دوستی جیسےخوبصورت رشتے کی مضبوطی و پائیدار میں بہت سے
عوامل کارفرما ہوتے ہیں جن کے کارن سمے کے جھکڑ، آنددھیاں، طوفاں و سیلاب
زدگیاں بھی اسکا کچھ بگاڑ نہیں پاتیں۔ بر عکس دوستی قائم و دائم رہتی ہے۔
دوستی میں بنیادی خمیر تھوڑے بہت فرق کے ساتھ کم و بیش سبھی عمر و جنس کے
دوستوں کے درمیاں ایک سا ہی رہتا ہے۔ اس کی ہمیشگی کا سب جواز و دار و مدار
اسکی بنیاد پر منحصر ہے۔
دوستی کی وہ نی اور بنیاد کیا ہے؟
دوستی کی عمارت کو دیر پا کھڑا رکھنے کیلئے بہت سے عناصر کلیدی کردار ادا
کرتے ہیں جن میں سے چند ایک جو میری نظر میں کچھ زیادہ اہمیت کے حامل ہیں
وہ ہیں خلوص ِ نیت ، باہمی احترام و برابری۔
میرے نزدیک ان عناصر کے بغیر دوستی کا تصور پُر نقص و اُدھورا ہے۔
اس رشتے کو یک طرفہ کاوشوں سے قطعاً دیر تک سنبھالا نہیں جا سکتا۔ باہمی
احترام و برابری اور ہم آہنگی نہ ہو تو جان لو کہ کچھ بھی باقی نہیں رہا۔
پاک بھارت تعلقات اس کی زندہ تابندہ مثال ہے۔
دونوں ہمسایوں کے درمیاں اوّل درجے کی بد اعتمادی ہے۔ الغرض مختصر دونوں کے
بیچ سرے سے دوستی نام کا کوئی رشتہ بنا ہی نہیں۔ جس کو بنانے کےلئے ہم شروع
دن سے اپنی سی پُر خلوص و نادان کوششوں میں لگے ہوۓ ہیں۔ جبکہ دوسری طرف سے
بھارت ہٹ دھرمی پر قائم ہے۔ ہر فورم پہ پاکستان پر الزامات و ہرزہ سرائی
کرتے نہیں تھکتا۔ افغانستان میں بھی اپنے بھیانک کردار کو باخوبی پایہ
تکمیل تک پہنچانے میں جتا ہوا ہے۔ اور بلو چستان میں علیحدگی پسندوں کے
ناپاک عزائم پیچھے بھی بھارتی کُھرا ملتا ہے۔ اور دوسری طرف ہم چپ ، خاموش،
دھنیا پی کر مست ،گریباں چاک، دیوانہ وار امن امن کا ورد جاپ رہے ہیں۔ سب
سے بڑھ کر امن کے داعی بنے پھرتے ہیں۔ جن کے کسی قول و فعل کو کہیں کوئی
وقعت نہیں ملتی۔ مفت میں خلوص نیت لے کے در در دھکے کھاتے پھرتے ہیں۔
آپ کو یاد ہوگا جب میاں نواز شریف نے اپنی حلف برداری کی تقریب کیلئے اُس
وقت کے بھارتی وزیر اعظم کو مدعو کیا تھا تو انہوں نے صاف لفظوں میں آنے سے
معزرت کر لی تھی۔ تو کیا بگڑ گیا بھارت کا؟
آج سے چند دن قبل جب بھارت کے الیکشن نتائج سامنے آۓ تو پاکستان کے وزیر
اعظم میاں نواز شریف نے جیتنے والی جماعت کے سربراہ نریندرہ مودی کو بڑھ کے
مبارک دی۔ آگے سے اُنہوں نے حلف برداری تقریب میں شرکت کی دعوت دے ڈالی۔ اب
کیا کرتے جانا پڑا سو چلے گے۔کیویکہ ہم مجبور مزاکرات کے مُتلاشی جو ٹھہرے۔
اور اُنہوں نے خطے میں ٹھیکےداری کی جو دھاک بِٹھانی تھی وہ باخوبی اس میں
کامیاب نظر آۓ۔
ہماری طرف سے مزاکرات کی اس یک طرفہ جسارت کو بھارت حقارت کی نظر سے دیکھتا
ہے۔ ہمیں کم تر و کمزور سیجھتا ہے جس کا تاثر جما ہمارے موجودہ و سابقہ
رہنماؤں کی کچی سیاست سے۔
اس وقت بھارت کو طاقت کا زعم ہے۔ گاہے بگاہے بھارت پاکستان کے خلاف زبان
درازی کرتا ہے تو ہم خاموش رہتے ہیں کہ کہیں امن عمل کو نا نقصان پہنچے۔ اس
طرح کبھی بھی ،کہیں بھی تعلوقات قائم نہیں ہوتے جس کرح سے ہمیں کرنے کی
جستجو ہے۔مزاکرات چاہتے ہیں تاکہ بجلی خریدی جا سکے ، اور آلو پیاز وغیرہ
کی تجارت شروع ہو سکے۔ مسئلہ کشمیر کیا اب ذیلی مسئلہ بن گیا ہے؟
عجیب لاغر و بیمار بیرونی سیاسی پالیسی ہے جو کشمیر جیسے مسئلے کو چھور
آلوؤں، پیازوں کے گرد گھومتی ہے۔
کرکٹ کی طرح سیاست میں بھی کچھ گیندیں اگلے قدم پر کھیلنے والی ہوتی ہیں تو
کچھ کو پچھلے قدم پر کھیل کر رنز بناۓ جاتے ہیں۔
اچھا بلے باز اور اچھا سیاستدان وہی ہوتا ہے جو گیند کو میرٹ پر کھیلے۔
ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔
شیرِ میسور ٹیپو سلطان نے کیا خوبصورت و جاندار جملہ فرمایا تھا
"شیر کی ایک دن کی زندگی، گیدڑکی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے"
اگر ہندو قوم امن و تفہیم سے رہنے اور مزاکرات پہ یقین رکھتی ہوتی تو ہندو
مسلم اتحاد کے دائی (قائد اعظم) ہندوؤں کے تنگ نظر رویے سے مایوس نا ہوتے
اور کانگریس چھوڑ کر مسلم لیگ کے جھنڈے تلے علیدہ وطن کیلئے کوشش نا کرتے۔
آخر میں بس اتنا کہوں گا کہ،
ہمت بڑاو ، طاقت پکڑو ورنہ بات کرنا بے سود و ثمر رہے گا۔
مذاکرات بہت اچھے ہوتے ہیں پر اسکی یک طرفہ چاہ میری فہم سے اوپر کی کوئی
چیز ہے۔ |