“ 1969ء میں خان عبدالٖغفار خان المعروف باچا خان کو
ہندوستان سے دعوت نامہ ملا کہ گاندھی جی کی برسی میں شمولیت کریں، باچا خان
کا پاکستانی پاسپورٹ جو ایک سال کیلئے تھا اُس کی معیاد ختم ہوچکی تھی ،
افغان حکومت نے پیشکش کی آپ کو ہم افغان پاسپورٹ دے دیتے ہیں لیکن، باچا
خان نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ "وہ ایک پاکستانی کی حیثیت سے پاکستان ہی کے
پاسپورٹ پر سفر کریں گے" ، کابل میں ہندوستان کے سفیر نے کہا کہ وہ اُن
کیلئے ایک معزز ہستی ہیں اُنہیں کسی پاسپورٹ ، ویزہ کی ضرورت نہیں ، باچا
خان نہ مانے ۔باچا خان نے اپنا پاسپورٹ پاکستانی سفارتخانے کو بھیجا اور
ساتھ ہی ایک خط بزبان پشتو سردار عبدالرشید وزیر داخلہ جس میں تجدید
پاسپورٹ کی خواہش ظاہر کی گئی تھی ، بحیثیت کو نسلر آفیسر میں باچا خان کی
درخواست مع خط اپنی وزرات خارجہ کو ارسال کیا وہاں سے منظوری آئی اور انھیں
نیا پاسپورٹ جاری کردیا گیا ، انڈیا میں باچا خان کو جواہر لال نہرو ایوارڈ
دیا گیا اور اس کے ساتھ اسی لاکھ ہندی روپے بھی تھے ۔ واپسی پر ایس فدا
حسین جن کا تعلق کرک سے تھا، ان کے ہمراہ ان کی ملاقات محمد علی لونگین کے
گھر ہوئی ، باچا خان نے اسی(80)لاکھ روپے افغان نیشنل بنک میں جمع وہ چاہتے
تھے کہ اس رقم سے پشتون ٹرسٹ قائم کیا جائے جو پشتونوں کی فلاح و بہبود
کیلئے کام کرے ، اس ٹرسٹ کیلئے انہوں نے اپنی جائیداد میں سے پانچ جزیب
زمین بھی وقف کی تھی ٹرسٹ کے منتظم کے طور پر عبدالخالق کا نام زیر غور آیا
تھا ، جب مشرقی پاکستان میں سیلاب نے کافی تباہی مچادی صدر جنرل یحی خان نے
ریلیف فنڈ قائم کیا تو باچا خان نے پانچ ہزار امریکی ڈالر بطور چندہ
پاکستانی سفارت خانے کو دئیے۔(بحوالہ کتاب" تھانے سے سفارت خانے تک" ، مصنف
ایس فدا حسین)۔
یہ وہی باچا خان ہیں جن پرہمیشہ پاکستان سے غداری کا الزام لگایا جاتا
رہاہے ، شائد بہت کم لوگوں کو یہ علم ہوگا کہ باچا خان نے اپنی عملی جدوجہد
کا آغاز تعلیم کے میدان سے کیا تھا ۔یہ باچا خان ہی تھے جو انگریز اور اس
کے پروردہ قوم فروشوں کے خلاف تعلیمی جہاد رکھنے کے واحد علمبردار تھے ۔
ہندوستان نژاد امریکی مصنف ایکنات سوارن اپنی کتاب A Man to Match his
Mountains (معروف ادیب غنی خٹک نے جس کا پشتو میں ترجمہ کیا ہے(لکھتے ہیں
کہ" باچا خان نے اپنے اصلاحی اور تعلیمی پروگرام کو عوام تک پہنچانے کیلئے
کندھے پر چادر ڈالے ہزاروں میل کا سفر کیا اور تین سال میں صوبہ سرحد کے
تمام 500بندوبستی گاؤں کا دورہ کیا" ۔ یہ صورتحال دیکھ کر چیف کمشنر سر جان
میفی نے باچا خان کے والد بہرام خان کو بلا کر کہا کہ" جب پورے صوبے میں
کوئی اور اس کام میں دلچسپی نہیں لیتا تو تمہارا لڑکا ہی اسکول قائم کرنے
پر کیوں تلا ہوا ہے" ۔
بہرام خان نے باچا خان سے اس کا تذکرہ کیا تو باچا خان نے کہا کہـ" بابا
فرض کیجئے ، لوگ نماز پڑھنا چھوڑ دیں تو کیا آپ مجھ سے یہ فرمائیں گے کہ
میں بھی نماز نہ پڑھوں" ، والد نے کہا کہ نما ز تو فرض ہے ، باچا خان نے
جواب دیا کہ" علم کا حصول بھی تو فرض ہے ، جس پر بہرام خان نے بیٹے کے
کندھے پر شفقت سے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا کہ پھر تو میں بھی تمھارے ساتھ ہوں
،" چنانچہ 17دسمبر1921ء کو جب باچا خان مدرسے (اسکول) میں فٹ بال گراؤنڈ
بنا رہے تھے تو انھیں گرفتار کرلیا گیا۔باچا خان مجموعی طور پر35سال
