کسی بھی ملک کی اس سے بڑی بدقسمتی کوئی اور نہیں ہو سکتی
کہ اس ملک میں اپوزیشن اور حکومت ذاتی مفادات کی خا طر یکجا ہو جائیں۔اپو
زیشن اور حکومت باہم مل جائیں تو ملک تباہ و برباد ہوجاتے ہیں کیونکہ
حکومتی فیصلوں پر تنقید کرنے والی کوئی جماعت موجود نہیں ہوتی اور یو ں
حکمران آمرِ مطلق بن کر ملکی خزانے کا صفایا کرتے رہتے ہیں۔اپوزیشن کا کام
حکومتی اقدامات کا تجزیہ کرنا اور اس کے منفی پہلو وں کو اجاگر کرناہوتا ہے
تا کہ حکومت ِ وقت کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل اپنے فیصلے کے سارے پہلوؤ ں
کا تفصیلی جا ئزہ لے کر ملکی مفادات کا تحفظ کر سکے ۔اپوزیشن حکومت کیلئے
ایک ایسی لگام کاکام کرتی ہے جس سے حکومت حدو دو قیود کے اند رہتی ہے اور
ملکی مفادات کو ہر حال میں مقدم رکھتی ہے۔بہترین حکومت اسے کہتے ہیں جس میں
اپوزیشن تگڑی ہوتی ہے۔کمزور اپوزیشن ملک کے لئے نیک فال نہیں ہوتی کیونکہ
حکومت اکثریتی زعم میں ایسے فیصلے کرنے لگ جاتی ہے جس سے ملکی حالات اور
مالی امور بگڑنا شروع ہو جاتے ہیں اور ملکی معیشت تباہی کی جانب گامزن ہوجا
تی ہے۔برائے نام اپوزیشن کی وجہ سے حکومت کا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہیں
ہوتا اور یوں بگاڑ میں اضافہ ہوتا رہتاہے۔ اس وقت بظاہر یہ نظر آرہاہے کہ
ملک کی دونوں بڑی جماعتیں پی پی پی اور مسلم لیگ(ن) مک مکاؤ کی راہ پر
گامزن ہیں اور کسی نئے سیاسی کھلاڑی کو پنپبے کا موقع نہیں دینا چاہتیں ۔وہ
سیاسی گیند کو اپنی کورٹ میں ہی رکھنا چاہتی ہیں۔باریاں طے کر لی گئی ہیں
اور ان باریوں کے صد قے عوام کی جو درگت بن رہی ہے اس سے انھیں کوئی سرو
کار نہیں ہے۔ایک دفعہ پی پی پی اور پھر اگلی دفعہ مسلم لیگ (ن) بس ہماری
جمہوریت کی اتنی سی داستان ہے۔پوری دنیا میں یہ دستور ہے کہ سیاسی عمل سے
نئی لیڈر شپ سامنے لائی جاتی ہے جو پر عزم اور پر حکمت ہوتی ہے لیکن ہمارے
ہاں پچھلے تیس سالوں سے وہی چند چہرے سیاسی افق پر چمک رہے ہیں اور عوام ان
کو منتخب کرنے کیلئے مجبور ہیں جن کی دانش اور بصیرت سے زمانہ آگاہ ہے ۔وہی
گھسے پٹے انداز، وہی سیاسی کلچر وہی سیاسی شعبدہ بازی اور وہی استحصا لی
مائنڈ سیٹ جس سے ترقی کے شگوفے پھوٹنا ناممکن ہے۔ امریکہ جیسے ملک میں
صدارت پر دو دفعہ سے زیادہ کی پابندی ہے تا کہ نئی قیادیت سامنے آئے جو
بدلتے وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو کر قوم کی بہتر راہنمائی کر سکے لیکن
ہمارے ہاں تو تیس تیس سال حکمران رہنے کے بعد بھی پیٹ نہیں بھرتا لہذا
اقتدار اپنی اولاد کو منتقل کر دیا جاتا ہے کہ وہی ٹھہرے اس دھرتی کے سب سے
زیادہ بدھی مان۔
دنیا بھر کے عوام جمہوریت کو اس لئے عزیز رکھتے ہیں کہ یہ ان کیلئے انصاف
برا بری،ترقی اور خوشخالی کی راہیں کشادہ کرتی ہے اور انھین ان کی صلاحیتوں
کے مطابق اقتدار کے ایوانوں تک بھی لے جاتی ہے۔ترقی پذیر ملکوں میں یہی
