چند دن قبل جب میں جلالپور جٹاں اڈہ پر آفس کی گاڑی سے
اترا اور اپنے گھر جانے کے لیے روانہ ہوا تو میرا گزر عمومی طور پر مین
بازار سے ہوتا ہے۔ وہاں رش کی وجہ سے کھوے سے کھوا چل رہا ہوتا ہے مگر اس
دن مجھے عجیب منظر کا سامنا کرنا پڑا، بازار خالی تھا دکانیں بند تھیں اور
خوفناک حد تک خاموشی تھی۔ پہلے میں نے کبھی بازار کو اتنا خاموش اور خالی
نہیں دیکھا تھا۔ اسی عالم حیرت میں جب میں اپنی گلی کی طرف مڑا تو ایسے لگا
جیسے پورا بازار ایک گلی میں ہی سما گیا ہو، اس سے پہلے کہ میری سمجھ میں
کچھ آتا کیا دیکھتا ہوں کہ سب ریڑھیوں والے آناً فاناًاپنی ریڑھیوں کو
دھکیلتے ہوئے بھاگ کھڑے ہوئے ہیں۔ مجھے لگا جیسے سب لوگ مجھے دیکھ کر بھاگ
کھڑے ہوئے ہوں مگرراز تب کھُلا جب میرے پیچھے پولیس کی گاڑی کا سائرن بجا
تب میں سمجھا کہ لوگ مجھے دیکھ کر نہیں بھاگے بلکہ پولیس کو دیکھ کر اُن
ریڑھی بانوں کی دوڑیں لگیں ہوئی ہیں۔ اس سارے بے ہنگم تماشے میں جس بات نے
دل کو بہت تکلیف دی وہ ہماری پولیس کا سلوک تھا جو وہ ریڑھی بانوں کے ساتھ
کر رہے تھے۔میں نے ہمت کر کے ایک ریڑھی بان سے پوچھا تو سارے ماجرے کا عقد
کھلا کہ گجرات کی نئی Assistant Commissioner بازار میں ناجائز تجاوزات کا
قبضہ ختم کروا رہی ہیں۔ ایک دفعہ تو سن کر اچھا لگا کہ چلو حکومتی ادارے
میں کوئی ایسا آفیسر تو آیا جو اس ”شُتر بے مہار“ نظام کو ٹھیک کرنے نکلا
ہے۔ لیکن ساتھ ہی ایک اور احساس ِ مزدور بھی غالب تھا جو بے چین کیے ہوئے
تھا کہ کوئی ایسا معتبراور جامع منصوبہ کیوں نہیں بنایا جاتا جس سے مزدور
کے چولہے ٹھنڈے نہ پڑیں۔
ہمارے نظام تعمیر کا حال یہ ہے کہ جب بھی کوئی Development شروع ہوتی ہے تو
اس سے ملحقہ تمام کاروبار متاثر یا بند ہو جاتے ہیں جس کی مثال چند سال قبل
شہر ِگجرات کی ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے اُس وقت غیر ملکی کمپنی کے ساتھ گجرات
کے سیوریج نظام کو درست کرنے کے منصوبہ پر سوچ بچار ہو رہی تھی جس میں
انہوں نے نئی کھدائی اور سڑک بنانے کے ساتھ ساتھ موجودہ ٹریفک کے نظام کی
بحالی کا یقین دلایا تھا مگر کچھ ناگذیر وجوہات کی بنا پر غیر ملکی کمپنی
کے ساتھ معاہدہ نہ ہو پایا اور گجرات شہر دو سال کے لیے کھنڈرات کا منظر
پیش کرتا رہا۔
پاکستان کے بعد معرض وجود میں آنے والے ممالک پہلے متبادل نظام بنانے پر
زور دیتے ہیں تاکہ عوام کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور
پھر کسی ڈویلپمنٹ کو شروع کرنے کا سوچتے ہیں۔ ہماری لوکل ایڈمنسٹریشن میں
ایسی سوچ رکھنے والے ”عمرؓ “کب پیدا ہوں گے جو کسی ایسے حکم نامے پر عمل
کرنے سے پہلے عوام کومتبادل بندوبست فراہم کریں جس سے ڈویلپمنٹ بھی نہ رکے
اور مزدور کا چولہا بھی ٹھنڈا نہ پڑے۔
میں نے درویش صفت پروفیسر ڈاکٹر محمد نظام کو کہتے سنا تھا کہ ”قوموں کی
ترقی حکومت کی وجہ سے نہیں بلکہ عام عوام کی وجہ سے ہوتی ہے“کیوبا جیسے
ترقی پذیر ملک کی ترقی کا راز اُن کی عوام ہیں۔ کیوبا کی عوام اپنے اداروں
کے خود محتسب ہیں۔ اگر کسی سکول یا کالج میں کسی چیز کی ضرورت ہو تو عوام
کے نمائندے مل کر اُس کمی کو پورا کرتے ہیں۔ وہ لوگ اپنے اداروں کے خود
محتسب ہیں۔
پاکستان کے لیے شاید یہ دیوانے کا خواب ہوکہ یہاں کی عوام کیوبا کی عوام کی
طرح اپنے اپنے علاقے کے پبلک اداروں کے خود محتسب بن جائیں۔ کیا ہر علاقے
کے Press Club کے تمام ممبران محتسب نہیں بن سکتے حکومتی فیصلوں اور لوکل
سطح کے معاملات کے۔۔؟ کیا ہمارے پاس اتنا وقت ہے کہ ہم اپنے ارد گرد اور
خود کو بدلنا چاہتے ہیں ……؟ میرا یقین واثق ہے کہ ان تمام باتوں کا ہر قاری
کو پہلے سے ادراک ہو گا مگر معاملہ وہی ”بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے“
والا ہے۔
مصالحتی کمیٹی اور امن کمیٹی کی طرح شہر میں ”ڈویلپمنٹ کمیٹی“ بھی تشکیل دی
جائے جو شہر کے مسائل کو لے کر اس پر مثبت اور مؤثر پالیسی تشکیل دے جس میں
تمام لوگوں کو اعتماد میں لے کر خالصتاًشہر کی بہتری اور فلاح عامہ کے میرٹ
پر فیصلے کیے جائیں اور ان کو مکمل ہونے تک ان کی پیروی اور نگرانی کی
جائے۔
ضلعی انتظامیہ کو خوشامدیوں کے حصار سے باہر نکل کر ضلع کے سوچنے، سمجھنے،
پڑھنے لکھنے والے افراد پر مشتمل ایک تھنک ٹینک فورم تشکیل دینا چاہیے اور
کسی بھی منصوبے، خواہش یا عمل کو آناً فاناً عوام پر مسلط کر دینے کی بجائے
تھنک ٹینک کی موجودگی میں اس کا جائزہ لینے، فوائد و نقصان کا تجزیہ کرنے
اور متبادل نظام کے خدوخال بنانے کی منطقی ضرورت ہے۔ عقلیت پسندی کا تقاضا
ہے کہ افسران ”انتظامی دھماکے“ کرنے کی بجائے عوامی مفاد کے لیے معاملہ
فہمی پر بھی کچھ وقت صرف کریں۔
A community is like a ship; everyone ought to be prepared to take the
helm. |