پسزنداں گذارے ، لیکن یہ ایک منفرد واقعہ ہے کہ آپ نے زندگی کی پہلی قید
قوم کے بچوں کو زیور تعلیم کرنے کے"جُرم"میں کاٹی،1924ء میں رہا ہوئے تو آپ
کا والہانہ استقبال پختون روایات کے مطابق کیا گیا اور انواع و اقسام کے
کھانے پیش خدمت کئے جانے کیلئے تقریبات میں مدعو کرنے کی کوشش کی گئی تو آپ
نے فرمایا کہ" جو رقم آپ لوگ کھانے اور دیگر تقریبات پر خرچ کرنا چاہتے ہیں
، وہ گاؤں کے اسکول کے فنڈ میں جمع کرادیں اور اسی موقع پر باچا خان نے غلط
رسومات کے خاتمے اور تعلیمی پروگرام کو منظم خطوط پر چلانے کیلئے "انجمن
اصلاح افغانیہ"کی بنیاد ڈالی اور پشتون کے نام سے ادبی رسالہ بھی جاری کیا۔
اﷲ بخش یوسف اپنی کتاب "صوبہ سرحد اور جدوجہد آزادی"میں ایک واقعہ لکھتے
ہیں کہ جب باچا خان کے والد بہرام خان جو علاقے کے بہت بڑے خان تھے ،
انتقال ہوا تو دور دور سے مولوی صاحبان اس توقع کے ساتھ آئے کہ انہیں
بہت"خیرات"ملے گی لیکن جب تدفین کے بعد"خیرات"کا موقع آیا تو مولوی صاحبان
کو مخاطب کرتے ہوئے باچا خان گویا ہوئے کہ" احادیث میں صدقہ جاریہ کی تلقین
کی گئی ہے لہذا میں والد صاحب کے ایصال ثواب کیلئے دو ہزار روپے گاؤں کے
مدرسے میں بطورصدقہ جاریہ دیتا ہوں۔"ظاہر ہے کہ اس کے بعد اُن مولوی صاحبان
کے غم و غصے کا کیا حال ہوا ہوگا۔انگریز جانتا تھا کہ اگر تلوار کے ماہر
قلم کے شیدائی بن گئے تو پھر انھیں زیر کرنا ناممکن ہوجائے گا۔لہذا انگریز
ڈپٹی کمشنر سر ہملٹن گرانٹ نے باچا خان کے قائم مدارس (اسکولوں) کے خلاف
کاروائی کیلئے اپنے ایجنٹ دلاور خان کو اسسٹنٹ کمشنر بنا کر بھیجا جس نے
تحریک خلافت کو کچلنے کے باعث شہرت پائی تھی لیکن یہاں ایسے ناکامی کا
سامنا کرنا پڑا باچا خان کے ان مدرسوں(اسکولوں) نے بیرون صوبوں میں کافی
شہرت پالی تھی لہذا ہندوستان کے کونے کونے سے اور خاص طور بلوچستان سے آپ
کو مدعو کیا جانے لگا ۔جس پر انگریز سرکار نے چراغ پا ہو اسن اسکولوں کے
خلاف کریک ڈاؤن کرڈالا اور باچا خان کے مدارس(اسکولوں) کے خلاف بھر پور
کاروائیوں کا آغاز کرتے ہوئے جگہ جگہ اساتذہ کو گرفتار کئے جانے لگا۔دیر کے
علاقے میں قائم اخواندزادوں اور پراچوں کے تعاون سے قائم ایک بڑے
مدرسے(اسکول) جس میں450طالب علم زیر تعلیم تھے ، ملاکنڈ ایجنسی کے پولیٹکل
ایجنٹ مسٹر کیب نے انگریز حکومت کے کہنے پر دیر کے نواب کو مدرسہ(اسکول)
تباہ کرنے کا حکم دیا جس پر دیر کے نواب نے وہ مدرسہ(اسکول) نذر آتش
کرڈالا، گو کہ بعد میں معذرت کرتے ہوئے کہا کہ وہ انگریز حکومت کے احکامات
کی وجہ سے مجبور تھا۔انگریز نے مرکزی مدرسے(اسکول) کے خلاف کاروائی کے لئے
پولیس کپتان حافظ زین العابدین ، جس کا تعلق امرتسر سے تھا ، باچا خان کو
گرفتار کرنے کیلئے بھیجا ، لیکن انھیں گرفتار کرنے کے بجائے اُس کپتا ن نے
بتایا کہ آپ کی تعلیمی تحریک سے متاثر ہوکر امرتسر میں بھی مدرسے(اسکول)
قائم ہوگئے ہیں اور قربانی کی کھالوں کے ذریعے سے ان کے اخراجات پورے کئے
جاتے ہیں ۔ گو کہ باچا خان کو گرفتار تو نہیں کیا لیکن مدرسہ (اسکول) بند
کرادیا گیا ، یہی وہ زمانہ تھا کہ باچا خان تعلیمی جد وجہد میں انگریز
حکومت کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتے رہتے اور انگریز حکومت انھیں غدار سمجھ کر
گرفتار اور مدارس (اسکول) بند کرانے کی تگد ودو میں لگے رہتے ، اور بالآخر