روائت ہے کہ وہاں پر سیاسی جماعتیں اہل الرا ئے لوگوں کو مواقع فراہم کرتی
ہیں کہ وہ اپنی صلاحیتوں سے ملک و قوم کی قیادت کا فریضہ سر انجام دے کر
ملک و قوم کی خدمت کریں ۔بل کلنٹن،بارک اوبامہ اور مارگریٹ تھریچر اس کی
واضح مثالیں ہیں لیکن ہمارے ہاں ابن ابن اور ابن کی گردان سے ہی جان نہیں
چھوٹ رہی۔ایک جاتا ہے دوسرا نئے نعرے کے ساتھ نمودار ہو جاتا ہے اور اس کے
بعد یہ سلسلہ اسی طرح جاری و ساری رہتا ہے اور عوام کو جمہوریت کے نام پر
ایک مخصوص خا ندان کا غلام بنا لیا جاتا ہے۔ اب اس خاندان سے وفاداری ہی
جمہوریت سے وفا داری قرار پاتی ہے۔اب اگر کوئی ایسا کرنے سے انکار کرتا ہے
تو اسے ر یاستی جبر سے دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس وقت ملک میں اپوزیشن
نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ ساری قابلِ ذکر جماعتیں اقتدار کے جھولے جھول
رہی ہیں۔پی پی پی نے تو مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مفاہمتی سیاست کے تحت پانچ
سال خا موش رہنا ہے بالکل ویسے ہی جس طرح مسلم لیگ (ن) پانچ سال خاموش رہی
تھی اور اس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑا تھا۔ لین دین کے اس کھیل میں
عوام پر کیا گزر رہی ہے پی پی پی باکل فراموش کر کے خاموشی کی چادر اوڑھے
ہوئے ہے۔ فی الحال عمران خان کی تحریکِ انصاف دھاندلیوں کے خلاف علم ِ
بغاوت بلند کر کے سیاست کو گرمانے میں لگی ہوئی ہے۔اس کی عوامی ریلیوں اور
جلسے جلوسوں سے ایسا تاثر ابھر رہا ہے کہ وہ تنِ تنہا اپوزیشن کا کردار ادا
کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن پارلیمنٹ میں اپنی عددی کمزوری کی وجہ سے مسلم
لیگ (ن) کو الٹی سیدھی فیصلہ سازی سے روکنا اس کے بس میں نہیں ہے ۔مسلم لیگ
(ن) کے پاس دو تہائی اکثریت ہے اس لئے میاں برادران کسی کی بات کو سننے
کیلئے تیار نہیں ہیں۔ علامہ ڈاکٹر طاہرا لقادری اور عمران خان بظاہر سیاسی
ٹیمپو بڑھائے ہوئے ہیں لیکن اس ٹیمپو کا معیار وہ نہیں کہ یہ حکومت کے لئے
کوئی بڑا خطرہ بن سکے۔عمران خان نے مئی ۲۰۱۳ کے انتخا بات میں مبینہ
دھاندلیوں کے خلاف حکومت کو ۱۴ اگست کی ڈیڈ لائن دے رکھی ہے کہ وہ الیکشن
میں چار حلقوں میں مبینہ دھاندلیوں پر گنتی اور انگوٹھوں کے نشانات کی
تصدیق کر لے وگرنہ ا س کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کی جائیگی جو حکومت کی
اقتدار سے بے دخلی تک جاری رہیگی۔علامہ ڈاکٹر طاہرا لقادری ناقص انتخا بی
قوانین کے خلاف پہلے ہی تحریک کا آغاز کئے ہوئے ہیں جس کیلئے اکتوبر اور
نومبر کے مہینے بڑے اہم ہیں ۔لندن میں مسلم لیگ(ق) اور پاکستان عوامی تحریک
کے درمیان رابطوں نے ایک بڑے اتحاد کی بنیادیں رکھ دی ہیں جس میں تحریکِ
انصاف اور دوسری جماعتوں کی شمولیت کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا
