میدان ِ جنگ لہو سے اٹا ہوا تھا اس کے باوجود
مسلمان ٹولیوں میں آتے شہداء کو تدفین اور زخمیوں کو علاج کیلئے لے جارہے
تھے ان میں قریبی عزیزو اقارب اور دوستوں کو لہو لہو دیکھ کر بھی ان کے
چہرے پر طمانیت تھی سینے فخر سے چوڑے۔اﷲ تعالیٰ نے انہیں غزوہ ٔ بدرمیں فتح
عظیم سے سرفراز فرمایا تھا۔۔ اسی روز جنگی قیدیوں کو نبی ٔ اکرم صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کیا گیا آ پ ﷺ نے فرمایا جو رہائی کے
بدلے جزیہ دے سکتے ہیں جزیہ دیدیں جو پڑھے لکھے ہیں ہمارے لوگوں کو علم سے
بہرہ ور کردیں ہم انہیں رہا کردیں گے اس سے علم کی فضیلت کا اندازہ بخوبی
لگایا جا سکتا ہے۔ اﷲ کے آخری نبی ﷺ پر جو پہلی وحی نازل ہوئی اس میں اقراء
کا ذکر کیا گیا جس کے لفظی معانی ’’پڑھ ‘‘ ہے جس سے تعلیم کی اہمیت کا احسا
س کیا جا سکتاہے قرآن حکیم میں اﷲ تعالیٰ نے ایک سوال کیا ہے ۔۔کیا تعلیم
یافتہ اور ان پڑھ ایک ہو سکتے ہیں ؟ اﷲ نے اسے بینا اور نابینا سے تشبیہ دی
ہے دنیا کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ تعلیم کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں
کرسکتی حکومت کوسب کام چھوڑ کر ایجوکیشن کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے اس
وقت پاکستان کو شدید عالمی دباؤ اور حالات کا سامنا ہے اس قسم کی صورت حال
سے نکلنے اور حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کے لئے اعلیٰ تعلیم کا حصول
انتہائی ضروری ہے۔ جب تک مسلمانوں نے تعلیم اور ریسرچ کی طرف توجہ دی پوری
دنیا میں اس کا بول بالا تھا ماضی کے بیشتر سائنسدان، محقق،فلاسفر مسلمان
ہی تھے آج بھی متعدد یورپی یونیورسٹیوں میں ان کی کتابیں نصاب میں شامل ہیں
اور ہم ہیں کہ گھر کی مرغی دال برابر کے مصداق ہم نے کتاب سے دوستی ختم
کردی ہے ہماری حکومتوں نے اس جانب کوئی توجہ کی زحمت ہی نہیں کی وزیر اعلیٰ
میاں شہباز شریف تعلیم کے فروغ کیلئے کچھ انقلابی اقدامات کرنے کی کوشش کی
ہے یہ بات خوش آئند ہے کہ انہوں نے ایجوکیشن کی ترویج وترقی کے لئے جو
پالیسیا ں ترتیب دی ہیں ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ میاں شہباز شریف کی
تعلیمی پالیسیوں کے اثرات ہر شخص محسوس کرے گا انہوں نے بوٹی مافیا کے خلاف
سخت ایکشن لے کر ہونہار طلبہ کو ان کا حق دلانے کی کوشش کی ہے پاکستان میں
دن بہ دن تعلیم کا حصول مشکل ہوتا جارہاہے جس کا بڑا سبب یہ ہے کہ اب
ایجوکیشن نے صنعت کی صورت اختیار کرلی ہے جس کے باعث نہ صرف تعلیمی اخراجات
میں بے تحاشہ اضافہ ہو گیا ہے عام آدمی اپنے بچوں کو کالجز اور یونیورسٹیوں
میں پڑھانا افورڈ ہی نہیں کرتا حکومت نے بھی ان کو شتر بے مہار آزادی دے
رکھی ہے کوئی چیک اینڈ بینلس کا کوئی سسٹم موجودہی نہیں پرائیویٹ کالجز اور
یونیورسٹیوں میں پڑھنا ہرفیملی کے بس کا روگ نہیں جب تک پورے ملک میں یکساں
تعلیمی نظام نافذ نہیں کیا جا تا عام اور متوسط طبقہ اعلیٰ تعلیم سے محروم
ہی رہے گا ہر قومی رہنما نے اس سلسلہ میں بے شمار وعدے بھی کئے لیکن افسوس
اقتدار میں آکر وہ بھول جاتے ہیں ۔ تعلیمی انحطاط کی ایک بڑی وجہ سرکاری
تعلیمی اداروں کی شدید کمی ہے دیہات اور قصبات میں بیشتر مقامات پر تو
سرکاری سکولوں پر بااثر افرادکا قبضہ ہے کہیں جانور باندھے جاتے ہیں تو کئی
سکولوں پر ناجائز تجاوزات کردی گئی ہیں ایک مربوط حکمت ِ عملی کے تحت انہیں
واہگذار کرایا جائے دوسرا سرکاری کالجز اور یونیورسٹیوں کی کمی کے پیش ِ
نظر تمام سرکاری تعلیمی اداروں میں ڈبل شفٹ کو رواج دیا جائے جس سے سستی
تعلیم کو فروغ ملے گا اور ایجوکیشن سیکٹر میں اجارہ داری ختم ہونے میں بھی
مدد مل سکتی ہے اس کے ساتھ ساتھ اگر ہر شخص یہ تہیہ کر لے کہ ا س نے اپنے
اہل خانہ کو تعلیم یافتہ بنانا ہے تو پاکستان اقوام عالم میں سر بلند ہو
سکتا ہے۔صرف اس طریقے سے ہم اپنے دشمن کا ،حالات کا،دور حاضر کا ، امریکہ
کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ یہی ایک طریقہ ہے پاکستان کو بچانے کا ، اسے دشمن
سے محفوظ بنانے کا۔اسے مستحکم کرنے کا ہم اپنے بچوں، بھائیوں، بہنوں اور
دیگر فیملی ممبروں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرکے انہیں ڈاکٹر،وکیل،
انجینئر،سائنسدان بناکر انہیں معاشرہ میں ایک باوقار مقام دلا سکتے ہیں
ہمارے پیارے نبی رحمت ِ عالم ﷺنے بھی علم کے حصول پر بڑا زور دیا ہے اس
لحاظ سے یہ مذہبی فریضہ بھی ہے۔ اگر آپ آنے والی نسلوں کو جہالت سے بچانا
چاہتے ہیں تو پھر ایجوکشن کی طرف خصوصی توجہ دیناہوگی بالخصوص لڑکیوں کو
زیادہ سے زیادہ تعلیم دلائیں اپک پڑھی لکھی ماں اپنے بچوں کو بہتر طورپر
تعلیم یافتہ بنا سکتی ہے اس سے پورے خاندان کی کایہ پلٹ جائے گی۔۔کیا آپ
مستقبل کے معماروں کا مستقبل سنوارانا چاہتے ہیں؟ اس کا فیصلہ آپ نے کرناہے۔۔۔
اس کے بارے آپ کا فیصلہ کیا ہے ہر گذرتا لمحہ ہم سے یہ سوال کرتا ۔۔ہمارے
احساس کو جھنجھوڑتا گذررہا ہے اورہمیں اس کا احساس تک نہیں۔ |