19اپریل کو کراچی ایئرپورٹ کے
قریب معروف صحافی واینکر پرسن حامد میر کے قاتلانہ حملے میں زخمی ہونے کے
بعد جیو نیوز کی جانب سے اس حملے کا الزام قومی سلامتی کے ضامن ادارے آئی
ایس آئی پر لگائے جانے اور اس کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام کیخلاف
میڈیا مہم کے ذریعے ان کی کردار کشی کرنے کے جرم میں پیمرا نے جیو پر ایک
کروڑ روپے جرمانے کے ساتھ اس کا لائسنس اس سرزنش کےساتھ 15روز کیلئے معطل
کردیا ہے کہ اگر جیو دوبارہ اس قسم کی غلطی کا مرتکب پایا گیا تو ان کا
لائسنس منسوخ کر دیا جائے گا۔ قومی سیاسی و مذہبی قیادت نے جیو نیوز کی
جانب سے آئی ایس آئی کے سربراہ کے میڈیا ٹرائل پر جیو نیوز کے لائسنس کی
معطلی اور جرمانے کی سزا کو انتہائی کم قرار دےتے ہوئے کہا ہے کہ جیو نیوز
نے جتنا بڑا جرم کیا ہے اس کے مقابلے میں اسے انتہائی کم سزا دی گئی ہے اور
پیمرا نے جیو پر 15دن کیلئے لائسنس کی معطلی اور جرمانہ عائد کرکے قوانین
کی مکمل علمدراری قائم نہیں کی، اس فیصلے سے یہ بات مبہم ہوگئی ہے کہ کہ 15
دن کے بعد جیو پھر اسی طرح قومی اداروں کے خلاف طرح طرح الزام تراشی کی
روایت برقرار رکھے گا۔ قومی قائدین کا کہنا تھا کہ کسی بھی میڈیا گروپ کے
لائسنس کی معطلی اچھی بات نہیں لیکن کسی کو یہ اختیار بھی نہیں کہ وہ ہر
کسی کی پگڑی اچھالتا پھرے، ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ وزارت دفاع نے ایک
قانونی راستہ اختیار کرتے ہوئے اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔حکومت کو چاہئے
تھا کہ وہ اس سلسلے میں جلد از جلد اقدامات اٹھاتی لیکن حکومت جیو اور جنگ
گروپ کے ساتھ کھڑی ہوگئی جس نے معاملے کو مزید الجھایااور پیمر انے اپنے
فیصلے کے ذریعے حکومتی ایماءپر جیو کو بچانے کی کوشش کی ہے۔ اس بات میں
کوئی شک نہیں کہ میڈیا کی آزادی سے بڑھ کر کچھ اور نہیں ہوسکتا کیونکہ آزاد
میڈیا ہی قومی ترقی میں سب سے اہم کردار ادا کرتے ہوئے نہ صرف کرپشن کو بے
نقاب کرکے اس کے سدباب کی جانب پیشرفت کے اسباب پیدا کررہا ہے بلکہ جبرو
استحصال ‘ دہشتگردی و بد امنی‘ نا انصافی و ظلم ‘ جرائم ومافیاز کی نشاندہی
کا فریضہ بھی ادا کرتے ہوئے آئین و قانون کی پاسداری اور معاشرے کو محفوظ و
پر امن بنانے میں کیلئے بھی اپنا کردار اپنی بساط سے بڑھ کر ادا کررہا ہے
مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ آزادی اظہار کے نام پر کسی کو بھی بہتان و الزام کی
اجازت دی جاسکتی ہے اور نہ قومی اداروں کے تشخص کی پامالی کے ذریعے ملک
دشمنوں کی خواہشات کی بجاآوری کو میڈیا پالیسی اور صحافتی اقدار کہا جاسکتا
ہے جبکہ جیو کی جانب سے آئی ایس آئی کیخلاف چلائی گئی پراپیگنڈہ مہم کو
دانشور حلقے نہ صرف ملک دشمن مہم قرار دے چکے ہیں بلکہ اسے صحافتی اقدار
اور میڈیا کے کردار سے متصادم کہہ رہے ہیں اور ان کے خیال میں حکومتی
ایماءپر جیوکو بچانے کا پیمرا کا فیصلہ نہ صرف حکومت کی عوامی حمایت سے
محروم ہوکر رخصتی کا باعث بن سکتا ہے بلکہ پیمرا کا یہ فیصلہ ایکبار پھر
فوجی جمہوری قیادت میں اختلافات کی دیوار کھڑی کرکے ناقابل عبور خلیج پیدا
بھی پیدا کرسکتا ہے جو کسی بھی طور جمہوریت کیلئے نیک شگون نہیں ہے جبکہ
پرویز راٹھور کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس کا بائیکاٹ کرنے والے پیمرا
کے پرائیویٹ ممبران کے مطابق پیمرا قوانین میں کسی قائم مقام چیئرمین کا
کوئی تصور ہی نہیں ہے اسلئے پیمراکا مذکورہ اجلاس اور فیصلہ دونوں ہی
قوانین سے بالاتر ہیں جو بذات خود ایک جرم ہے ! |