سکتا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان عوامی تحریک اور تحریکِ انصاف
اس وقت عوامی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں اور عوام کی اکثریت ان کی وساطت سے
ایک تبدیلی کی خوا ہاں ہے۔ایک ایسی تبدیلی جس سے متوسط طبقے کے لئے بھی
اقتدار میں شمولیت کے امکانات پیدا ہو سکیں۔ اس وقت تو ایک مخصوص گروہ اور
ٹو لہ ہی اقتدار کو اپنا پیدائشی حق سمجھتا ہے جس کی وجہ سے متوسط طبقہ
اقتدار کی راہد اریوں سے کوسوں دور رہتا ہے ۔ ۔،۔۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے آئین و قانون کو ذاتی خو اہشات کا غلام بنا
رکھا ہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک نیا سوشل کنٹریکٹ تر تیب دیا
جائے جس میں ملک کی اغلب آبادی کو بھی حکومتی فیصلوں میں شامل کیا جائے۔اس
وقت ملک کی ایک فیصد سے بھی کم آبادی کے چند خا ندان اقتدار اور معیشت پر
قابض ہیں اور ملکی خزا نے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔انھوں نے
پارلیمنٹ پر بھی قبضہ جمایا ہوا ہے اور قیامِ پاکستان سے اب تک کسی نہ کسی
انداز میں وہ پار لیمنٹ کے رکن بنے ہوئے ہیں ۔عوام کا کام انھیں پار لیمنٹ
تک پہنچانا اور ان کی ناز برداری کرنا رہ گیا ہے۔یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں
اکثریت پارلیمنٹ تک پہنچنے سے قاصر ہے۔عوام کو جمہوریت کا نہ تو بخار ہے
اور نہ ہی کوئی جوش اور شوق ہے جتنا ایک مخصوص طبقے کو ہے کیونکہ جمہوریت
ان کی اقتدار تک رسائی کی سیڑھی ہے۔لیکن کمال یہ ہے کہ جب مارشل لاء لگتا
ہے تو جمہوریت کے یہی چمپین فوجی حکومت میں بھی وزارتوں پر متمکن ہو جاتے
ہیں اور فوجی جرنل کو وردی میں سو دفعہ صدر منتخب کرنے کے عزم کا اظہار
کرتے ہیں۔ ان کی جمہوریت نوازی صرف اقتدار کا دوسرا نام ہوتا ہے اور ان کی
نظر میں جمہوری، شخصی یا فوجی حکومت میں کوئی فرق نہیں ہے۔انھیں اقتدار سے
محبت ہوتی ہے اور اس کیلئے سب کچھ جائز ہوتا ہے۔فوجی حکومت یا جمہوری حکومت
صرف اقتدار کی خاطر نعروں کا نام ہے وگرنہ ان کی ذا تی دلچسپی نہ جمہوریت
کے ساتھ ہوتی ہے اور نہ ہی فوجی حکومت کے ساتھ ہوتی ہے ۔وہ صرف اقتدار کے
بھوکے ہوتے ہیں اور جو کو ئی بھی انھیں اقتدار کی نوید سنا تا ہے وہ اسی کے
گیت گاتے ہیں۔جنرل پرویز مشرف کے گیت گانے والے اور اسے قائدِ اعظم کا لقب
دینے والے آج کل جنرل پرویز مشرف کے سائے سے بھی بھاگتے ہیں لیکن جب اقتدار
جنر ل پرویز مشرف کی مٹھی میں بند تھا تو یہ اس کے سائے کو بھی سلام کرتے
تھے اور گاہے گاہے اس سائے کے ساتھ لپٹ بھی جایا کرتے تھے۔اب وہی جمہوریت
کے علمبردار بنے ہوئے ہیں تو ان کی جمہوریت سے محبت کو بآسانی سمجھا جا
سکتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ عوام جموریت کے دیوانے بنے ہوئے تھے لیکن
سیاستدانوں کی لوٹ مار نے عوام کے جمہوری جذبوں کا خون کر کے انھیں جمہوریت
سے بد ظن کر دیا ہے ۔،۔،۔ |