بھارت میں ’’ہندو دہشت گردی‘‘عروج پر

مہاراشٹر کے پونے شہر میں ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے محسن صادق شیخ کے بعد امین ہارون اپر بھی حملے کے بعد مقامی پولیس نے ہندو راشٹر سینا پرپابندی کے لئے کاروائی شروع کر دی۔ ہندو انتہا پسندوں نے محسن صادق شیخ کے بعد ایک اور مسلم نوجوان امین ہارون شیخ پر بھی حملہ کیا ۔مرنے کا بہانہ کرنے کی بناء پر ہندو انتہا پسند انہیں مردہ سمجھ کر فرار ہو گئے۔امین ہارون شیخ نماز پڑھ کر گھر جا رہے تھے کہ سامنے سے ہندو راشٹر سینا کے ہندو انتہا پسندوں کا ٹولہ آیا جس نے ان پر تشدد کیا اور انہوں نے دکان میں گھس کر مرنے کا ڈرامہ کیا جس پر ہندو انتہا پسند فرار ہو گئے ۔ پونا کے پولیس کمشنر ماتھر نے کہا کہ ہندو راشٹر سینا پر پابندی کی تجویز کے لئے کاروائی شروع کر دی ہے۔اس تنظیم سے متعلق دستاویزات جمع کی جا رہی ہیں ۔جو وزارت داخلہ کو بھیج کر اس پر پابندی کا مطالبہ کیا جائے گا۔بھارت کے مغربی شہر پونہ میں ہندو شدت پسندوں کے ہاتھوں ایک مسلمان نوجوان کے قتل کے بعد سے یہ مطالبہ شدت اختیار کر گیا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی دو ٹوک الفاظ میں اس واقعے کی مذمت کریں تاکہ شدت پسند عناصر کو یہ غلط فہمی نہ رہے کہ بی جے پی کی حکومت آنے سے’ وہ اقلیتوں کے ساتھ جو چاہیں کر سکتے ہیں۔محسن صادق شیخ کی عمر 28 سال تھی اور انھیں پونہ میں فرقہ وارانہ تشدد کے دوران پیر کو مبینہ طور پر شدت پسند تنظیم ہندو راشٹر سینا کے کارکنوں نے ہلاک کر دیا تھا۔محسن شیخ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ایک کمپنی میں کام کرتے تھے اور رات کا کھانا کھا کر گھر لوٹ رہے تھے کہ انھیں تقریباً 30 حملہ آوروں نے گھیر لیا اور لاٹھیوں سے مار مار کر قتل کر دیا۔پولیس کے مطابق اس سلسلے میں تنظیم کے کئی کارکنوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ کسی نے شو سینا کے سربراہ بال ٹھاکرے اور ہندو راجہ شواجی مہاراج کی کچھ تصویروں میں قابل اعتراض تبدیلیاں کرنے کے بعد انھیں فیس بک پر ڈالا تھا۔ ہندو راشٹر سینا کے یہ مبینہ کارکن انھی تصویروں کے خلاف احتجاج کر رہے تھے جس نے شہر میں فرقہ وارانہ تشدد کی شکل اختیار کر لی اور اخباری اطلاعات کے مطابق اس دوران کئی مسلمان نوجوانوں کو مارا پیٹا گیا۔لیکن اخبار ہندوستان ٹائمز کے ایک اداریے کے مطابق محسن شیخ کا اس تنازعے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔اخبار لکھتا ہے کہ وفاقی حکومت کو فرقہ وارانہ تشدد کے خلاف ٹھوس کارروائی کرنی چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ملزمان کو سخت سزا ملے۔محسن کو قتل کرنے کے بعد حملہ آوروں نے اپنے ساتھیوں کو ایک ایس ایم ایس پیغام بھیجا جس میں لکھا گیا تھا کہ پہلی وکٹ گرگئی ہے۔ اس پیغام سے لگتا ہے کہ حملہ آور اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ مرکز میں بی جے پی کی حکومت بن جانے کے بعد ’وہ اقلیتوں کے ساتھ جو چاہیں کر سکتے ہیں اور ایسے عناصر کی یہ غلط فہمی فوراً دور کی جانی چاہیے اور اگر پارٹی کی اعلیٰ ترین قیادت ایسا نہیں کرتی تو دوسرے لوگوں کی بھی حوصلہ افزائی ہوگی۔اخبار ٹائمز آف انڈیا کا بھی مطالبہ ہے کہ خود وزیر اعظم نریندر مودی کو محسن شیخ کے قتل کی مذمت کرنی چاہیے۔ محسن شیخ کو اس لیے نشانہ بنایا گیا کیونکہ (وہ اپنی داڑھی کی وجہ سے) دیکھنے میں مسلمان نظر آتے تھے ان کے قاتلوں پر مقدمہ چلانے کے لیے فاسٹ ٹریک عدالتیں قائم کی جانی چاہییں اور قصوروار افراد کو عبرت انگیز سزا دی جانی چاہیے۔قتل کے اس کیس میں نریندر مودی کو بالکل واضح موقف اختیار کرنا چاہیے۔یہ واقعہ اگرچہ پیر کے روز کا ہے لیکن ابھی تک بی جے پی کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ کانگریس کی مشکل یہ ہے کہ ریاست میں خود اس کی اپنی حکومت ہے اور آئین کے تحت امن و قانون کی ذمہ داری ریاستی حکومتوں کے دائرہ اختیار میں آتی ہے۔ ریاستی حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے سخت کارروائی کر کے صورتِ حال کو مزید بگڑنے سے بچا لیا ہے۔حالیہ پارلیمانی انتخابات کے دوران اور پھر بی جے پی کے برسراقتدار آنے کے بعد بہت سے لوگ یہ خدشہ ظاہر کر رہے تھیکہ پارٹی کی کامیابی سے شدت پسند عناصر کے حوصلے بلند ہو سکتے ہیں۔اخباروں میں بھی تجزیہ نگاروں اور اداریوں کے لب و لہجے سے لگتا ہے کہ ان کے خیال میں اگر بی جے پی اس کیس میں سخت موقف اختیار نہیں کرتی تو ترقی کے جس ایجنڈے کا اس نے وعدہ کیا ہے، اس پر عمل درآمد مشکل ہو جائے گا۔انتخابی مہم کے دوران بھی بی جے پی پر فرقہ وارانہ جذبات بھڑکانے کا االزام عائد کیا گیا تھا۔ گذشتہ برس اگست ستمبر میں اتر پردیش کے مظفر نگر ضلع اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں بھی فرقہ وارانہ تشدد بھڑکا تھا جس میں تقریباً 60 افراد ہلاک اور 50 ہزار سے زیادہ بے گھر ہوگئے تھے۔بھارت میں پہلی بار ایک غیر کانگریسی جماعت کے اپنے زور پر اقتدار میں آنے سے بی جے پی تو شادماں ہے ہی اس کے ساتھ ہی بہت سی ہندو جماعتیں مودی حکومت کی اس جیت کو بھارت میں ہندوئیت کا انقلاب سمجھنے لگی ہیں۔گزشتہ دنوں جس ہندو راشٹر سینا کے انتہا پسندوں نے مہاراشٹر کے ایک شہر پونے میں ایک نوجوان شہری کو محض مسلمان ہونے کی وجہ سے مار مار کر ہلاک کر دیا وہ اسی زمرے میں آتے ہیں۔ قتل سے پہلے انہوں نے مسلم نظر آنے والے کئی اور لوگوں کو نشانہ بنایا تھا اور ان کی املاک کو بھی نقصان پہنچایا تھا۔