خوشحال خان خٹک بابا کی طرح انھوں نے بھی انگریزوں کے خلاف طبل جنگ بجا دیا
اور مجبورا میدان سیاست میں آگئے۔
افغانستان میں باچا خان کی تعلیمی خدمات سے متاثر ہوکر2010ء کا سال اعتراف
کے طور پر منایا گیا ، جبکہ باچا خان جس نے پاکستانی پاسپورٹ کے بغیر انڈیا
جانے سے انکار کردیا تھا کہ وہ پاکستانی شہریت کے بغیر انڈیا نہیں جائیں گے
، آج بھی اکثر ناعاقبت اندیشں انھیں غدار کہہ کر آسمان پر تھوکنے کی کوشش
کرتے ہیں۔انھوں نے 104سال قبل قوم کو اندھیروں کا راہی بننے سے روکنے کی
خاطر آزاد مدرسوں (اسکولوں) کے قیام کا بیڑا اٹھایا اور علمائے حق کے قافلے
میں مولوی عبد العزیز کے ہمراہ1910ء میں اپنے گاؤں اتمانزئی میں پہلے
مدرسے(اسکول) کی بنیاد رکھی جس میں دین و دنیا دونوں کی تعلیم کو نصاب کا
حصہ بنایا، ممتاز کلاسیکل شاعر غنی خان اسی مدرسے(اسکول) سے فارغ التحصیل
تھے ، انھیں کمسٹری کی تعلیم کیلئے امریکہ باچا خان نے بھیجوایا لیکن جب
انگریز حکومت نے1931 ء میں باچا خان کو گرفتار کیا تو ان کی ساری جائیداد
بنجر ہوگئی اور ان حالات کی وجہ سے انھیں تعلیم ادھوری چھوڑ کرواپس آنا
پڑا۔ جبکہ خان عبدالولی خان حجروں اور مساجد کے اجتماعات میں خوش الحانی سے
قرات کرتے تھے ، جبکہ تیسرے صاحبزادے اور سابق سیکرٹری تعلیم عبدالعلی خان
عرف لالی کی تعلیمی خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں،انھوں نے آکسفورڈ سے ایم
اے کیا۔باچا خان کی تین نواسیاں ڈاکٹر ہیں باقی نواسیوں میں کوئی بھی ایم
اے ، کوئی بی اے ہے۔شائد یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ باچا خان کو
ان کے بھائی خان صاحب فوج میں بھرتی کرانا چاہتے تھے لیکن باچا خان کی
والدہ کو انگریز فوج کی ملازمت پسند نہ تھی اس لئے انھوں نے سختی سے منع
کردیا ، اس لئے انھوں نے باچا کو کیبل پور ( اٹک شہر) کے سکول میں داخلہ
دلادیا ،اس کے بعد وہ علی گڑھ چلے گئے ۔ یہی وہ زمانہ تھا جب علی گڑھ میں
مسلم طلبا ء میں سیاسی بیداری پیدا ہورہی تھی اور اور ہند انگریز حکومت سے
مطالبہ کیا جارہا تھا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا درجہ دیا جائے۔ڈاکٹر
خانصاحب نے باچا خان کو انگلینڈ آنے کی دعوت دی کہ وہ یہاں آکر انجنئیرنگ
کی تعلیم مکمل کرلیں لیکن باچا خان نے ملک و قوم کے خاطر ان کی پیشکش کو
ٹھکرا دیا۔مسلم قوم میں تعلیم کا شعور پیدا کرکے برطانوی استعمار کے خلاف
جدوجہد کرنے والوں کو تاریخ میں مخالفیں نے ہمیشہ غدار کا نام دیا ہے ۔ سر
سید احمد خان ہوں یا خان عبدالغفار خان باچا خان ، انھیں قوم سے محبت تھی
اور وہ یہی چاہتے تھے کہ اگر ترقی کرنی ہے تو تعلیم کو اپنا ہتھیار بنانا
ہوگا ۔ ابتدائی پیرائے میں باچا خان کی پاکستان سے محبت کا اس سے بڑا اور
کیا ثبوت ہوگا کہ انھوں نے پاکستان کو دل سے تسلیم کیا اور ایسے اپنا وطن
سمجھا، اگر ایس انہیں ہوتا تو وہ کبھی بھی پاکستانی پاسپورٹ کی ضد نہ کرتے
اور ان جیسی شخصیات کو کسی شناخت کی ضرورت بھی نہیں ہوتی ، لیکن باچا خان
ایک اصول پسند اور محب وطن عظیم لیڈر تھے جنھوں نے اپنی انا کے بجائے
پاکستانیت کی پہچان کو ترجیح دیکر تاریخ میں خود کو امر کردیا ۔ہم نے غداری
کے سٹریفیکٹ تقسیم کرنے اور کفر کے فتوے لگانے کے کارخانے لگائے ہوئے ہیں ۔
باچا خان کی زندگی کا یہ غیر معمولی گوشہ ہم سب کے لئے مشعل راہ ہے۔ |