نقل نہیں عقل کرو

 نقل دیمک کی طرح ہماری نسل کو چاٹ رہی ہے

تعلیم ایک ایسی نعمت ، جو قوموں کو جہالت کی دلدل سے نکال کر روشنی کے ایک ایسے جزیرے میں پہنچا دیتی ہے جہاں ہر چیز واضح اور روشن نظر آتی ہے۔

تعلیم قوموں کی تقدیر بدلنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔لوگوں میں شعور ، آگاہی اور جانوروں اور انسانوں میں حدّفاضل ہے۔ کیونکہ زندگی تو جانور بھی گُزارتے ہیں مگر تعلیم ایک انسان کو انسان بناتی ہے اُس اشرفُ المخلوقات کا درجہ دیتی ہے جس کی وجہ سے اُسے پیدا کیا گیا، وہ الگ بات ہے کہ کچھ لوگ تعلیم حاصل کرکے بھی اِس خُوبصورت لفظ کی لاج نہیں رکھتے۔ تعلیم سوچ کو بدلنے اور وسیع النظری کا نام ہے ۔
جو قومیں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہیں وہاں ترقی بخوبی دیکھی جا سکتی ہے ۔ وہی ا قوم صرف اسی کے بَل بوتے پر ترقی کر پائیں جنھوں نے اپنا اوڑھنا بچھونا صرف تعلیم کو بنایا ، جِن کو اس بات کا بخوبی احساس ہے کہ شرح خواندگی جس قدر زیادہ ہو گی اُسی قدر ہم اس دنیا میں فخر سے سر اُٹھا کر جی سکیں گے ، یہ ہی وجہ ہے کہ کہ کئی ممالک کی شرح خواندگی پاکستان سے کہیں بہتر ہے۔ہمارا ملک بھی اس کوشش میں سرگرداں ہے ، مگر چند مُٹھی بھر لوگ ایسے ہیں جو اِن کوششوں کو سبوتاژکرنے کی حتی الامکان سعی کرتے ہیں، جی ہاں! وہ ہیں نقل مافیا جو ہماری نئی نسل کوذہنی طور سے مفلوج کر رہے ہیں ، اس بات سے بے خبر ہمارے بچے بھی اسی رَو میں بہہ رہے ہیں ، ہمارے بچوں پر امتحان کا حواّ اس طرح سوار ہوتا ہے کہ اِن کے ہاتھوں کے طوطے ہی اُڑ جاتے ہیں ،اور امتحان میں پاس ہونے کا صرف ایک ہی طریقہ نظر آتا ہے کہ نقل کی جائے۔

نقل ایک ایسی عفریت ہے ، جو آہستہ آہستہ ہمارے بچوں کو جکڑ رہی ہے کیونکہ ہمارے بچوں کے دِلوں میں تعلیم کی اہمیت جڑ نہیں پکڑ پا رہی ہے جب تک انہیں تعلیم کی اہمیت کا احساس نہیں ہو گا تب تک اس سے چھٹکارا پانا نا ممکن ہے ۔ہمارے بچے جدو جہد اور محنت کرنا نہیں جانتے وہ صرف امتحان پاس کر لینا ہی کافی سمجھتے ہیں ، لیکن اس طرح سے پاس ہونے سے ان کی اور قوم کی تقدیر کس طرح بدلے گی؟؟ وہ اِس بات سے قطعی نا آشنا ہیں ، بے حد معافی کے ساتھ ہمارے ملک میں وہی تعلیمی ادارے عزت کی نگاہ سے دیکھے جا تے ہیں یا والدین بھی اُن ہی میں اپنے بچوں کا داخلہ کروانے میں فخر محسوس کرتے ہیں جن کی بھاری بھرکم فیسیں ہوتی ہیں ، ان اداروں میں صرف پڑھایا جاتا ہے ،پاس ہونے اور اگلی جماعت میں جانے کے لئے، کہیں کہیں اس میں قصور اساتذہ اور اسکول کے منتظمین کا بھی ہے کیونکہ انھیں اسکول کی کارکردگی کی فکر زیادہ ہوتی ہے کہ بہترین نتیجہ دِکھا کر یہ بتایا جا سکے کہ بچے تعلیم یافتہ ہو رہے ہیں ، وہ بچوں میں عِلم کی جَوت جگانے میں ناکام ہیں جس کے باعث انہیں تعلیم کی اہمیت کا اندازہ ہو جہاں انہیں یہ باآور کروایا جائے کہ تعلیم ہی ایسا تریاق ہے جو جہالت کے بڑے سے بڑے زہر کا اثر زائل کر دیتا ہے۔ہم بڑے فخریہ انداز میں کہتے ہین کہ نئی نسل کے ہاتوں میں اس ملک کی باگ ڈور ہے مگر ہماری یہ نئی نسل اپنے ہاتھوں میں بُوٹی اور نقل کے پھّرے لئے امتحانی مراکز پر جا بجا نظر آتی ہے ۔

اِن بچوں کو تو خود اپنے اوپر یقین نہیں ، جو صرف ایک چھوٹا سا امتحان پاس نہیں کر سکتے وہ ملک کی تقدیر کیا بدلیں گے؟؟؟؟

میری گُزارش اپنے طلباء و طالبات سے ہے کہ خُدارا اپنے بَل بوتے اور اعتماد پر جینا سیکھئیے ،امتحانوں میں نقل کا سہارا لے کر پاس ہونے سے اس ملک کی جڑیں کھوکھلی ہو رہی ہیں ، اس مافیا کا خاتمہ صرف آپ کے ہی ہاتھوں ممکن ہے، اس کا قلع قمع ہم ہی کریں گے ،تاکہ ہم اپنے ارضِ پاک کو بہتر سے بہترین کی طرف گامزن کر سکیں ، ایک مظبوط پاکستان کی بنیاد رکھ سکیں جس کا خواب بابائے قوم نے دیکھا تھا۔
Rubina Ahsan
About the Author: Rubina Ahsan Read More Articles by Rubina Ahsan: 18 Articles with 25848 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.