اس واقع سے پہلے کسی نامعلوم شخص نے فیس بک پر شیو سینا کے آنجہانی رہنما بال ٹھاکرے اور دور وسطیٰ کے ایک مراٹھا راجا شیوا جی کی ایک ہتک آمیزتصویر شائع کی تھی۔ ہندو راشٹر کے کارکن اسی کے جواب میں مسلمانوں پر حملہ کر رہے تھے۔ حالانکہ ابھی تک کسی کو نہیں معلوم کہ فیس بک پر یہ تصویر کس نے پوسٹ کی تھی۔پونے کے بی جے پی کے رکن پارلیمان نے مسلم نوجوان کے خوفناک قتل پر کہا کہ ’فیس بک پر شیوا جی کی ہتک آمیز پوسٹ پر یہ ایک فطری رد عمل تھا۔بھارتی ریاست اترپردیش میں ہندو انتہا پسندوں نے کالج ہوسٹل میں کشمیری نوجوان کو نہاتے ہوئے کرنٹ لگا کر شدید زخمی کر دیا۔ کشمیری طلباء کے احتجاج پر ہندو انتہا پسندوں نے مسلم طلباء پر بدترین تشدد کیا ہے۔نجی تعلیمی ادارے میں زیر تعلیم طلباء نے اپنے ساتھی طالب علم پر تشدد کے خلاف دھرنا دیا اور زبردست نعرے بازی کی ہے۔کشمیری طالب علم کو نہاتے ہوئے کرنٹ لگانے کا افسوسناک واقعہ ریاست اترپردیش کے غازی آباد علاقہ دہائی میں نیشنل ہائی وے پرقائم ایک نجی ادارے کے ہاسٹل میں پیش آیا ہے۔زخمی طالب علم کا نام محمد عمر بتایا جاتا ہے اور وہ اس ادارے میں بی سی اے کا کورس کر رہا ہے۔ محمد عمر نے پولیس کو دی گئی درخواست میں موقف اختیا رکیا ہے کہ وہ غسل خانہ میں نہارہا تھا کہ نجی انسٹی چیوٹ میں زیر تعلیم ہندو انتہاپسند تنظیموں کے طلباء ونگ سے تعلق رکھنے والے طلباء نے منظم منصوبہ بندی کے تحت اسے کرنٹ لگا کر زخمی کر دیا اور اس دوران جب اس نے شور کیا تو ہندو انتہا پسندوں نے نہ صرف اسے بلکہ احتجاج کرنے والے دیگر طلباء پر بھی شدید تشددکیا جس سے متعددطلباء کو چوٹیں آئی ہیں۔ نجی انسٹی چیوٹ میں زیر تعلیم ایک سو سے زائد کشمیری طلباء نے احتجاجی مظاہرے کئے ، دھرنا دیااور اپنے ساتھی طالب علموں پر تشدد کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ مسلم طلباء کا کہنا ہے کہ ہم نے محمد عمر کو زبردستی ہندو انتہا پسندوں کے چنگل سے چھڑایا تھا۔حال ہی میں میرٹھ کی ایک یونیورسٹی میں زیر تعلیم 60کشمیری طلباء کو اْس وقت بے دخل کردیا گیا تھا جب انہوں نے ایشیا کپ کے دوران پاک بھارت میچ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے حق میں تالی بجائی تھی اور اس پرہندو انتہا پسندوں نے ان پر حملہ بھی کیا تھا۔بھارتی میڈیاکا کہنا ہے کہ اگر چہ اس معاملے کا ریاستی حکومت نے سنجیدہ نوٹس لیا اور 44طالب علموں کے داخلے کو یقینی بنایا گیا تھا تاہم 16طالب علموں کو یونیورسٹی سے مکمل طور بے دخل کردیا گیا تھا۔ حریت کانفرنس (گ)، حریت کانفرنس (ع) اور دختران ملت کی سربراہ آسیہ اندرابی نے اس واقعہ کی شدید مذمت کی ہے۔
 
Mumtaz Awan
About the Author: Mumtaz Awan Read More Articles by Mumtaz Awan: 267 Articles with 197112 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.