مستقیماً“۔
(رد المحتار کتاب الصلاة ‘ مطلب: البدعة خمسة اقسام: ۱/۰۶۵‘ ط:سعید)
ترجمہ:․․․”بدعت وہ ہے جو ایسے حق کے خلاف ہو جس کی تلقین آپ صلی علیہ وآلہ
وسلم نے کی ہے‘ چاہے وہ عقیدہ ہو‘ عمل ہو یا حال ہو‘ اور اسے اچھا سمجھا
جائے اور دین یقین کرلیا جائے“۔
علامہ ابو اسحاق الشاطبی یوں بدعت کی وضاحت کرتے ہیں:
”فالبدعة عبارة عن طریقة فی الدین مخترعة تضاہی الشریعة یقصد بالسلوک علیہا
المبالغة فی التعبد لله سبحانہ“۔ (الاعتصام‘ الباب الاول فی تعریف
البدع:۱/۷۳‘ط:دار الفکر)
ترجمہ:․․․․”بدعت دین میں ایسا ایجاد کیا ہوا طریقہ ہے‘ جو شریعت کے مشابہ
ہو اور اس پر عمل کرنے سے مقصود اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مبالغہ ہو“۔
حافظ رجب حنبلی فرماتے ہیں:
”المراد بالبدعة ما احدث ممالا اصل لہ فی الشریعة یدل علیہ وما کان لہ من
الشرع یدل علیہ فلیس ببدعة شرعاً وان کان بدعة لغة“۔ (جامع العلوم والحکم‘
:۱۴۲۳)
ترجمہ:․․․”بدعت سے مراد وہ چیز ہے جس کی شریعت میں کوئی دلیل نہ ہو جو اس
پر دلالت کرے اور وہ چیز جس کی شریعت میں کوئی اصل ہو اور وہ اس پر دال ہو
تو وہ شرعاً بدعت نہیں ہے ‘اگرچہ لغة وہ بدعت ہے“۔
خلاصہ:
یہ ہے کہ کوئی ایسا نظریہ‘ طریقہ یا عمل ایجاد کرنا‘ یا اس پر عمل کرنا
بدعت ہے جو آپ ا سے نہ قولاً نہ فعلاً‘ نہ دلالتاََ ‘ نہ اشارتاََ ثابت ہو،
جسے اختیار کرنے والا مخالفت نبوی کی غرض سے بطور ضد وعناد اختیار نہ کرے‘
بلکہ اسے ایک اچھی بات اور ثواب سمجھ کر اختیار کرے‘ وہ چیز کسی دینی مقصد
کے حصول کے ذریعے یا وسیلے کے طور پر ایجاد نہ کی گئی ہو‘ بلکہ خود اسی کو
دین کی بات اور نیکی سمجھ کر کیا جائے۔
(آپ کے مسائل اور ان کا حل:۱/۵۴‘ ط:مکتبہ لدھیانوی)
بدعت کی تردید قرآن میں:
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
۱:-”الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا“۔
(المائدہ:۳)
ترجمہ:․․․․”آج میں نے تمہارا دین مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی
اور اسلام کو تمہارے لئے بطور دین پسند کیا ہے“۔
اس آیت کریمہ سے واضح ہوگیا کہ اسلام دین کامل ہے‘ اسلام میں زندگی گزارنے
کے جتنے گوشے ممکن ہو سکتے ہیں‘ ان سب کے لئے کچھ اصول‘ قوانین اور ضابطے
بیان کرکے انسانوں کو نئے طور طریقوں سے بے نیاز کردیا۔
۲:-”لقد کان لکم فی رسول الله اسوة حسنة“۔ (الاحزاب:۲۱)
ترجمہ:․․․” تمہارے لئے اللہ کے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے“۔
معلوم ہوا کہ زندگی گزارنے کا ہر ہر گوشہ اور ہر ہر شعبہ اگر اسوہٴ رسول کے
مطابق ہوگا تو وہ دین ہے اور اگر کوئی شخص عبادت ونیکی اور ثواب کا کوئی
ایسا کام کرے گا جس کا وجودو ثبوت نہ آنحضرت صلی علیہ وآلہ وسلم سے ہے اور
نہ ہی صحابہ کرام سے ہے تو وہ بدعت ہے۔
بدعت کی مذمت احادیث میں
آپ صلی علیہ وآلہ وسلم نے شرک کے بعد جس طرح بدعت اور بدعتی کی مذمت فرمائی
ہے‘ شاید ہی کسی اور چیز کی ایسی مذمت فرمائی ہو‘ وجہ یہی ہے کہ بدعت سے
دین کا اصلی حلیہ اور صحیح نقشہ بدل جاتا ہے۔
حضور کریم صلی علیہ وآلہ وسلم کے چند ارشادات سے بدعت سے حضور صلی علیہ
وآلہ وسلم کی نفرت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے:
۱:-حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ حضور انے فرمایا:
”ابی الله ان یقبل عمل صاحب بدعة حتی ید ع بدعتہ“ (سنن ابن ماجة‘ ‘ رقم
الحدیث:۰۵)
ترجمہ:․․․”اللہ تعالیٰ نے بدعتی کے عمل کو قبول کرنے سے انکار فرمادیا ہے
جب تک وہ بدعت کو نہ چھوڑ دے“۔
۲:-حضرت علی روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
”من احدث فیہا حدیثاً او اٰوٰی محدثاًفعلیہ لعنة الله والملائکة والناس
اجمعین“۔ (جامع البخاری‘رقم الحدیث:۰۷۸۱)
ترجمہ:․․․”جس کسی نے مدینہ طیبہ میں بدعت اختیار کی یا کسی بدعتی کو ٹھکانا
دیا تو اس پر اللہ تعالیٰ اور تمام فرشتوں اور انسانوں کی لعنت ہو“۔
وضاحت:
بدعت جہاں بھی ہو وہ بدعت ہے‘ ہاں مدینہ طیبہ میں اس کا گناہ زیادہ ہے، اس
لئے کہ وہ منبع رشد وہدایت ہے۔
۳:-حضرت ابراہیم بن میسرہ حضور کریم ا سے مرسلاً روایت کرتے ہیں:
”من وقر صاحب بدعة فقد اعان علی ہدم الاسلام“۔ (الجامع الصغیر‘ رقم
الحدیث:۲۸۰۹)
ترجمہ:․․․”جس نے بدعتی کی توقیر کی اس نے اسلام کے گرانے میں مدد کی“۔
۴:-حضرت انس آپ سے نقل کرتے ہیں:
”ان الله حجب التوبة عن کل صاحب بدعة“۔ (مجمع الزوائد‘ : ۰۱/۹۸۱‘ط: )
ترجمہ:․․”اللہ تعالیٰ نے ہر بدعتی پر توبہ کا دروازہ بند کردیا ہے“۔
اس صحیح روایت سے معلوم ہوا کہ بدعت ایسی قبیح ‘ بری اور منحوس چیز ہے کہ
انسان کے دل میں فطری طور پر جو نورانیت اور صلاحیت ہوتی ہے‘ بدعت اس کو
بھی ختم کردیتی ہے اور اس کی نحوست کا یہ اثر ہوتا ہے کہ توبہ کی توفیق ہی
نہیں ہوتی ۔ اور عقلی طور پر بھی یہ بات بالکل درست ہے ،اس لئے کہ جب بدعتی
بدعت کو کار ثواب سمجھ کر کرتا ہے تو اس سے وہ توبہ کیوں کرے گا؟ توبہ تو
گناہوں سے کی جاتی ہے ،نہ کہ ”نیکیوں“ سے۔
۵:-حضور ا کا یہ بھی فرمان ہے:
”من احدث فی امرنا ہذا ما لیس فیہ فہو رد“۔ (جامع البخاری‘ رقم
الحدیث:۷۹۶۲)
ترجمہ:․․․․”جس نے دین میں ایسی بات نکالی جو دین میں نہیں، وہ مردود ہے“۔
اگرچہ حضور صلی علیہ وآلہ وسلم سے بدعت کی تردید میں اور بھی ارشادات منقول
ہیں مگر اختصار کی خاطر ان ہی پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔
بدعت کی شناعت صحابہ کرام کی نظر میں:
یہی وجہ تھی کہ صحابہ کرام کو بدعت اور اہل بدعت سے انتہائی نفرت تھی‘
چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر کے پاس ایک شخص کسی کا سلام لایا تو آپ نے
فرمایا:
”انہ بلغنی انہ قد احدث فان کان قد احدث فلاتقرئہ منی السلام“۔
(جامع الترمذی‘ ر‘ رقم الحدیث:۲۵۱۲)
ترجمہ:․․․”مجھے سلام بھیجنے والے کی شکایت پہنچی ہے کہ اس نے کوئی بدعت
اختیار کی ہے، اگر واقعی اس نے ایسا کیا ہے تو میرا سلام ا س کو نہ دینا“۔
جماعت صحابہ کرامکے ایک فرد حضرت عبد اللہ بن مغفل صحابہ کرام کے بارے
میں فرماتے ہیں:
”لم ار احداً من اصحاب رسول الله ا کان ابغض الیہ من الحدیث“۔
(جامع الترمذی:۱/۳۳ ‘ط: سعید)
ترجمہ:․․․”میں نے اصحاب رسول ا میں سے کسی کو ایسا نہیں دیکھا کہ وہ بدعت
سے زیادہ کسی اور چیزکو ناپسند کرتا ہو“۔
حضرت حسان فرماتے ہیں:
”ما ابتدع قوم بدعة فی دینہم الا نزع الله من سنتہم مثلہا“۔
(سنن الدارمی‘ المقدمة‘ باب اتباع السنة رقم الحدیث:۹۹)
ترجمہ:․․․”جب کوئی قوم اپنے دین میں کوئی بدعت گھڑ لیتی ہے تو اللہ تعالیٰ
اسی کے بقدر سنت اس سے چھین لیتے ہیں اور قیامت تک (بغیر توبہ) اسے اس کی
طرف نہیں لوٹاتے ہیں“۔ |